لندن میں سرخ بسوں پر ’’گوادر۔ آگے بڑھتے پاکستان کا در‘‘ دیکھ کر میں تو بہت خوش ہورہا ہوں۔ آپ بھی دیکھیں۔ اپنے بچوں کو بھی دِکھائیں۔
یہ 1974ء کی بات ہوگی۔
بلوچستان کے گورنر۔ نواب احمد یار خان اپنے جہاز میں گوادر لے گئے۔بہت ہی سہانی رات تھی۔ سمندر بہت خاموش۔ ہم ایک پرانی کشتی میں بیٹھ کر آنے والے حسین موسموں کی باتیں کررہے تھے۔ اس وقت اہل سیاست۔ سرکاری حکام۔ پروفیسرز اور علماء کسی کے ذہن میں یہ بات نہیں تھی کہ گوادر کل بین الاقوامی اُفق پر ستارہ بن کر چمکے گا۔ وزیراعظم فیروز خان نون نے جب 1958ء میں مسقط سے یہ دور افتادہ بندرگاہ خریدی تو انہوں نے اس کی قومی اور بین الاقوامی اہمیت ضرور سوچی ہوگی۔ یہ سطور لکھتے لکھتے ایک عجیب سوچ مجھے اُمید دلا رہی ہے کہ وہ علاقے جو ہندوستان کی تقسیم کے ذریعے انگریز سے ملےوہ تو ہمارے لئے خوشحالی کا پیغام نہیں لاسکے۔ اپنے ایک برادر مسلم ملک مسقط سے خریدی گئی یہ بندرگاہ پاکستان کے محفوظ اور مستحکم مستقبل کی بنیاد بن رہی ہے۔
واپس کراچی آکر میرے احساسات اس نظم میں ڈھل گئے تھے
گوادر میں ایک رات
اِدھر بھی سمندر کی بے تاب موجیں/ اُدھر بھی سمندر کی پہنائیاں ہیں/ سمندر گھروں سے ہم آغوش ہونے کی خواہش میں بے چین ہے/ چٹانیں زمیں کی محافظ/ سمندر کے رستے میں حائل ہیں/ وحشی ہوائیں۔ سمندر کی ساتھی ہیں/ دن رات معصوم کچی چٹانوں کے سینے پہ خنجر چلاتی ہیں/ فطرت مصور ہے/ ننگی چٹانوں پہ پاگل ہوائوں کے ہر گھائو کو مختلف زاویوں میں بدلتی ہے/ کچی چٹانیں… کھجوریں۔ گھروندے یہ سنگلاخ چہرے/ سمندر سے اپنی بقا کے لئے روز و شب لڑ رہے ہیں/ سمندر زمیں جب بھی ملتے ہیں/ ساحل پہ گھونگے۔ صدف۔ سیپیاں جگمگاتی ہیں/ رنگت خوشبو ہے۔ سپنوں کی رنگینیاں ہیں/ سکوں ہے محبت ہے ساحل کی رعنائیاں ہیں/ مگر دل کہ پتھر ہیں/ ذہنوں کے در بند ہیں/ رحمتیں برکتیں لوٹتی جارہی ہیں
44 برس پہلے ذہنوں کے در بند تھے۔ رحمتیں واپس ہورہی تھیں۔ لیکن اب دل نرم ہورہے ہیں۔ ذہنوں کے دروازے کھل رہے ہیں۔ رحمتیں نازل ہونا شروع ہورہی ہیں۔
گوادر۔ خوشحالی کا دروازہ۔ لندن میں سرخ دو منزلہ بسوں میں کھل رہا ہے۔ جیو نیوز پر یہ سرخ بسیں دیکھ کر مجھے تو جیسے سب کچھ بھول گیا۔ میاں نواز شریف کی نااہلی۔ آصف زرداری کا رضا ربانی کو آئندہ سینیٹ کا چیئرمین بنانے سے انکار۔ فرحت اللہ بابر کی مدبرانہ تقریر۔ مگر بیل کو سرخ کپڑا دِکھانے کی جرأت۔ عمران خان کی لوگوں کی اُمیدوں پر پانی پھیرنے کی کوششیں۔ سیاستدانوں کی لوٹ مار۔ سرکاری افسروں کی عدلیہ میں اور میڈیا پر کردار کشی۔ میں نے یہ سب کچھ گوادر کی بندرگاہ کے قریب گہرے سمندر میں غرق کردیا ہے۔
ہم تو پیدائشی مایوسیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر ناشکری کے مرتکب۔ ہم قبائلی معاشرے میں غلامانہ زندگی بسر کرتے ہوئے خوش ہیں۔ ہم پروفیسرز ہیں۔ نامی گرامی بیرسٹر ہیں۔ لیکن میٹرک پاس سربراہوں کے سامنے جی حضوری میں خوش رہتے ہیں۔ خدائے بزرگ و برتر نے ہمیں جنوبی ایشیا کی دہلیز پر۔ وسطی ایشیا کے پڑوس میں۔ کوہ ہندوکش کے دامن میں کاشغر کے نزدیک۔ ایسی سرزمین دی ہے کہ اگر ہمارے ذہن بدعنوان سیاستدانوں۔ مداخلت کرتے فوجی حکمرانوں۔ کبھی کبھی بیدار ہوتی عدالتوں۔ لالچی سیاستدانوں کے لئے کھانچے کھولتے سرکاری افسروں۔ مذہب کا استحصال کرنے والے علمائے دین، تعلیم کو تجارت بنانے والی یونیورسٹیوں نے بند نہ کئے ہوتے تو یہ شاندار محلّ وقوع ہمارے ایک ایک انچ کو خوشحالی اور بین الاقوامی دنیا میں ایک اعتدال پسند ترقی پذیر قوم کا مقام دیتا۔
ہمارے مضبوط مرکز کے نظرئیے۔ بڑے صوبے کے بڑے لالچ نے بلوچستان کے باشندوں کی عظمت ہم پر کھلنے نہیں دی۔ وہاں کے زیر زمین خزانے اس لئےہماری طمع کا مرکز نہیں بنے کیونکہ ایک تو محنت کرنا پڑتی تھی۔ پھر ہمارے سامراجی آقا درہم۔ دینار۔ ڈالر کی اتنی بخششیں دے دیتے تھے کہ ہمارے توشہ خانے بھرے رہتے۔ باورچی خانے مہکتے رہتے۔ ہمارے بچے بی ایم ڈبلیو۔ رولز رائسوں میں کھیلتے رہتے۔ اس لئے ہمیں گوادر کے گہرے پانیوں۔ ریکوڈک کے سونے تانبے سے کیا غرض۔
وہ تو ہم سے دو سال بعد آزاد ہونے والے چینیوں کو اپنے ملک میں خوشحالی کے جام لبریز ہونے کے بعد یہ سوجھی کہ آس پاس کے ملکوں میں راہیں تلاش کی جائیں۔ اپنی صلاحیتوں۔ جواہر۔ تخلیقی ذہانت کو چین کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں بروئے کار لایا جائے۔ ’ایک پٹی۔ ایک سڑک‘ کا نظریہ۔ ہمارے بھی مقدر سنوار رہا ہے۔ ہم تو اپنی تاریخ سے سبق حاصل نہیں کرتے۔ لیکن دوسری قومیں ایسا کررہی ہیں۔ ظہورِ اسلام کے فوراً بعد دیکھئے کہ اسلام کی اشاعت کے ساتھ ساتھ کیسے کیسے نئے راستے کھلے۔ نئی اقلیمیں اسلامی ریاست میں داخل ہوتی گئیں۔ ’قل سیر وفی الارض‘ قرآن کہتا ہے ’’سفر وسیلۂ ظفر‘۔ ہماری روایات کہتی ہیں پہلے ہم امریکہ کے بلاک کے ساتھ وابستہ رہے۔ اپنی ذہنی اور اقتصادی آزادی کا سودا کرتے رہے اس نے ہمیں ایک بڑا کارخانہ بھی نہ دیا۔ اسٹیل مل بھی کمیونسٹ روس نے دیا، بھاری صنعتیں کمیونسٹ چین نے دیں۔ جنگوں میں ہمارا ساتھ کمیونسٹ چین نے دیا۔ تاشقند معاہدہ کمیونسٹ روس نے کروایا۔ اب کمیونسٹ پارٹی چین کی قائد اور چین کے صدر شی کی قیادت میں ہمارے لئے 62 ارب ڈالر تجارت۔ صنعت اور خوشحالی کا پیغام لارہے ہیں۔ چین پاکستان کا دوست ہے۔ میاں نواز شریف۔ آصف زرداری۔ عمران خان یا کسی اور حکمراں کا نہیں بلکہ سارے پاکستانیوں سے محبت کرتا ہے۔ سی پیک بنیادی طور پر اس کی ضرورت ہے۔ یہ منصوبہ پورے عالم میں پھیل رہا ہے۔ پاکستان بھی اس کا ایک حصہ ہے۔ ہم چین کے دیوار بہ دیوار ہمسایہ ہیں۔ اس لئےہمارا حق زیادہ ہے۔
جیو کے مطابق ’’چین پاکستان انوسٹمنٹ کارپوریشن نے پہلے مرحلے میں لندن میں 100 سرخ بسیں 17 راستوں پر چلائی ہیں۔ بہت ہی نمایاں لکھا ہوا ہے۔ ’گوادر۔ آگے بڑھتے پاکستان کا دروازہ‘۔ "Gwader- The Gate Way to Emerging Pakistan"
روزانہ لندن میں کئی لاکھ برطانویوں۔ یورپیوں۔ ایشیائیوں۔ امریکیوں تک یہ پیغام پہنچے گا کہ پاکستان آگے بڑھ رہا ہے۔ ہمارے حکمراں۔ ہماری عدلیہ۔ ہمارا میڈیا جو روز یہ پیغام دیتا ہے کہ پاکستان پیچھے جارہا ہے۔ ان بسوں کے ذریعے یہ تاثر لندن کے دریائے ٹیمز میں بہہ گیا ہے۔ آئندہ پروگرام یہ ہے کہ یورپ،امریکہ کے شہروں میں سی پیک کے ’روڈ شو‘ بھی منعقد ہوں گے۔
ہمیں تو اپنی آخری عمر میں بہت اُمید ہو چلی ہے۔ پاکستان کا نیا ظہور سامنے آرہا ہے۔ ساکھ بڑھ رہی ہے۔ اب آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ سینیٹ کے الیکشن میں جو کچھ ہوا۔ اب چیئرمین کے لئےجو کچھ ہورہا ہے کیا یہ آگے بڑھتے پاکستان کے تصور سے متصادم نہیں ہے۔ تاریخ کا پہیہ آگے جاتا ہے۔ بربادی اور رجعت کے ان سوداگروں نے اگر اپنی روش نہیں بدلی تو یہ آگے بڑھتے پاکستان کا راستہ نہیں روک سکیں گے۔ بلکہ دنیا بھر میں پیشرفت کی طاقت ور لہریں انہیں گوادر کے عمیق سمندر میں ہمیشہ کے لئےغرق کردیں گی۔ تاریخ کے کچرے دان ایسے کچرے کے سخت انتظار میں ہیں۔
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998