• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان نے یوں تو لاتعداد اعلیٰ مصنف، ادیب، دانشور اور شعراء پیدا کئے ہیں لیکن میں آج آپ کا تعارف ملک کے مایہ ناز، گوہر نایاب روہیلہ پٹھان جناب مختار علی خان عرف پرتو روہیلہ سے کرا رہا ہوں۔
آپ مختار علی خان سے ملے ہوں تو دیکھتے ہی پہچان لینگے کہ یہ اصلی پٹھان ہیں جسامت سے بھی اور شکل و صورت سے بھی اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے صوبہ سرحد (یعنی کے پی کے) میں کئی فقید المثال شخصیتیں پیدا کی ہیں مثلاً خوشحال خان خٹک، رحمٰن بابا، غلام فاروق خان، غلام اسحق خان، احمد فرازؔ، عجب خان، ایوب خان وغیرہ اسی طرح اسی زمین کے غیّور پٹھانوں سے مختار علی خان پر تو روہیلہ صاحب کا تعلق ہے۔ رُوہیلہ لفظ روہیل کھنڈ کے رہنے والوں سے منسوب ہے۔ یہ علاقہ اِنڈیا میں یوپی کے شمال میں واقع ہے جہاں روہیلہ افغان بہادر جنگجو قبائل نے اپنی ریاست بنا لی تھی اور دائود خان اور ان کے بیٹے علی محمد خان روہیلہ اس علاقے کے پہلے شخص تھے جنہوں نے روہیل کھنڈ کی بنیاد ڈالی تھی۔ روہیلوں نے پانی پت کی جنگ میں افغان حکمراں احمد شاہ ابدالی کا ساتھ دیا تھا اور 14 جنوری 1761 ءمیں پانی پت کے مقام پر مرہٹوں کو بُری طرح شکست ہوئی تھی۔ احمدشاہ اَبدالی کے جانے کے بعد اور روہیل کھنڈ کے حکمراں علی محمد خان روہیلہ کے انتقال کے بعد آپس کے اختلافات سے روہیل کھنڈ کئی حصّوں بخروں میں بٹ گیا تھا اور مرہٹوں نے ان سے بدلہ لینے کیلئے ان پر حملہ کرکے شکست دیکر قبضہ کرلیا تھا۔ ان پٹھانوں نے اپنی شناخت قائم رکھی اور رامپور ، بھوپال اور ٹونک وغیرہ میں ہجرت کرلی تھی۔ روہیل کھنڈ کا دارالحکومت بریلی، بدایوں کا علاقہ تھا۔دیکھئے کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ روہیلے غیّور پٹھان و پختون ہیں اور انھوں نے احمد شاہ ابدالی کی مدد کی اور انہوں نے ہی نواب اودھ شجاع الدٓولہ کو بھی مدد کیلئے تیار کیا تھا۔ روہیلوں نے چالیس ہزار کی فوج اور ستّر توپوں سے جنگ میں شرکت کی تھی اور مرہٹوں کا قلع قمع کردیا تھا۔ اس وقت ہمارے بھوپال کے حکمراں نواب فیض محمد خان عرف نواب فیض بہادر تھے۔ مرہٹہ سردار بالا جی بالا رائو نے ان کو پیغام بھیجا کہ چلو پٹھانوں کے خلاف جنگ میں شرکت کرو۔ بھوپال کے حکمراں خود اورکرزئی پٹھان تھے۔ نواب فیض بہادر نے (جو خود ایک ولی اللہ تھے اور رانا کملا پتی کے محل کے باغ میں ان کا مزار اور مسجد ہے) بالاجی کو انکار کردیا اور میرے مرحوم بڑے بھائی عبدالحفیظ خان اَشکی بھوپالی نے بھوپال نامہ (منظوم تاریخ بھوپال) میں اس واقعہ کو یوں بیان کیا ہے۔
فیضؒ نے چھوڑی نوابی بن گئے کامل ولی
شاہ محمد غوثؒ کے حلقہ سے یہ برکت ملی
ہے کرامت کا بڑا مشہور ان کا واقعہ
باجی رائو پیشوا ان کو یہ دھمکی دے گیا
پانی پت سے واپسی پر میں اُسے سمجھائوں گا
فیضؒ نے سن کر کہا ’’رائو نا واپس آئے گا‘‘
رائو ابدالی کے ہاتھوں جنگ میں مارا گیا
جو ولیؒ نے کہدیا، اللہ نے پورا کیا
روہیلہ غیّور قوم بھی سازش کا ہی شکار بن گئی، اَوِدھ کے نواب نے ان پر حملہ کردیا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے کرنل الیگزینڈر چیمپئن نے فوراً موقع سے فائدہ اُٹھا کر نواب اودھ کا ساتھ دیا اور روہیلہ حکومت پر حملہ کردیا۔ 1774 ء میں حافظ رحمت خان ہلاک ہوگئے اور نواب اودھ نے روہیل کھنڈ پر قبضہ کرلیا اور انگریزوں کا غلام بن گیا۔ روہیلہ اپنی جان بچانے کیلئے جنگلوں میں بکھر گئے اور گوریلا جنگ شروع کردی۔ انگریزی فوج (ہندوستانی غلام فوج) نے ان کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کیا۔ 1774ء سے 1799ءتک اس علاقے پر اودھ کے نمائندے خواجہ الماس خان جاٹ آف ہریانہ نے حکومت کی اور ان پر مظالم ڈھائے۔ 1799ءمیں برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس علاقے پر قبضہ کرلیا اور حافظ رحمت خان کے وارثوں کا وظیفہ مقرر کردیا۔ روہیل کھنڈ کے زیادہ تر علاقے پر قبضہ ہوگیا تو روہیلوں نے ریاست رام پور قائم کرلی اور نواب فیض اللہ خان نے 7اکتوبر 1774ءکو برٹش کمانڈر کرنل چیمپئن کی موجودگی میں انگریزوں کے زیر سایہ اقتدار سنبھال لیا۔ اور ریاست رام پور تقسیم ہند کے بعد ہندوستان میں ضم کرلی گئی۔میں نے روہیلوں کی تاریخ پر اسلئے روشنی ڈالی ہے کہ پیارے دوست و دانشور مختار علی خان عرف پرتو روہیلہ کا تعلق رامپور سے ہے اور تقسیم کے بعد یہ لوگ بنّوں میں قیام پذیر ہوگئے۔ پرتو روہیلہ نے پشاور یونیورسٹی سے ایم اے اور قانون کی ڈگریاں لیں اور انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ میں کمشنر انکم ٹیکس اور پھر وزیر اعظم کی اِنسپکشن ٹیم کے ممبر بھی رہے ہیں۔ فارسی، اردو، انگریزی، پشتو، پنجابی پر عبور حاصل ہے۔ قد و جسامت ، شکل و صورت اور رنگ سے اصلی پٹھان نظر آتے ہیں۔ ہندوستان میں روہیلے زیادہ تر بریلی، سہارنپور، رامپور، مُراد آباد، بجنور، بدایوں، ٹونک، بھوپال وغیرہ میں تھے۔ تقسیم کے بعد بہت بڑی تعداد سندھ میں آکر بس گئی۔ یہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور تو اور جنوبی امریکہ کے بالکل شمال میں سری نام اور گیانا نامی ملکوں میں بھی یہ موجود ہیں۔
مختار علی خان پرتو روہیلہ ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک ہیں۔ انھوں نے اپنی زندگی نہایت مصروف اور کارآمد گزاری ہے۔ آپ غالبیات پر ایک ماہر، اتھارٹی ہیں۔ آپ کی غالب پر گیارہ مطبوعات ہیں، شاعری پر بشمول دوہہ اور سفر نامے تیرہ ہیں یعنی آپ چوبیس اعلیٰ تصانیف کے مالک ہیں۔ آپ کی ابھی جو کتاب شائع ہوئی ہے وہ ایک انمول ہیرا ہے۔ یہ کلّیات مکتوبات فارسی غالبؔ ہے۔ یہ اردو ترجمہ، فارسی مکتوبات کا متن اور مکتوب اِلیہم کے حالات زندگی پر 972صفحات پر مشتمل ہے۔ جناب جمیل جالبی نے اس پر یوں تبصرہ کیا ہے، ’’میں یہ بات نہایت وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس ترجمے میں وہی بات ہے جو غالبؔ نے فارسی میں کہی تھی اور اس کو اسی شان و شوکت اور سجاوٹ کیساتھ اردو میں منتقل کردی ہے اور یہ واقعتا ترجمے کے میدان میں ایک بڑا کارنامہ ہے۔ میں پرتو روہیلہ کو ادب کے اس عظیم کارنامے کی تکمیل پر کھڑے ہو کر سلام کرتا ہوں۔ اگر غالب زندہ ہوتے تو وہ بھی ایسے ہی الفاظ میں داد دے کر پرتوروہیلہ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ بٹھالیتے۔‘‘ جناب مشفق خواجہ کہتے ہیں ’’پرتورُوہیلہ فارسی زبان پر ماہرانہ دسترس رکھنے کیساتھ ساتھ غالب کے مزاج داں بھی ہیں ، اسی لئے تو انہوں نے اِنشائے غالبؔ کو منشائے غالبؔ کے مطابق اس طرح اردو میں منتقل کیا ہے کہ ترجمے پر تخلیق کا گماں ہوتا ہے‘‘۔آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مختار علی خان پر تو روہیلہ پشاور یونیورسٹی کے پہلے گریجویٹ ہیں اور آپ نے ایم اے فارسی میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔ آپ کا یہ شاہکار اتنے اعلیٰ پائے کا ہے کہ اگر کسی غیرملک میں اسکو ڈاکٹریٹ کیلئے پیش کیا جاتا تو ان کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری اعلیٰ گریڈ کے ساتھ دی جاتی۔ مگر بدقسمتی ہے اس ملک کی اور پرتوروہیلہ کی کہ وہ یہاں پیدا ہوئے کہ جاہلوں نے ہیرے کی قدر شناسی نہیں کی۔ اس صوبے کے کسی گورنر، وزیر اعلیٰ کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اس لائق فرزند صوبہ کو ایک اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری اس کی اپنی تعلیم گاہ سے عطا کروا دیتے۔ یہاں جاہلوں اور کرپشن میں ملوث افراد کو ملک کے اعلیٰ ترین اعزازات و ڈگریوں سے نوازا جاتاہے مگر جوہر گرانمایہ کی قدر نہیں کی جاتی۔ وہ کہاوت کہ جو قومیں اپنے ذہینوں، دانشوروں کی قدر نہیں کرتیں ان کی قسمت میں تباہی لکھی جاتی ہے۔ اس قوم کی بدقسمتی دیکھئے کہ کیسے کیسے لوگ کہاں بیٹھے ہیں اور کیسے کیسے جواہر پارے کہاں پڑے ہیں۔ آپ کی خدمت میں یہ عرض کرتا چلوں کہ اس جوہر پارے کو نیشنل بُک فائونڈیشن نے نہایت خوبصورت پیرایہ میں شائع کیا ہے اور 700روپیہ میں یہ ایک مفت تحفہ ہے۔ یہ ایسی اعلیٰ کتاب ہے کہ اس کو ہر اسکول، ہر کالج، ہر یونیورسٹی کی زینت ہونی چاہئے۔ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ دنیا کے جن ممالک میں یونیورسٹیوں میں اردو کے شعبے ہیں ان کو مفت تحفتاً بھیجنا چاہئے۔
(نوٹ) پچھلے دنوں دہشت گردوں نے چارسدّہ میں باچا خان یونیورسٹی پر بزدلانہ حملہ کرکے دو درجن سے زیادہ طلباء اور اساتذہ کو شہید کردیا۔ اس سے پیشتر بھی صوبہ کے پی کے میں لاتعداد خونریز حملے ہو چکے ہیں اور سینکڑوں بے گناہ لوگ شہید ہو چکے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ صوبے میں حکومت نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے۔ عمران خان پورے ملک کا ٹھیکہ لئے پھرتے ہیں اور وزیر اعلیٰ پرویز خٹک اپنی ’’اعلیٰ‘‘ کارکردگی کے ڈھنڈورے پیٹتے ہیں۔ صوبہ میں امن و امان حکومت کی ذمہ داری ہے، اس کے پاس اپنے انٹیلی جنس ادارے ہیں، پولیس ہے۔ یہ کیا وہاں صرف لاشیں اُٹھانے پر لگائے گئے ہیں؟ امن و امان کی ذمہ داری عمران خان اور پرویز خٹک اور انکے ساتھیوں کی ہے آرمی یا ایف سی کی نہیں۔ خدا کیلئے اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کا احساس کریں اور دوسروں کی فکر کرنا بند کریں۔
تازہ ترین