• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئی سینیٹ کی ذمہ داری
آج نئی سینیٹ وجود میں آ چکی ہے، اگر یہ اپنی ذمہ داریاں بطریق احسن انجام دے تو اس ملک میںبہتری لانے کے لئے تنہا سینیٹ ہی کافی ہے، یہ انسانی جبلت ہے کہ وہ جب نئے سرے سے کام شروع کرے تو پہلے کی غلطیوں کو نہیں دہراتی، اور زیادہ بہتر انداز میں کام سرانجام دیتی ہے، ہماری تاخیر 70برس پر محیط ہے، اس لئے ہر شعبے کو ہنگامی انقلابی اسلامی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا، بصورت دیگر ہم زیادہ گہری کھائی میں گر جائیں گے، مگر یہ بھی ذہن میں رہے کہ جلد بازی ہی تاخیر کو جنم دیتی ہے، چابکدستی اور جلد بازی میں بڑا فرق ہے، عربی مقولہ ’’رُب عجلۃٍ تہب ریثاً‘‘ اکثر جلد بازی تاخیر کا پیش خیمہ بنتی ہے، اور ایک مقولہ یہ بھی کہ ’’پہلے گھاٹ پر دستیاب پانی ہی سے مشکیزہ بھر لینا چاہئے اگلے گھاٹ پر نہیں اٹھا رکھنا چاہئے‘‘ دانش، نئی پرانی نہیں ہوتی، جہاں بھی ملے پلے باندھ لینی چاہئے، کامیابی بار بار دستک نہیں دیتی، بیدار رہنے کی ضرورت ہے، ایسا دعویٰ بھی کرنا درست نہیں جسے پورا نہ کیا جا سکے ہماری آج کی سیاست میں خسارے کا ایک بڑا باعث یہ امر ہے کہ جوش خطابت میں ناممکنات کی دنیا میں چلے جاتے ہیں، بات وہ جو سننے والے کو ہوتی دکھائی دے سینیٹ، سب سے بڑا جمہوری ایوان ہے، اس کا کام بھی بہت بڑا ہے، اور ہر سینیٹر بخوبی جانتا ہے کہ اس کے ہاتھ میں عوام کی بہتری ہے، اگر یہ ڈیلیور نہ کی تو ایوان بالا، تہہ و بالا ہو کر رہ جائے گا، سفارش، بے جا لحاظ اور مراعات کے پیچھے بھاگنا ایوان کی عزت و حرمت سے بہت نیچے کی بات ہے، پرہیز لازم ہے، ایک بڑا ٹاسک اپنا اور غلط رو شعبوں کا بے لاگ احتساب ہے، احتساب فرد کے ذاتی عمل سے شروع ہوتا ہے اگر اس کے پاس عوام کا دیا ہوا اختیار موجود ہے ہر فرد، ہر ادارہ، ہر محکمہ، گر احتساب کو سرفہرست رکھے گا تو محتسب اعلیٰ تک پہنچنے سے پہلے بگڑا کام سنور چکا ہو گا۔
مذمت پر اتحاد
جامعہ نعیمیہ لاہور میں نواز شریف پر جوتا پھینک دیا گیا۔ تمام سیاسی رہنمائوں نے واقعہ کی مذمت کی جہاں یہ واقعہ بد اخلاقی کی انتہا ہے، تمام سیاسی لیڈرز کا بیک آواز اس کی مذمت کرنا برائی کی مذمت پر مثالی اتحاد ہے، مقام شکر ہے کہ ایسی بد اخلاقی پر تو کم از کم پوری قوم متحد ہے، تاہم سیاست کے بازار میں بداخلاقی بصورت ہائے دیگر موجود ہے اگر اخلاق سے گری ہوئی زبانیں دشنام نہ اگلتیں تو نوبت جوتا زنی تک نہ پہنچتی، اس مائنڈ سیٹ کو نہ روکا گیا تو اگلی منزل دست و گریباں ہونا ہے، ممکنہ حکمرانوں، اور سیاستدانوں نے خود کو نہ سنبھالا اور عوام نے بھی اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ دیا تو انجام گلستان یہ ہو گا کہ ہر شاخ پر جوتے لٹکے ہوں گے، اس نوعیت کے مذموم واقعات سے پاکستان کی جو تاریخ رقم کی جا رہی ہے وہ منزل کو بہت دور لے جائے گی عمران خان کو جوتا مارنے کی کوشش ناکام رہی، مگر اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہم اس کی بھی مذمت کرتے ہیں اور ہم اس کی مذمت کرتے ہیں کہ عمران نے بھرے جلسے میں کہہ دیا رانا ثناء اللہ میں تمہیں مونچھوں سے پکڑ کر اڈیالہ جیل میں ڈالوں گا، یہ سیاستدانوں ہی کی ہرزہ سرائیوں کا ری بائونڈ ہے جو سامنے آتا رہے گا، اگر ایک نے بُرا کہا تو دوسرا تحمل سے برداشت کرے جواب نہ دے برائی پہلی سیڑھی پر ہی رک جائے گی، اور اگر جواب آں جوتا آئے گا تو یہاں جو تم پیزار ہی ہو گا، اور کاروبار سیاست باوقار نہیں ہو گا، درست ہے ایسے واقعات دیگر ممالک میں بھی ہوتے ہیں، مگر شاذ و نادر ہمارے ہاں زبانیں ہیں کہ تالو سے نہیں لگتیں، سیاسی جوڑ توڑ، کنویسنگ کا زمانہ تو مہذب معاشروں میں خوشی کا موقع ہوتا ہے، ہر طرف جشن کا سا سماں ہوتا ہے، یہ کیا کہ سیاست سیکورٹی رسک بن گئی، جو معاشرے اخلاق سے گر جاتے ہیں انہیں کبھی بہتر حکمران نصیب نہیں ہوتے ایک دوسرے کی مذمت پر اتحاد ہی اس طرح کے مذموم مناظر دکھاتا ہے، اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ تمام رہنمائوں اور عوامی حلقوں نے جامعہ نعیمیہ کے واقعہ کی مذمت کی، اب یہ سلسلہ یہیں رُک جانا چاہئے۔
٭٭٭٭
عبرتناک سزا ناگزیر ہو گئی
جب کسی معاشرے میں یہ سوچ عام ہو جائے کہ بد اخلاقی، لاقانونیت اختیار کرنے پر حتماً عبرتناک سزا نہیں ملے گی تو یقیناً وہاں سے جرم کرنے کا خوف رخصت ہو جائے گا۔ ہمارے ہاں قانونی پیچیدگیوں نے سزا میں اتنی تاخیر پیدا کر دی ہے، کہ عبرت کی روح ہی باقی نہیں رہتی، پارلیمنٹ درحقیقت قانون سازی کے لئے ہوا کرتی ہے، کیوں 70سال تک اس پیچیدہ قانونی نظام کو بدلا نہ گیا جو نہ اچھائی کو نافذ ہونے دیتا ہے اور نہ برائی کو روک سکتا ہے، نو آبادیاتی نظام قانون غلاموں کے لئے بنایا جاتا ہے، اور ہم نے ہنوز یہ جؤا اپنی گردن سے نہیں اتار پھینکا، 1973ء کا آئین بھی نہ ہوتا تو آج ہم کس منہ سے آئینہ دیکھتے، کہ ہم نے تو اپنی صورت ہی بگاڑ لی، ماں کی ممتا بھی اگر بدتمیزی پر چپت رسید نہ کرے تو بچے بدمعاش بن جائیں، سزا اور جزا یہ دو عناصر ہی ایک اچھا معاشرہ بناتے ہیں، بدقسمتی سے ہمارے ہاں اچھی کارکردگی دکھانے والے کو ملنے والی شاباش خوشامد گر کو ملتی ہے، یہی وجہ ہے کہ حکمرانوں کے فیصلے غلط اور عوام کے حوصلے پست ہو جاتے ہیں، نواز شریف پر جوتا پھینکنے کی سب نے مذمت اس لئے بھی کی کہ سب کو اپنا اپنا رخسار یاد آ گیا، ورنہ شاید اس قدر بھی ردعمل سامنے نہ آتا، ہم ہمیشہ وہی کاٹتے ہیں جو بوتے ہیں، اپنے ہی کرتوت ہمیں بند گلی لے جاتے ہیں اس لئے قرآن حکیم جگہ جگہ یہ تلقین فرماتا ہے ’’یہ سب تمہارے ہاتھوں کا کمایا ہوا ہے‘‘، اور ہمیں اس بات کو نہیں بھولنا چاہئے کہ دولت کی غلط تقسیم، محرومیاں اور غربت ہی سازش کو جنم دیتی ہے، سازشی توفرد واحد ہوتا ہے اسے اپنی سازش کامیاب بنانے کے لئے معاشرے میں ایسے مجبور معاش لوگ مل جاتے ہیں جو چند ٹکوں کی خاطر کچھ بھی کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں، زینب کے قاتل کو ہنوز عبرتناک سزا نہیں ملی اسی لئے اس کے بعد معاشرے میں بچیوں سے زیادتی و قتل کے واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے، اگر انسان کو سزا کا خوف اور جزاء کی تمنا نہ ہو تو وہ حیوانیت پر اتر آتا ہے۔
٭٭٭٭
دل جھلا، کملا، دیوانہ
....Oسعد رفیق:اتنی تذلیل کے بعد ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔
پھر سوچئے کہ آپ کو کس چیز کی ضرورت ہے؟
....Oعائشہ گلالئی:کراچی اور جنوبی پنجاب سے الیکشن لڑوں گی۔
ملک کے باقی حصوں کا کیا قصور ہے؟
....Oمریم نواز:گیدڑوں کے ڈر سے شیروں کے قافلے نہیں رکتے۔
شیروں کے دماغ میں سرے سے گیدڑوں کا ڈر ہوتا ہی نہیں، ڈر تو گیدڑوں کو شیروں کا ہوتا ہے، بلکہ وہ شیر کا سایہ دیکھ کر بھی دوڑ لگا دیتے ہیں،
....Oن لیگ کی ایک خاتون ایم پی اے کو اسٹیج پر جانے سے روکنے پر وہ زاروقطار رو پڑیں۔
اسٹیج پر نہ جا کر بھی وہ ن لیگ ہی کی رہیں گی، ایسی کوئی فکر کی بات نہیں۔
کالم پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998

تازہ ترین