• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں اس ملک کی آبادی کا 53فیصد وہ نوجوان ہوں جسے کبھی نہ تو اپنی طاقت اور صلاحیتوں کا پتہ تھا اور نہ ہی یہ شعور کہ ووٹ کا تقدس کیا ہوتا ہے ۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں جو پہلے سیاسی تربیت ہوا کرتی تھی وہ بھی نہیں ہو رہی ،ہماری اکثریت منفی سرگرمیوں میں مبتلا ہونے کے مواقع کی تلاش میں رہی ہے،لیکن اچانک ہمیں عمران خان کی صورت میں ایک امید نظر آئی ، عمران خان جو کرکٹ کا ہیرو تھا، ہمارے سامنے سیاسی ہیرو بھی بن کرابھرا ،ہم ان کے دیئے گئے شعور کی وجہ سے آرام دہ گھروں ، گلی محلوں اور تھڑوں سے اٹھ کر باہر نکلے ، ہم نے اس ملک کی سلامتی ، خوشحالی اور ترقی کیلئے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے نہ صرف جلسے ، جلوسوں میں شرکت کی بلکہ اپنے ووٹ کا حق بھی استعمال کیا ۔ نوجوان اپنے لیڈر سے جنون کی حد تک محبت کرتے ہیں اور ان کے منہ سے کہی ہر بات پر آنکھیں بند کر کے نہ صرف یقین کرتے بلکہ عمل بھی کرتےہیں، جو نوجوان پی ٹی آئی میں شامل نہ تھے وہ بھی اس کے سپورٹر رہے ، نوجوانوں کے سمندر کے ٹرینڈ کو دیکھتے ہوئے حکمران جماعت کئی پرکشش پروگرام لیکر آئی ، لیپ ٹاپ جیسی رشوت بھی دی لیکن ان نوجوانوں کی وفاداری اپنے ’’ ہیرو‘‘ کیساتھ رہی ، جسکا اظہار 2013ء کے انتخابات میں نظر آیا، لیکن 2013ء کے الیکشن کے بعد ملکی سیاست نے جس طرف کا رخ کیا وہ جلسے ، جلوس ، احتجاج اور دھرنے پر مجبور ہوگیا۔ ہمارے ہیرو کو اقتدار سنبھالنے کے کئی مواقع ملے مگر ٹھکرا دیئے،ہمارے ہیرو نے کرپشن کیخلاف جو آواز اٹھائی اور مضبوطی سے کھڑے رہے ، یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ پاناما کیس پر کسی بڑے کرپٹ سیاستدان کیخلاف کارروائی آگے بڑھی ۔ اس کرپشن کیخلاف جنگ کو نوجوان اپنی جنگ سمجھتے ہیں ۔ اسلئے اپنے ’’ہیرو‘‘ کے پیچھے لبیک کہتے رہے ۔ لیکن جونہی ان کی جماعت اور کے پی حکومت کے اندرجھوٹ اور کرپشن کی کہانیاں سامنے آئیں، مفاد پرستوں نے ہمارے ہیرو کو گھیر لیا ، اور پھر آج جبکہ پانچ سال مکمل ہونے کو ہیں اور الیکشن سے پہلے اپنے ’’ ہیرو‘‘ کی ذات کے حوالے سے شادی جیسے ذاتی معاملے کو ا سکینڈلائز کر دیا گیا تو اس سے نوجوانوں کے دل کرچی کرچی ہو کر رہ گئے ہیں۔
گونوجوانوں کی یہ نسل ابھی رینگنے کی عمر میں تھی جب ہمارے ہیروکی پہلی شادی 16مئی1995ء کو جمائما خان سے ہوئی ۔ اُس وقت اس شادی کے حوالے سے حاسدین نے منفی پروپیگنڈہ کیا،سیتا وائٹ سے تعلقات کی اسٹوریاں بھی چھپتی رہیں ۔ہمارا ہیرو نیا نیاسیاست میں قدم جما رہا تھا ، اسلئے مخالفین ذاتیات پر اُتر آئے لیکن چونکہ ہمارا ہیرو تازہ تازہ ورلڈ کپ جیت کے آیا تھااور شوکت خانم کینسر اسپتال کے حوالے سے بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا تھا، اس وجہ سے لوگوں نے اپنے ہیروکے بارے میں کہی گئی باتوں پر دھیان ہی نہ دیا ۔ دوسری طر ف سیاسی مخالفین کو بھی زیادہ سیاسی خوف نہیں تھا ۔ جس کی وجہ سے الزامات جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔ لیکن جوں جوں ہمارے ہیرو کی مقبولیت بڑھنے لگی ، الزامات بھی بڑھنے لگے ۔ نو برس بعد 22جون2004ء کو پہلی شادی طلاق پر ختم ہوگئی ۔ ہمارا ہیرو سیاست میں بہت مصروف ہوگیا ۔ ایک مرتبہ پھر شادی کا شور مچا، 8جنوری2015ء کو دوسری شادی کاجب اعلان ہوا تو میڈیا کے ایک خاص حصے نے اس کو سکینڈلائزکر دیا ۔ اس کی وجہ شاید ان کی جماعت اور ہمارے ہیرو کی طرف سے متضاد خبریں آنا تھی ، شادی کی خبروں کی کبھی تردید کی جاتی اور کبھی آدھا سچ چھپایا جاتا رہا ، ٹی وی اینکر سے یہ شادی صرف دس ماہ ہی چل سکی اور اچانک طلاق کی خبریں میڈیا پر جس طرح چلیں، ایسا لگنے لگا کہ شاید ہمارے ہاں اخلاقیات نام کی کوئی چیز نہیں۔ دوسری بیوی نے طلاق کے بعد یہ انکشافات کئے کہ نکاح نومبر 2014ء میں ہوا تھا مگر اسکا اعلان 08جنوری 2015ء کو کیا، ہمارے لئے برداشت کرنا مشکل ہوگیا ۔ طلاق کے اس صدمے سے نکل ہی نہیں پائے تھے کہ ایک اخبار میں 06جنوری 2018ء کو تیسری شادی کی خبر شائع ہوگئی ۔ ایک مرتبہ پھر اس نکاح کے حوالے سے تردید یں آتی رہیں ۔ پی ٹی آئی کا کوئی ترجمان لاعلمی کا اظہار کر رہا ہے تو کوئی صرف رشتہ بھیجنے کی بات کرتا، نکاح خواں اور ہیرو نے خاموشی اختیار کی تو میڈیا پر مرضی کی خبریں چھپتی اور چلتی رہیں ۔ معلومات کی حد تک خبریں ہوتیں تو ٹھیک تھا مگر یہ کہا گیا کہ 16دن پہلے سپریم کورٹ نے جس شخص کو صادق اور امین قرار دیا وہ شخص جھوٹ بول رہا ہے اور تیسری شادی کو بھی خفیہ رکھا گیا ۔ اصل میں یہ نکاح یکم جنوری کو کیا گیا اور جس سے نکاح کیا گیا وہ ابھی عدت میں تھی ، یہ خلاف شریعت اور حرام ہے۔ میڈیا پر یہ تبصرے آتے رہے کہ عمران خان ہمیشہ اچھے کام بھی بُرے طریقے سے کرتا ہے، کسی کے بسے بسائے گھر کو برباد کر کے اپنی شادی کرنا کونسی انسانیت ہے۔ بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے یہ تبصرے سامنے لائے گئے کہ جوانی میں بری سرگرمیوں کی شہرت رکھنے والا شخص اپنے تبدیل ہونے کا تاثر دے رہا ہے۔ سابق اہلیہ ریحام نے الزام لگا دیا کہ وہ شادی شدہ ہوتے ہوئے بیوفا ئی کے مرتکب نکلے ، ن لیگ کے رانا ثنا اللہ نے تو ہمارے ہیرو کو کچھ زیادہ ہی برا بھلا کہا۔ اب یہ سب ہماری برداشت سے باہر ہے ۔ ہمارا ہیرو جو ہمارے لئے روشنی کی آخری امید ہے ۔ اگر یہ آخری امید بھی ختم ہوگئی تو اس ملک کے مستقبل کا کیا ہوگا۔ ہم مانتے ہیں کہ ملک کے اندر کوئی سسٹم نہیں ، رشوت ، چور بازاری اور کرپشن کا دور دورہ ہے ، سپریم کورٹ نواز شریف کو نااہل قرار دے چکی ہے۔آصف زرداری کے کارنامے بھی سب کے سامنے ہیں۔ یہ ہمارا ہیرو ہی ہے جو بغیر کسی لالچ کے ا سٹیٹس کو کیخلاف کھڑا ہے۔ لیکن اب ہم اپنے آپ کو کیسے مطمئن کریں، ہم لوگ اپنے ہیرو کا دفاع کر کے تھک چکے ہیں، بعض سوالوں کے ہمارے پاس کوئی جواب نہیں کہ آخر کونسی ایسی مصلحتیں ہیں کہ پہلی شادی طلاق پر ختم ہوئی ، پھر دوسری شادی بھی طلاق پر ختم ہوئی، دوسری بیوی کے الزامات اور پھر طلاق دلوا کر پانچ بچوں کی ماں سے شادی کی حقیقت، کونسی ایسی روحانی وجوہات ہیں کہ ہیرو سے پیار کرنیوالے نوجوان جان نہیں سکتے ۔ شادی کرنا کوئی جرم نہیں تو پھر لوگوں کو غلط تاریخیں بتا بتا کرکیوں عذاب میں مبتلا کیا جاتا رہا۔ کیا ہمارا ہیرو ہمیں مطمئن کریگا۔ بس آخر میں یہ گزارش کرنا ہے کہ یہ آپ ہر تقریر شروع کرنے سے پہلے کہتے ہیں کہ ’’ میں اللہ کی عبادت کرتا ہوں اور اسی سے مدد چاہتا ہوں‘‘ اگر آپ واقعتاً اس ملک اور اسکے مستقبل سےمخلص ہیں تو پھر نوجوانوںکو اعتماد میں لیں، اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں۔ بیشک وہ سب سے زیادہ درگزر کرنیوالا ہے۔ نوجوان جانتے ہیں کہ ہمارے سیاستدانوں کا یہی وطیرہ رہا ہے کہ لوگوں کو بیوقوف بنا کر اپنے مفادات کا تحفظ کر یں، ہم کیسے فرق کر سکیں گے کہ ہمارا ہیرو اسی طرح کا نہیں ،آپ ہماری آخری امید ہیں، اگر سٹیٹس کوکا وطیرہ اپنایا تو پھرکبھی سدھار نہیں آسکتا !

تازہ ترین