• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان کو ہماری قومی سیاست میں نمایاں مقام حاصل رہا ہے۔ قائداعظم نے 1928ء میں ہندوستان کے آئینی مسائل حل کرنے کے لئے جو چودہ نکات دیے تھے، ان میں بلوچستان کو دوسرے صوبوں کے برابر لانے کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ انہوں نے 1948ء میں سبی میلے کے موقع پر یہی عزم دہرایا تھا اور اپنی زندگی کے آخری ایام صحت افزا مقام زیارت میں گزارے تھے۔ ان کی وفات کے بعد اس پس ماندہ علاقے پر وہ توجہ نہیں دی گئی جس کا تقاضا وہاں کی غربت اور افلاس کر رہے تھے۔ 1970ء میں اسے پہلی بار صوبے کا درجہ ملا اور انتخابات کے نتیجے میں نیپ اور جمعیت علمائے اسلام نے سردار عطاء اللہ مینگل کی سربراہی میں حکومت بنائی جو بھٹو صاحب نے 14فروری 1973ء کی سہ پہر برطرف کر دی اور فوجی آپریشن شروع ہو گیا۔ عشروں کے بعد وفاق نے بلوچستان کے حالات سنوارنے پر کام شروع کیا اور فوج نے بھی اس کی سماجی اور معاشی ترقی میں حصہ ڈالا۔ نوازشریف کی حکومت جو 2013ء میں قائم ہوئی، اس نے بلوچستان کی نیشنلسٹ جماعتوں کو حکمرانی کا موقع دیا۔ ڈھائی سال ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ وزیراعلیٰ رہے اور انہوں نے عسکری قیادت کے تعاون سے علیحدگی پسند عناصر سے مذاکرات شروع کئے جو قومی دھارے میں آتے گئے اور صوبے میں دہشت گردی کے واقعات بتدریج کم ہوتے گئے۔ ڈھائی سال بعد نواب ثناء اللہ زہری وزیراعلیٰ بنے جو مسلم لیگ نون کے صوبائی صدر بھی تھے۔ ان کی مدت پوری ہونے سے چھ ماہ قبل انہیں تحریکِ عدم اعتماد کا سامنا کرنا پڑا اَور حالات نے انہیں مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا۔ سیاسی بغاوت ان کی اپنی جماعت میں ہوئی۔ جس گروپ نے بغاوت کی، اسے سینیٹ میں چھ ارکان کی حمایت حاصل ہے اور وہ سینیٹ کے چیئرمین کے منصب کا مطالبہ کر رہا ہے۔
سینیٹ کے انتخابات جو 3مارچ کو منعقد ہوئے، ان کے بارے میں یہ تاثر پھیل رہا ہے کہ بدترین ہارس ٹریڈنگ ہوئی ہے اور عمران خان نے فاضل چیف جسٹس سے عدالتی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ اہلِ دانش اپنے تجزیوں میں یہ نکتہ واقعات اور دلائل کی روشنی میں اُجاگر کر رہے ہیں کہ سیاسی تنازعات اور معاملات کو عدالتوں میں لے جانے سے غیر سیاسی اداروں کو دخل اندازی کا موقع ملتا ہے۔ سینیٹ کے حالیہ انتخابات کے بعض اچھے پہلو بھی سامنے آئے ہیں جن کی روشنی میں انتخابی نظام کے اندر اصلاحات کا عمل شروع کیا جا سکتا ہے۔ بلوچستان کی حکومت میں جو بغاوت ہوئی، اس میں بعض حلقوں کو اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ نظر آیا اور زرداری صاحب نے دعویٰ کیا کہ ہم نے صرف ’دعا‘ کی تھی۔ مجھ ایسے بے خبر کالم نگار کو بھی انتخابات سے صرف چھ ماہ پہلے حکومت کی اتھل پتھل بہت ناگوار گزری، مگر اس کا ایک پہلو اور بھی ہو سکتا ہے کہ نواب ثناء اللہ زہری کی حکومت کے معاملات میں عدم دلچسپی ناقابلِ برداشت ہوتی گئی جس نے انوارالحق کاکڑ اور وزیرداخلہ سرفراز بگتی کو حالات کے خلاف اُٹھنے پر مجبور کر دیا۔ یہ دونوں پاکستان کی محبت سے سرشار نڈر اشخاص ہیں کہ جب کوئٹہ میں پاکستان کا نام لینا اپنی موت کو دعوت دینا تھا، تو یہ سریاب روڈ پر پاکستان کے حق میں نعرے بلند کرتے، قومی پرچم بلند رکھتے اور علیحدگی پسند عناصر کے سامنے ڈٹے رہے۔ ان کی کوششوں سے بگتی علاقے میں امن قائم ہوا اور تعمیری عمل کو فروغ ملا، مگر وفاقی حکومت کے اعلیٰ عہدے دار بلوچستان آئے نہ اپنی حکومت کا کوئی خیال رکھا۔ ناقدین کہتے رہے کہ اچکزئی قبیلے کے سرداروں کے حوالے تمام اختیارات کر دینے سے شدید عدم توازن پیدا ہوا۔ اس عدم توازن کے نتیجے میں مسلم لیگ نون کے اندر باغیانہ رجحانات کو غالب آنے کا موقع ملا۔ اب وہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ سینیٹ کی چیئرمین شپ بلوچستان کو ملنی چاہیے۔ مسلم لیگ کی مرکزی قیادت کو اس پر ہمدردانہ غور کرنا اور اپنے ساتھیوں کو سینے سے لگا لینا چاہیے۔اس امر کا قوی امکان ہے کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر جناب حاصل بزنجو کی چیئرمین شپ پر متفق ہو جائیں۔ یہ انتخاب مسلم لیگ نون کے لیے بھی قابلِ قبول ہو گا۔ وفاق کی چاروں اکائیوں کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ وفاقی سطح پر وہ اقتدار میں شامل ہیں جہاں چار چھ منصب بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ ان میں صدرِ مملکت، وزیراعظم، چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی چیئرمین، اسپیکر قومی اسمبلی اور ڈپٹی اسپیکر شامل ہیں۔ قومی یک جہتی کا تقاضا ہے کہ ان میں ایک عہدہ بلوچستان کے حصے میں آئے۔ اس طرح سیاسی اقتدار میں ایک توازن قائم ہو گا اور اچھی روایت پروان چڑھے گی کہ آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا صوبہ بھی وفاقی سطح پر ایک اعلیٰ منصب پر فائز ہو سکتا ہے۔سینیٹ کے انتخابات میں یہ سیاسی شعور بھی اُبھرتا دکھائی دیا کہ صوبائی ارکانِ اسمبلی نے اپنی قیادت کے بعض فیصلوں سے اختلاف کیا۔ مثال کے طور پر زبیرگل کو جناب نوازشریف نے اس لیے ٹکٹ دیا کہ وہ لندن میں ان کی خدمت بجا لاتے ہیں۔ وہ چودھری سرور کے مقابلے میں شکست کھا گئے اور مسلم لیگ نون سے وابستہ چند ارکانِ اسمبلی نے زبیرگل کے بجائے انہیں ووٹ دیئے جو زیادہ اہل ہیں۔ تحریکِ انصاف کے ارکانِ اسمبلی کی خاصی تعداد نے خیبرپختونخوا میں عمران خان کی اس پالیسی سے اختلاف کا عملی مظاہرہ کیا جس میں قابل افراد کے بجائے دولت مند اشخاص کو ٹکٹ دیئے گئے۔ اسی طرح ایم کیو ایم کے ارکانِ اسمبلی نے اپنے قائدین کی داخلی جنگِ اقتدار کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا اور پیپلزپارٹی کے امیدواروں کے حق میں ووٹ ڈالے۔ اب آزاد سینیٹرز بادشاہ گر بن گئے ہیں اور قیاس کیا جا رہا ہے کہ ہارس ٹریڈنگ کا ایک اور خوفناک دور چلے گا۔
سیاسی قائدین کو ہارس ٹریڈنگ کا نوحہ پڑھتے رہنے کے بجائے اپنی اخلاقی اور سیاسی پستی کا جائزہ لینا اور اپنی جماعتوں کے اندر جمہوریت کو فروغ دینا ہوگا۔ انہیں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ٹکٹ ان اشخاص کو جاری کرنے چاہئیں جن میں اخلاق کے بنیادی اوصاف پائے جاتے ہوں اور عوام کی خدمت کرنے کا اچھا ریکارڈ رکھتے ہوں۔ اس پورے عمل میں سیاسی کارکنوں کو بنیادی اہمیت دی جائے۔ بلاشبہ مسلم لیگ نون نے سخت آزمائش کے موقع پر غیر معمولی یک جہتی اور حمیت کا ثبوت دیا ہے اور حریفوں کے تمام حربے ناکام بنا دیے ہیں۔ یہ ہماری تاریخ کا بہت اہم واقعہ ہے جو اس کا متقاضی ہے کہ اس جماعت کی جڑیں تمام صوبوں میں بہت مضبوط ہوں اور اس کی قیادت پارلیمنٹ کی بالادستی قائم رکھنے کے لیے ایک فعال پالیسی اختیار کرے۔ پارلیمنٹ تمام اداروں کی ماں ہے جس کا احترام تمام اداروںپر واجب ہے۔ اسی طرح دنیا کے تمام مہذب معاشروں میں عدلیہ کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہے اور اس کے فیصلوں کا اختلاف کے باوجود احترام کیا جاتا ہے۔ احترام لفظی نہیں عملی اور حقیقی ہونا چاہیے۔ نفرتوں کو پھیلانے سے مکمل اجتناب حددرجہ لازم ہے کہ ان کے بطن سے جو تصادم اُبھرتا ہے، اس پر قابو پانا محال ہو جاتا ہے۔ انصاف، توازن اور باہمی احترام سے معاشرہ ترقی کرتا اور اس کی آغوش میں نئی منزلیں طے کرتا جاتا ہے۔ زبان میٹھی ہونی چاہیے اور خیرخواہی کا جذبہ عوام کی زندگی میں آسودگی لاتا اور اداروں کو قوت عطا کرتا ہے۔
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998

تازہ ترین