• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’میں مقدر ہوں‘‘ اٹک اٹک کر بولتے رہے، سامعین ہنستے رہے

’’میں مقدر ہوں‘‘ اٹک اٹک کر بولتے رہے، سامعین ہنستے رہے

ندیم الرشید

زمانہ طالب علمی میں تدریسی عمل کے علاوہ غیر نصابی سرگرمیوں میں وہ نوجوان ہی آگے بڑھتے نظر آتے ہیں، جن میں غیر معمولی خداداد صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ اسی لیے ماہرین اور اساتذہ کرام کی نگاہیں گوہر شناسی کاکام کرتی ہیں۔بسا اوقات یہ ہنر ، قابلیت اور صلا حیتیں زندگی کے کئی مقامات پر ان کی معاون و مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ تعلیم انسان کی زندگی کا سب سے اہم عمل ہے، جسے ہر صورت میں بجا لانا انتہائی ضروری ہے، لیکن اس کے ساتھ دیگر مثبت سرگرمیوں میں خود کو منوانا بھی ضروری ہے،کیوں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ زندگی کے کسی مقام پر آپ اپنی کسی ایسی کمزوری کی بناء پر پیچھے رہ جائیں۔

 دوران تدریس سکول سے جامعہ تک ہر ادارے میں غیر نصابی سرگرمیوں کا انعقاد ضرور ہوتا ہے اور ان میں سب سے اہم سرگرمی فن تقریریا مباحثے کے حوالے سے ہوتی ہے، جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بولنا اور اپنی لفاظی سے دوسروں کو متاثر کرنا ایک خداداد فن ہے، جسے آپ اپنی محنت سے مزید خوبصورت بنا سکتے ہیں۔ اور اگر لگن ، شوق اور محنت کرنے کے جذبے کے ساتھ خود اعتمادی بھی ہو تو اس فن پر عبور حاصل کرنا قطعا ًمشکل نہیں۔ تقریر یا مباحثے کے بنیادی لوازمات سے اگرآگاہی حاصل ہے ،تو پھر ایک اچھا مقرر بننے میں کوئی رکاوٹ نہیں آسکتی ۔

ایوان میںجب قائد ایوان اورقائد حزب اختلاف اپنے اپنے رفقاء کے ساتھ اترتے ہیں، قرارداد کی وضاحت کرتے ہوئے دلائل پر دلائل اور مخالفین کے دلائل کا علمی ، ادبی اور منطقی جوابت دیتے ہیں، تو اس سے نہ صرف نوجوانوں کی ذہنی و فکری تربیت ہوتی ہے بلکہ ان کی صلاحیتوں کوبھی خوب جلا ملتی ہے اور وہ حالات ،واقعات،حقائق ،مسائل، سماج اور زندگی کا نئے رخ سے تجزیہ کرکے بہترین قیادت کے اوصاف اپنا نے لگتے ہیں۔کالج اور یونیورسٹی کے ہر نوآموز مقرر کے ذہن میںیہ سوال ضرور ابھرتا ہے کہ، مباحثہ کیسے جیتا جائے ، پوزیشن کیسے حاصل کی جائے۔ذیل میں چند ایسے اصولوں کا ذکر کیا جارہا ہے، اگر انہیں غور سے سمجھ کر اس کے مطابق مباحثے کی تیاری کی جائے تو نئے مقررین بہت جلد اس میدان کے شاہسوار بن سکتے ہیں۔

ناکامی سے مت گھبرائیے

ابتدا میںمباحثہ یا تقریری مقابلہ جیتنا مشکل ہوتا ہے۔ لیکن آپ اگر پہلی مرتبہ مباحثے میںشریک ہورہے ہیں،تو اس اعتماد سے تیاری کریں کہ ’’ میں مباحثہ جیتنے جارہاہوں‘‘۔ ایوان میں بیٹھ کر پوری ترتیب کو بغور دیکھیں۔ مباحثے کے نظم اور طریقہ کار کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ مقررین کس ترتیب سے اپنا مواد پیش کررہے ہیںاس بات کا بہ غور جائزہ لیں۔

ایسے مقررین جنہیںایوان میں خوب سراہا جاتا ہے، غور کریں کہ انہیں کس بات پر اور کیوں سراہا جارہا ہے؟منصفین کو ضرور دیکھیں کہ مقررین کی کس بات پروہ اپنے چہرے سے خوشی کا تاثر دے رہے ہیں،ان کے مزاج سے واقفیت ضروری ہے کہ وہ کس طرح کا مواد اور کس طرح کا انداز پسند کررہے ہیں۔جب آپ کی باری آئے تو پورے اعتماد سے تقریر کریں، اگرآپ جیت جائیں،تو اچھی بات ہے، کیوں کہ آپ گھر سے نکلے ہی اس عزم کے ساتھ تھے کہ مباحثہ جیتنا ہے اور اگرنہ جیت سکیں، تو ناکامی کا غم مت کیجئے۔کیوں کہ کوئی بھی کام یابی راتوں رات نہیں ملتی، آپ نے پہلی مرتبہ شرکت کی، شرکاء کے سامنے اپنے خیلاات کا اظہار کیا، یہی بہت بڑی بات ہے۔

تیاری کا درست طریقہ اپنا ئیے

تیاری کے لیے سب سے پہلا مرحلہ قرارداد کو بغور سمجھنا ہے،جب آپ اپنے شوق اور نظریے کے مطابق منتخب کرلیتے ہیںکہ آپ کوقرداد کی مخالفت میں ، تو تقریر تیار کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔

تقریر کی تیاری

سب سے پہلے کسی صفحے پرقرارداد کے الفاظ لکھ کر درمیان میں لکیر لگائیں اور صفحے کو دو کالم میں تقسیم کرلیں۔ ایک کالم کے اوپر یہ سرخی لگائیں’’ اگر قرارداد کو تسلیم کرلیا جائے تو کیا مسائل پیداہوسکتے ہیں‘‘اور دوسرے کالم کے اوپر یہ سرخی لگائیں’’ اگر قرارداد کو تسلیم نہ کیا جائے تو کیا مسائل پیدا ہوسکتے ہیں‘‘اب غور کریں، سوچنا شروع کریں، بغیر کوئی کتا ب دیکھے یا کسی سے بات چیت یا تبادلہ خیا ل کیے اپنے ذہن پر زور دیں اور جو بات بھی ذہن میںآرہی ہے، اسے مطلوبہ کالم میں اشارات کی صورت میں لکھتے جائیں۔ اس سے قرارداد کے حوالے سے آپ کی اپنی یادداشتیںمرتب ہوجائیں گی۔ 

ان یا دداشتوں کو مرتب کیے بغیر اگر آپ لوگوں سے تبادلہ خیا ل کرنے لگیں یا مطالعہ شروع کردیں گے تو اس قرار داد پر آپ کی اپنی سوچ نہ صرف دب جائے گی بلکہ دوسروںکے افکا ر میں کہیں گم ہوجائے گی۔

مطالعہ

مطالعہ کے لیے کتب، رسائل، جرائد اور انٹرنیٹ سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہاںبھی مطالعہ کرتے ہوئے بنیادی اصول یہی ذہن میںرکھیںکہ دوران مطالعہ اپنے موقف کے حق میں دلائل و شواہد جمع کرتے ہوئے ان دلائل و شواہد کو بھی نوٹ کرتے رہیں جو واضح طور پر آپ کے نقطہ نظر کے منافی ہیں۔

خواہ یہ منافی پوائنٹ آپ کے ذہن میںآرہے ہیں یا دوران مطالعہ حاصل ہوئے ہیں۔مطالعے کے بعد جب آپ اپنی تحریر تیا رکرنے لگیں گے، تو آپ کے ذہن میں تمام نکات واضح ہوںگے۔یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ قرارداد کا ہر پہلو سے جائزہ لیں، صرف اپنی بات کہنے یا منوانے کی ہی تیاری مت کریں، بلکہ رد دلائل یا جوابی کارروائی کی بھی پورے دلائل سے تیاری کریں، تب ہی مباحثے اور آپ کی بات میں جان پیدا ہوگی۔

سماعت اور تبادلہ خیا ل

ذاتی یادداشتوں اور مطالعے کے ساتھ ساتھ اپنے دوست، احباب بالخصوص اساتذہ سے اس موضوع پر ضرور تبادلہ خیا ل کریں۔اگر کسی کی تقریر پہلے سے تیار ہے، تو اسے بھی سن لیں۔اس سے آپ کے ذہن میں مواد پیش کرنے کے حوالے سے نئے خیالات آسکتے ہیں۔ ماہر فن سے بھی اس موضوع پر بات کریں، کیوں کہ اس سے آپ کو قرارداد کے حوالے سے دلائل اور اہم پہلو ملیں گے، لیکن عام آدمی سے بھی اس موضوع پر تبادلہ خیا ل ضروری ہے،کیوں کہ عام آدمی قرارداد میںموجود مسئلے پر ایک عام خیا ل اور سیدھا سادھا تصور رکھتا ہے۔

 یہ سیدھا سادہ پہلو اس لحاظ سے انتہائی اہم ہوتا ہے کہ آپ کے سامنے مجمعے میںسارے فلسفی اور ماہرین تو نہیں ہوتے عام سامعین بھی ہوتے ہیں، لہٰذا نہیں اپنا ہم نوا بنانے اور قائل کرنے کے لیے حقائق پر مبنی عام فہم بات کرنی چاہیے۔

مواد کو مرتب کیجیے

قرارداد پر غور وفکر کا مرحلہ مکمل کرنے ، مطالعہ، غور وفکر اور مواد کے حصول کے بعد اب تمام نکات کو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیےسب سے پہلے قرارداد کی وضاحت ایک پیراگراف میں پیش کیجیے۔اس کے بعد بقیہ مواد کواس طرح ترتیب دیجیے کہ ہر پوائنٹ کا اپنے پہلے والے پوائنٹ سے ربط ہو اور بعد والے پوائنٹ سے جوڑ ہو۔موضوع کو مختلف پہلوئوں سے مثلاًسیاسی، سماجی، تاریخی ، مذہبی، اخلاقی،علمی، فنی، قومی، ملی، بین الاقوامی اور فکری پہلوئوںسے جانچ لیں یا ریا ست کے چا ر ستونوں عدلیہ، انتظامیہ، مقننہ اور میڈیا پر تقسیم کرلیں۔ 

اس طرح دو فائدے ہوں گے۔آپ کی تقریر مختلف پہلوئوں کی وجہ سے جامع ہوجائے گی۔ مختلف پہلوئوں سے آپ کے موقف پر وارد ہونے والے اعتراضات بھی آپ کے سامنے آجائیں گے، جن کے’’ رد‘‘کے لیے آپ ذہنی طور پر تیار ہوںگے۔مباحثے کی تقریر میں اختتامیہ ایسا ہوجو سامعین کے عقلی اور جذباتی دونوں تقاضوں کو پورا کرتا ہو۔اس کے لے ضروری ہے کہ مباحثے کی تقریر کا اختتام’’ رد دلیل‘‘اور ’’ اشعار‘‘ پر مشتمل ہو۔ رد دلیل سے سامعین کو عقلی آسودگی حاصل ہوتی ہے ،جب کہ اشعار بالخصوص انقلابی اشعارحاضرین کے جذباتی تقاضے کی تکمیل کرتے ہیں اور اس اختتامیہ کا منصفین پر بھی بہت اثر ہوتاہے۔

٭٭٭٭

تازہ ترین