• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد ہائی کورٹ کے محترم جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ختم نبوتﷺ کے معاملہ پر اہم فیصلہ دیا جس پر ایک مخصوص سیکولر طبقہ کی طرف سے سوشل میڈیا میں ایک مہم کے ذریعے یہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی جیسے اس فیصلہ سے ایک مخصوص غیر مسلم اقلیت کے ساتھ کوئی زیادتی کر دی گئی ہو۔ بظاہر اعتراض کرنے والوں کی اکثریت نے اس فیصلہ کو پڑھے بغیر اپنا ردعمل دیا جبکہ کچھ نے اپنے اندر کا بغض کھل کر نکالتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم تک کو بُرا بھلا کہا کہ ایک مخصوص اقلیت کو کیوں آئین پاکستان کے ذریعے غیر مسلم قرار دیا گیا۔ جسٹس شوکت صدیقی نے تو اپنے فیصلہ میں وہ کہا جو مکمل طور پر اسلامی اور آئینی حقیقت ہے۔ انہوں نے تو اپنے فیصلےکی شروعات اس بات سے کی کہ دین اسلام اور آئین پاکستان مذہبی آزادی سمیت غیر مسلم اقلیتوں کے تمام بنیادی حقوق کی مکمل ضمانت فراہم کرتا ہے اور ریاست پر یہ لازم ہے کہ انکی جان، مال، جائیداد اور عزت و آبرو کی حفاظت کرے اور بطور شہری انکے مفادات کا تحفظ کرے۔ فیصلے میں لکھا گیا کہ ریاست پاکستان کے ہر شہری کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی شناخت درست اور صحیح کوائف کے ساتھ کرائے، کسی مسلمان کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ اپنی شناخت کو غیر مسلم میں چھپائے اور اسی طرح کسی غیر مسلم کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خود کو مسلم ظاہر کر کے اپنی پہچان اور شناخت کو چھپائے۔ ایسا کرنے والا ہر شہری ریاست سے دھوکہ دہی کا مرتکب ہوتا ہے۔ اس کے بعد فیصلے میں آئین کی شق نمبر 260 کا حوالہ دیا گیا جس میں مسلم اور غیر مسلم کی تعریف کی گئی اور جسے اجماع ِقوم حاصل ہے لیکن بدقسمتی سے اس واضع معیار کے باوجود کچھ ضروری قانون سازی نہ کی جاسکی جس کی وجہ سے ایک مخصوص غیر مسلم اقلیت اپنی اصلی شناخت چھپا کر اور ریاست کو دھوکہ دیتے ہوئے خود کو مسلم اکثریت کا حصہ ظاہر کرتی ہے جس سے نہ صرف مسائل جنم لیتے ہیں بلکہ انتہائی اہم آئینی تقاضوں سے انحراف کی راہ بھی ہموار ہوتی ہے۔ جسٹس صدیقی نے افسوس کا اظہار کیا کہ حکومت کے پاس اس حوالہ سے کسی بھی افسر کی شناخت موجود نہیں۔ فیصلہ میں اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ پاکستان میں بسنے والی بیشتر اقلیتیں اپنے ناموں اور شناخت کے حوالے سے جداگانہ پہچان رکھتی ہیں لیکن ہمارے آئین کی رو سے قرار دی گئی ایک اقلیت اپنے ناموں اور عمومی پہچان کے حوالے سے بظاہر مختلف تشخص نہیں رکھتی جس کی وجہ سے اپنے عقیدہ کو مخفی رکھ کر مسلم اکثریت میں شامل ہو کر اعلیٰ اور حساس مناصب تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ فیصلے میں یہ بھی لکھا گیا کہ چونکہ پارلیمنٹ کی رکنیت سمیت اکثر محکموں کے لیے اقلیتوں کا خصوصی کوٹہ بھی مقرر ہے اس لیے جب کسی بھی اقلیت سے تعلق رکھنے والا شخص اپنا اصل مذہب اور عقیدہ چھپا کر خود کو فریب کاری کے ذریعے مسلم اکثریت کا جزو ظاہر کرتا ہے تو دراصل وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے الفاظ اور رو کی صریح خلاف ورزی کرتا ہے جس کو روکنے کے لیے ریاست کو ضروری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ جسٹس صدیقی نے دین اسلام میں ختم نبوتﷺ کی اہمیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ میں اسلام کی اس دینی اساس پر حملوں کی لاتعداد مثالیں موجود ہیں جس کی حفاظت و نگہبانی ہر مسلمان پر لازم ہے۔ اس صورتحال کے پیش نظر کہ معاشرہ کو انتشار سے بچایا جا سکے اور آئینی تقاضوں کے مطابق جداگانہ مذہبی شناخت رکھنے والی تمام اقلیتوں کے حقوق کا بھی تحفظ ہو عدالت نے کچھ احکامات جاری کیے جس کا مقصد صرف یہ ہے کہ کوئی اپنے مذہب اور عقیدہ کے معاملہ میں جھوٹ بول کر نہ تو کوئی سرکاری عہدہ حاصل کرسکے اور نہ ہی ریاست سے دھوکہ کیا جا سکے۔اس مقصد کے حصول کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت کو حکم دیا کہ شناختی کارڈ، پیدائشی سرٹیفیکیٹ، پاسپورٹ اور انتخابی فہرستوں میں اندراج کے لیے درخواست گزار سے آئین پاکستان کی شق 260 ذیلی شق 3 اور جز اے بی میں مسلم اور غیر مسلم کی تعریف پر مبنی بیان حلفی لازم قرار دیا جائے، تمام سرکاری و نیم سرکاری محکموں بشمول عدلیہ، مسلح افواج، اعلیٰ سول سروسز میں ملازمت کے حصول یا شمولیت کے لیے بھی اس بیان حلفی کی شرط رکھی جائے۔ اس کے علاوہ حکومت پاکستان کو یہ بھی ہدایت کی گئی کہ ایسے اقدامات اٹھائے جائیں کہ تمام شہریوں کے درست کوائف ریاست کے پاس موجود ہوں اور کسی بھی شہری کے لیے اپنی اصل پہچان یا شناخت چھپانا ممکن نہ ہو۔ فیصلے میں ریاست کو اس بات کا بھی پابند بنایا گیا ہے کہ وہ مسلم امہ کے حقوق، جذبات اور مذہبی عقائد کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس فیصلہ میں کہاں اقلیتوں کے ساتھ کسی زیادتی کی بات کی گئی یا کسی مخصوص اقلیت کے حقوق چھیننے کا ذکر ہے۔ یہ فیصلہ تو دراصل ایک ایسے دھوکے اور فریب کو روکنے کی بات کر رہا ہے جو معاشرہ میں انتشار اورتشدد کا باعث بنتا ہے۔ ہاں اگر کوئی یہ خواہش رکھتا ہو کہ دین اسلام کے بنیادی عقیدہ اور آئین پاکستان کی اسلامی شقوں کو ہی بدل دیا جائے تو ایسا ممکن نہیں۔

تازہ ترین