محمود میاں نجمی
تخلیقِ کائنات کے بعد سب سے پہلے وجود میں آنے والا رشتہ، شوہر اور بیوی کا ہے۔ عورت کو اللہ نے حسن و نزاکت، شرم و حیا، ایثار و قربانی، صبر و شکر، خدمت و اطاعت کی دولت سے مالا مال کیا، تو مرد کو اس کا محافظ، سرپرست اور نگہبان مقرر کیا۔ یوں دنیا کا یہ سب سے حسین رشتہ، کائنات میں انسان کی افزائشِ نسل کا سبب بنا اور دنیا میں قوسِ قزح کے رنگ بکھرگئے، لیکن پھر وقت کے ساتھ ساتھ مرد کی فطری برتری، جسمانی قوّت نے عورت کو اس کا محکوم بنادیا۔
اس کے وجود کوکم تر، منحوس خیال کرتے ہوئے پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کیا جانے لگا اور یہی وہ لمحہ تھا کہ جب عرشِ الٰہی سے کرئہ ارض کو اسلام کی پرنور کرنوں سے منور کیا گیا۔ آقائے دوجہاں، سرکارِ دوعالم، محسنِ انسانیت، رحمۃ للعالمین حضرت محمدمصطفیٰﷺ جب سرزمینِ عرب پر رونق افروز ہوئے، تو ارض و سما مسحورکن خوشبوئوں سے مہک اٹھے، کائناتِ عالم میں موجودکفر پر لرزہ طاری ہوگیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ بے توقیر اور حقیر سمجھی جانے والی صنفِ نازک کو اسلام نے عزت و احترام کے اعلیٰ مرتبے پر فائز کرتے ہوئے اسے وہ بلند مقام عطا کیا کہ جس کی دنیا کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ یہ ایک گاڑی کے دو پہیّوں کی مانند ہیں کہ جن میں سے اگر ایک خراب ہوجائے، تو گاڑی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ اسی لیے اللہ رب العزت نے انہیں ایک دوسرے کا ’’لباس‘‘ قرار دیا۔ سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ شوہروں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ (ترجمہ) ’’وہ (عورتیں) تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔‘‘ یعنی لباس جسم کی پردہ پوشی کرتا ہے، لہٰذا اسی طر ح کی پردہ پوشی شوہر اور بیوی میں بھی ہونی چاہیے۔ دونوں ایک دوسرے کے رازدار، پردہ دار اور امین ہوں۔
جس طرح لباس جسم کو تحفّظ فراہم کرتا، ماحولیاتی اثرات سے محفوظ رکھتا ہے۔ اسی طرح شوہر اور بیوی بھی ایک دوسرے کی پردہ پوشی کرکے، تحفّظ فراہم کرکے معاشرے کے گرم و سرد سے محفوظ رکھتے ہیں۔ لباس، انسانی شان و شوکت، عزت و وقار میں اضافہ کرتا ہے، تومیاں، بیوی بھی ایک دوسرے کے لیے عزت و وقار اور شان و شوکت کا سبب ہوتے ہیں۔ لباس، انسانی شخصیت کا آئینہ ہے، تو شوہر اور بیوی بھی ایک دوسرے کا آئینہ ہوتے ہیں، لیکن یہ سب اسی وقت ممکن ہے کہ جب میاں، بیوی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنے حقوق و فرائض کے بارے میں نہ صرف مکمل آگاہی رکھتے ہوں، بلکہ ان پر عمل پیرا بھی ہوں۔
شوہر کے فرائض، بیوی کے حقوق اور بیوی کے فرائض، شوہر کے حقوق ہیں۔ آج بھی بہت حد تک اس مغرب زدہ معاشرے میں، جو گھرانے ان حقوق و فرائض کی پاس داری کرتے ہیں، وہاں امن و سکون، خوش حالی اور برکت ہوتی ہے، لیکن جو خاندان ان حدود کو نظرانداز کرتے ہیں، وہاں بداعتمادی، تلخیاں، لڑائی جھگڑے اور فساد روز کا معمول ہیں۔
بعض اوقات گھریلو ماحول کی یہ کشیدگی بتدریج ایک ہنستے بستے خاندان کا شیرازہ تک بکھیرنے کا سبب بن جاتی ہے۔ آج اس بات کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے کہ ہم اپنے خاندانی نظام کو مغرب کی بے راہ روی سے بچاتے ہوئے، اسلامی معاشرتی نظام میں شوہر اور بیوی کے حقوق و فرائض کے بارے میں بڑے پیمانے پر آگاہی پیدا کریں۔ اللہ بزرگ و برتر نے قرآنِ کریم کی سورۃ الحجرات کی آیت نمبر13 میں عورت اور مرد کا ایک ساتھ ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔
’’ہم نے تم دونوں کو ایک عورت اور ایک مرد سے پیدا کیا۔ تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے، زیادہ پرہیزگارہے۔‘‘ اس کے ساتھ ہی شریعتِ اسلامی نے دونوں کے حقوق و فرائض کی کچھ حدود مقرر کیں تاکہ ان کی پاس داری کرکے دین و دنیا میں سرخ رو ہوا جاسکے۔ شوہر کے حقوق سے متعلق چند بنیادی باتیں ہمیشہ ذہن نشین رہنی چاہئیں کہ شوہر کا حق یہ ہے کہ اس کی بیوی اس کی اطاعت و و رضاجوئی کرے اوراس کی فرماں بردار ہو۔
وہ خاوند کے اعتماد، عزت و عصمت، مال و دولت، گھربار اور اولاد کی محافظ ہو۔ شوہر کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہ کرے، اس کی جملہ ضروریات کا خیال رکھے۔ خاوند کی اجازت کے بغیر نہ خود باہر جائے اور نہ کسی کو گھر بلائے۔ شوہر کی بہترین دوست، رازدار، غم گسار، رفیق و ہم درد اور اس کے دکھ سکھ کی ساتھی ہو۔ اس کے بچّوں کی بہترین پرورش و نگہداشت کرے۔ شوہر کی حیثیت اور آمدنی کو مدنظر رکھتے ہوئے گھر کے جملہ معاملات کو حسنِ انتظام کے ساتھ چلائے، خاوند کی خوشی اور دل جوئی کے لیے بنائو سنگھار کرے، شوہر کا احترام کرتے ہوئے اسے خوش رکھے۔
شوہر کی اطاعت و رضا جوئی:حضرت امّ سلمہؓ بیان کرتی ہیں کہ ’’رسول اللہؐ نے فرمایا کہ جس عورت نے اس حالت میں وفات پائی کہ اس کا شوہر اس سے راضی تھا، وہ جنّت میں داخل ہوگی۔‘‘ (ترمذی) حضرت ابو امامہ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ ’’مومن نے اللہ کے تقویٰ کے بعد نیک بیوی سے بہتر کوئی بھلائی حاصل نہیں کی۔ اگر وہ اسے حکم دے، تو اطاعت کرتی ہے۔ اس کی طرف دیکھے، تو خوش کرتی ہے، اگر اس پر قسم ڈالے تو پورا کردیتی ہے اور اگر وہ غیر حاضر ہو، تو جان و مال میں اس کی خیرخواہی کرتی ہے۔‘‘ (ابنِ ماجہ) حضرت انسؓ سے مروی ہے کہ حضور اکرمؐ نے فرمایا ’’عورت جب پانچ وقت کی نماز پڑھے، مہینے بھر کے روزے رکھے، اپنی عفّت و عِصمت کی حفاظت کرے اور اپنے خاوند کی اطاعت کرے، تو پھر اسے حق ہے کہ وہ جنّت کے جس دروازے سے چاہے، اس میں داخل ہوجائے۔‘‘
اس حدیثِ مبارکہ کے مطابق، شوہر کی اطاعت جنّت میں اعلیٰ مقام کے حصول کا ذریعہ ہے۔ حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ تین آدمی ایسے ہیں، جن کی نماز قبول نہیں ہوتی اور نہ کوئی نیکی اوپر اٹھتی ہے۔ (1 )فرار ہونے والا غلام یہاں تک کہ وہ اپنے مالک کے پاس واپس لوٹے اور اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھے۔2) )وہ عورت جس کا خاوند اس سے ناراض ہو۔ 3) )نشہ کرنے والا جب تک ہوش میں نہ آئے۔ (اس عمل سے تائب نہ ہو)-
مرد، عورتوں پر قوّام ہیں: گھر کا نظام چلانے کے لیےبھی ایک سربراہ کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ گھر کے تمام افراد اس کی اطاعت کریں اور خاندانی نظام کی بہتر نگرانی ہوسکے۔ مرد کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے دی جانے والی خصوصی صلاحیتوں کی بناء پر گھر کی سربراہی کی ذمّے داری بھی اسی کے کاندھوں پر ڈالی گئی ہے۔ سورۃ النساء کی آیت نمبر34 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (ترجمہ) ’’مرد، عورتوں پر قوّام ہیں۔‘‘ تفہیم القرآن جِلد اوّل میں لفظ ’’قوّام‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے بیان کیا گیا ہے کہ قوّام یاقیّم اس شخص کو کہتے ہیں، جو کسی فرد، ادارے یا نظام کے معاملات درست سمت میں چلائے، اس کی حفاظت و نگہبانی کرے اور اس کی ضروریات کا خیال رکھے۔ سورۃ النساء کی اسی آیت میں اللہ تعالیٰ آگے فرماتا ہے۔ ’’لہٰذا اس بناء پر اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بناء پر کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔
پس، جو نیک بیویاں ہیں، وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اور مَردوں کے پیٹھ پیچھے ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔‘‘ اسی طرح ’’ایک دوسرے پر فضیلت‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے بیان کیا گیا کہ یہاں فضیلت بہ معنی شرف اور کرامت یا عزت نہیں ہے، بلکہ یہاں یہ لفظ اس معنی میں ہے کہ ان میں سے ایک صنف (یعنی مرد) کو اللہ نے طبعاً ایسی خصوصیات اور قوتیں عطا فرمائی ہیں کہ جو دوسری صنف (یعنی عورت) کو نہیں دیں، یا اس سے کم دی ہیں۔
اس بناء پر خاندانی نظام میں مرد ہی ’’قوّام‘‘ ہونے کی اہلیت رکھتا ہے اور عورت فطرتاً ایسی بنائی گئی ہے کہ اسے خاندانی زندگی میں مرد کی حفاظت، خبرگیری کے تحت رہنا چاہیے۔ حدیثِ مبارکہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے’’بہترین بیوی وہ ہے کہ جب تم اسے دیکھو، تو تمہارا جی خوش ہوجائے۔ جب تم اسے کسی کام کا حکم دو، تو وہ تمہاری اطاعت کرے اور جب تم گھر میں نہ ہو، تو وہ تمہارے پیچھے تمہارے مال اور اپنے نفس کی حفاظت کرے۔‘‘
شوہر کی عزت و احترام:حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ ’’اگر میں کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا، تو عورت کو یہ حکم دیتا کہ خاوند کو سجدہ کرے۔‘‘(ابنِ ماجہ) اس حدیث مبارکہ ؐ میں ایک مسلمان باشعور شوہر کے مرتبے کو عزت و احترام کے اعلیٰ مقام پر فائز کیا گیا ہے، لیکن یہ ذہن میں رہے کہ یہ مرتبہ ان شوہروں کے لیے ہے، جو اپنی بیویوں کے حقوق کی پاس داری اور ان کی دنیاوی ضروریات کو مدِنظر رکھتے ہوئے ان کے ساتھ بھی عزت و احترام اور شفقت و محبت کا رویّہ رکھتے ہیں۔ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر228 میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
(ترجمہ) ’’عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں، جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں، البتہ مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے۔‘‘ یہاں لفظ ’’درجہ‘‘ کا خلاصہ مفسّرین نے یہ کیا ہے کہ مرد کو عورت پر ایک حد تک فوقیت حاصل ہے اور اس فوقیت کی وجہ سے وہ گھر کا سربراہ کہلایا اور اس کے احترام کا حکم دیا گیا ہے اور جب ایک عورت اپنے شوہر کی عزت و احترام اور اطاعت و فرماں برداری کرتی ہے، تو دراصل وہ اپنے رب کے حکم کی بجاآوری کرتے ہوئے اللہ کی اطاعت کرتی اور اپنے لیے اللہ کی خوش نودی کے باعث جنّت کی حق دار ہوتی ہے، جب کہ اس کے برعکس، جو عورتیں اپنی بدزبانی، بدکلامی، چڑچڑے پن اور بے جا فرمائشوں کے سبب اپنی گھریلو زندگی میں تلخیاں گھولنے کا باعث بنتی ہیں، ان کے لیے دنیا میں خرابی کے علاوہ آخرت میں بھی ایک بڑا عذاب ان کا منتظر ہے۔ حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرمؐ نے فرمایا ’’جب دنیا میں کوئی عورت اپنے شوہر کوستاتی ہے، تو جنّت میں موجود اس کی خوب صورت آنکھوں والی حور بیوی اس کی دنیاوی بیوی سے کہتی ہے ’’اسے مت ستا، یہ تو تیرے پاس چند دن کا مہمان ہے اور جلد ہی تجھ سے جدا ہوکر ہمارے پاس جنّت میں آنے والا ہے۔‘‘ (ترمذی1174)
خوش گوار اور پرامن ماحول:گھر کے ماحول کو پرامن اور خوش گوار رکھنا، مرد کے علاوہ بیوی کی بھی بنیادی ذمّے داری ہے۔ شوہر کا یہ حق ہے کہ جب وہ گھر آئے، تو اس کے گھر کا ماحول پرامن اور خوش گوار ہو۔ جہاں اسے اطمینان، سکون اور راحت میسّر آئے، لیکن عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ خواتین اپنے غیر ذمّے دارانہ رویّے، بدمزاجی اور شکی طبیعت کی بناء پر گھر کے ماحول کو ناخوش گوار بنادیتی ہیں، حالاں کہ ذرا سی دانش مندی، حکمت، صبر و ضبط، درگزر اور مثبت اندازِفکر سے گھرکے ماحول کو جنّتِ نظیر بنایا جاسکتا ہے۔ کوئی ایسا گھر نہیں، جہاں میاں بیوی کے درمیان آپس میں کبھی اَن بن نہ ہوتی ہو، ایسے میں سمجھ دار بیویاںذمّے داری کا ثبوت دیتے ہوئے معاملات کو بہ احسن طریقے سے حل کرلیتی ہیں، جب کہ بدزبان بیویاں، شوہر کے غصّے میں اضافے کا باعث بن کر،جھگڑوں، اختلافات کو مزید بڑھاوا دیتی ہیں، پھر تواتر کے ساتھ ظہور پزیر ہونے والے یہ جھگڑے پورے گھر کا چین و سکون برباد کرکے رکھ دیتے ہیں۔جن گھرانوں میںوالدین کے لڑائی جھگڑوں اور چپقلش کی وجہ سے ذہنی سکون نہیں ہوتا، ان گھرانوں کے بچّے بھی مختلف معاشرتی مسائل کا شکار ہوجاتے ہیں، لہٰذا شوہرکے ساتھ بیوی کی زیادہ ذمّے داری ہے کہ وہ گھر کے ماحول کو پرامن، پرسکون، محفوظ اور خوش گوار بنائے۔
گھر، اولاد اور عفّت وعصمت کی حفاظت:بیوی کی ذمّے داری ہے کہ شوہر کے گھر، مال، اولاد اور اپنی عفّت و عصمت کی حفاظت کرے۔ اس کے کماکےلائے ہوئے مال کو سلیقے سے خرچ کرے، اس میں خیانت نہ کرے۔ حفاظت کرنے والی چیزوں میں، سب سے قیمتی شے عورت کی عزت و آبرو ہے۔
لہٰذا ایک مسلمان عورت اپنی عزت و آبرو پر کوئی آنچ نہیں آنے دیتی۔ قرآن کریم کی سورۃ النساء میں اللہ کا ارشاد ہے ’’پس، جو نیک عورتیں ہیں، وہ مردوں کی اطاعت شعار ہوتی ہیں اور ان کے پیچھے بہ حفاظتِ اللہ ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔‘‘ (34:4) حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ’’ چار چیزیں ایسی ہیں کہ جسے دی گئیں، تو اسے دنیا اور آخرت کی بھلائی مرحمت فرمائی گئی۔ شکر کرنے والا دل، ذکر کرنے والی زبان، تکلیفوں میں صبر کرنے والا بدن اور نیک بیوی، جو خاوند کے مال میں خیانت نہ کرے۔ ‘‘
اللہ، والدین اور شوہر کی شکرگزار:ایک نیک اور مسلمان عورت ہر حال میں اللہ کی شکرگزار ہونے کے ساتھ ساتھ شادی سے پہلے اپنے والدین کی شکر گزار ہوتی ہے، جو اس کی بہترین تعلیم و تربیت اور پرورش کرتے ہیں۔ شادی کے بعد اپنے شوہر کی شکرگزار ہوتی ہے، جو خاندان کا سربراہ اور بیوی کے جملہ حقوق کا محافظ اور ذمّے دار ہے۔ شوہر کا دائرئہ عمل صرف مادّی ضروریات پوری کرنے تک محدود نہیں ہوتا،بلکہ وہ روحانی، اخلاقی، سماجی تعلیم و تربیت کا بھی ذمّے دار ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کو خاندان کی حاکمیت کے اعلیٰ منصب پر مقرر کرتے ہوئے اسے پابند کیا ہے کہ وہ دین کے راستے پر خاندان کی رہنمائی و تربیت اور اصلاح کرے، لہٰذا شریعت کی رو سے عورت پر فرض ہے کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ شانہ بشانہ اولاد کی پرورش، تعلیم و تربیت میں معاون و مددگار ہو۔
یقیناً جائز ضروریات کی فراہمی، شوہر کے فرائض میں شامل ہے، لیکن بے جا فرمائشیں یا خاندان، دوست احباب اور پڑوسیوں کے گھروں میں موجود قیمتی نام و نمود کی اشیاء دیکھ کر ان کے حصول کے لیے شوہرپر دبائو ڈالنا، ضد ، بحث کرنا، ناراض ہونا یا ایسے الفاظ ادا کرنا، جس سے شوہر کی دل آزاری ہو اور وہ ناخوش ہوں، اسلام میں سخت ناپسند کیا گیا ہے۔ فضول اور غیر شرعی معاملات میں شوہر کو ناراض کرنا گناہ ہے۔
حضرت ابن ِعباسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا ’’مجھے دوزخ دکھائی گئی، تو میں نے دیکھا کہ اس میں اکثریت عورتوں کی ہے۔ (اس کی وجہ یہ ہے کہ) وہ کفر کرتی ہیں۔‘‘ صحابہؓ نے دریافت کیا۔ ’’یارسول اللہؐ! کیا وہ اللہ کا کفر کرتی ہیں؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’نہیں! وہ شوہروں کا کفر کرتی ہیں اور ان کا احسان نہیں مانتیں۔
تم کسی کے ساتھ زمانہ دراز تک احسان کرتے رہو، پھر اگر اسے تمہاری کوئی بات پسند نہ آئے، تو فوراً یہ کہے گی کہ میں نے تو تم سے کبھی بھلائی پائی ہی نہیں۔‘‘ اوریہ بات آج کے معاشرے میں تو بے حد عام ہے۔ عموماً خواتین اپنی کوئی معمولی فرمائش پوری نہ ہونے پر یا کبھی غصّے میںجھگڑے کے دوران شوہروں سے ایسے جملے ادا کرتی ہیں کہ ’’میں نے تو کبھی اس گھر میں آرام پایا ہی نہیں‘‘ یہ ناشکرا پن اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ہے۔
ایک مسلمان عورت پر لازم ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے رب اور شوہر کا شکر ادا کرتی رہے اور صبر و قناعت کے ساتھ پیار و محبت سے اپنے گھر کو امن و سکون کا گہوارہ بنائے۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا ’’جب کوئی عورت اپنے گھر کے مال کو جائز طریقے سے خرچ کرتی ہے اور فضول خرچی نہیں کرتی، تو اسے اس کا اجر و ثواب ملتا ہے، جب کہ اس کے شوہر کو حلال کمانے کا اور ان میں سے کسی کا بھی اجر و ثواب کم نہیں ہوتا۔‘‘ اس سے پتا چلا کہ حلال مال کو جائز طریقے سے خرچ کرنا بھی باعثِ ثواب ہے۔
اعتدال کے ساتھ بنائوسنگھار کی اجازت:اسلام دینِ فطرت ہے اور عورت فطرتاً بنائو سنگھار کو پسند کرتی ہے۔ حسین ودل کش اور خوب صورت چیزیں عورت اور مرد دونوں پسند کرتے ہیں۔ دینِ اسلام نے عورتوں کی فطری خواہشات کے احترام میں اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ شریعتِ مطہرہ کی پابندیوں کو ملحوظِ خاطر رکھ کر اپنے شوہروں کے لیے بنائو سنگھار کریں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ امّ لمومنین، حضرت عائشہ صدیقہؓ، حضرت عثمان بن مظعون کی اہلیہ سے ملنے گئیں، تو دیکھا کہ وہ نہایت سادہ لباس میں بغیر کسی بنائو سنگھار کے بیٹھی تھیں۔ حضرت عائشہؓ نے تعجب سے پوچھا ’’بی بی! کیا عثمان کہیں سفر پر گئے ہوئے ہیں؟‘‘ اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ شوہر کے لیے اچھا لباس اور بنائو سنگھار اسلام میں ایک پسندیدہ عمل ہے۔ شوہر کے لیے تیار ہونا، اس کا دل خوش کرنا عبادت ہے، لیکن اس کے معنی یہ نہیں کہ شوہر کو دی گئی اس اجازت کی آڑ میں عورت خوب بنائو سنگھار کے ساتھ چست اور عریاں لباس زیبِ تن کرکے بازاروں میں گھومتی پھرے، جیسا کہ آج کے دور میں ہورہا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن کریم کی سورۃ الاحزاب میں مسلمان عورتوں سے مخاطب ہوکر فرماتا ہے۔ (ترجمہ) ’’اور سابق دورِ جاہلیت کی طرح سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔‘‘ اللہ کے اس واضح حکم کے باوجود اگر مسلمان عورت خوب زیب و زینت کے ساتھ بازاروں میں نامحرموں کے سامنے گھومتی پھرتی ہے، تو وہ احکاماتِ خداوندی کو پامال کرکے گناہ کی مرتکب ہوتی ہے۔
ہاں! اگر وہ صرف اپنے شوہر کی خوشی کے لیے بنائو سنگھار کرتی ہے، تو یہ اس کے شوہر کا حق ہے، جو شریعت نے اسے دیا ہے اور بیوی کی اس طرح زیب و زینت سے شوہر کا رجحان بھی اپنی بیوی کی جانب زیادہ ہوتا ہے، دونوں کے تعلقات خوش گوار ہوتے ہیں اور ان میں پیار ومحبت بڑھتا ہے۔
حقِ طلاق:شریعت نے مرد کو بہ حالتِ مجبوری بیوی کو طلاق دینے کا حق دیا ہے، لیکن اس فعل کو نہایت ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک حلال چیزوں میں سے سب سے بری چیز طلاق ہے۔ (ابودائود) جب میاں، بیوی میں باہمی تعلقات خرابی کی اس انتہا تک پہنچ جائیں کہ مصالحت کی ہر کوشش ناکام ہوجائے۔
ساتھ زندگی گزارنا ممکن نہ رہ سکے، تو طلاق کی راہ اختیار کی جاسکتی ہے، لیکن یہاں بھی یہ احتیاط رکھی جائے کہ تینوں طلاقیں ایک ساتھ نہ دی جائیں۔ پہلے ایک طلاق دی جائے اور انتظار کیا جائے کہ شاید اللہ بہتری کی کوئی صورت نکال دے۔ طلاق کے سلسلے میں ایک طرف مرد کو تنبیہ کی گئی ہے کہ طلاق کو کھیل نہ بنائو، تو دوسری طرف خواتین کو بھی تلقین کی گئی ہے کہ انتہائی مجبوری کے بغیر خاوند سے طلاق نہ لی جائے۔
اسی طرح اس بات کو بھی ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے کہ اپنا گھر بسانے کے لیے کسی دوسری عورت کے گھر کو برباد کیا جائے۔ حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا۔ ’’کسی عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنی مسلمان بہن کی طلاق کا مطالبہ کرے تاکہ اس کی رکابی کو اپنے لیے حاصل کرے، کیوں کہ اس کی تقدیر میں جو کچھ ہوگا، وہ اسے مل جائے گا۔‘‘ (صحیح بخاری) حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا ’’جو عورت بلاضرورت اپنے شوہر سے طلاق مانگے، اس پر جنّت کی خوشبو حرام ہے۔‘‘ (سنن ابودائود) زوجین اس بات کو جان لیں کہ ایک دوسرے کو طلاق کی دھونس دے کر ڈرانے سے وہ سخت گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں۔
وہ مرد، جو بات بات پر اپنی بیوی کو طلاق کی دھمکی دیتے ہیں، فرشتے ان کے نامہ اعمال میں گناہوں کا اضافہ کرتے رہتے ہیں۔