• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چین: دِفاع کے میدان میں بھی برتری کے لیےپُرعزم

منور مرزا

گزشتہ چند برس کے دوران چین، دُنیا کی دوسری طاقت وَر اقتصادی قوّت بن کر اُبھرا اور آج ایک بڑی طاقت بن چُکا ہے۔ آج چینی مصنوعات دُنیا کے گوشے گوشے میں پھیلی ہوئی ہیں اور اس کا دائرۂ اثر پوری دُنیا کو اپنے احاطے میں لیے ہوئے ہے۔ اپنے اقتصادی مفادات کی نگہبانی چین کے پالیسی سازوں کا بنیادی فریضہ ہے اور اسی لیے گزشتہ برس نومبر میں ہونے والےکمیونسٹ پارٹی کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ چین، دُنیا میں مرکزی کردار ادا کرے گا۔ 

اس موقعے پر چینی صدر، شی جِن پِنگ کا کہنا تھا کہ ’’اب وقت آ گیا ہے کہ چین، دُنیا کے مرکزی اسٹیج پر اپنا کردار کرے۔‘‘ اس کردار کو نبھانے کے لیے جہاں چین سفارتی محاذ پر فعال ہوا ہے، وہیں اس نے اپنی فوجی طاقت میں بھی اضافہ کیا ہے اور اس وقت دُنیا کا کوئی ایسا با اثر اقتصادی یا حربی پلیٹ فارم نہیں کہ جہاں بیجنگ کی مٔوثر نمایندگی موجود نہ ہو۔ چین کی ’’پیپلز لبریشن آرمی‘‘ دُنیا کی بہترین لڑاکا فوج ہے، جسے بڑی تیزی سے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا رہا ہے۔ 

’’پیپلز لبریشن آرمی‘‘ نہ صرف تعداد کے اعتبار سے دُنیا کی سب سے بڑی فوج ہے، بلکہ یہ جدید ترین ہتھیاروں سے لیس فورسز میں سے ایک ہے۔ گزشتہ دِنوں چین نے اپنی اسی پالیسی کے تحت 193ارب ڈالرز پر مشتمل دِفاعی بجٹ کا اعلان کیا، جو چینی وزیرِ اعظم، لی کی چیانگ نے چینی پارلیمان، نیشنل پیپلز کانگریس میں پیش کیا۔ اعلان کردہ دِفاعی بجٹ گزشتہ برس کے دِفاعی بجٹ کے مقابلے میں8فی صد زیادہ ہے۔

 اس موقعے پر چینی وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ ’’مُلکی سلامتی کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے فوج کو پتّھر کی مانند مضبوط ہونا چاہیے۔‘‘ چین کے ان اقدامات کو دُنیا بَھر میں نہایت غور سے دیکھا جا رہا ہے اور دُنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت، امریکا کی انتظامیہ نے حال ہی میں اپنے ایک اہم بیان میں کہا ہے کہ اب رُوس کی بہ جائے چین اس کے لیے چیلنج بن رہا ہے۔

آج جب ہم فوجی طاقت کا ذکر کرتے ہیں، تو اس کا مطلب صرف روایتی ہتھیار یا ایٹمی طاقت ہی نہیں ہوتا، بلکہ اس میں اسپیس ٹیکنالوجی میں ترقّی، سائبر وار فیئر میں جدّت، پُر عزم عوام، معاشی قوّت اور مستحکم حکومت بھی شامل ہوتی ہے اور چین ان تمام عوامل پر پورا اُترتا ہے۔ 

اس بارے میں مختلف ممالک کی فوجی طاقت کے درمیان موازنہ کرنے والے دُنیا کے ممتاز ترین ادارے،’’ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز ‘‘(آئی آئی ایس ایس) کے ماہرین کا ماننا ہے کہ اب امریکا، چین کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی فوجی ضروریات کا تعیّن کرتا ہے۔ تاہم، بہت سے ماہرین اس سے اختلاف بھی کرتے ہیں اور ان کے مطابق، یورپ میں رُوس اب بھی نیٹو اور امریکا کا سب سے بڑا حریف ہے۔ آئی آئی ایس ایس کی جانب سے تیار کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ 2007ء سے 2017ء کے دوران ،چین نے اپنے دِفاعی بجٹ میں 120فی صد اضافہ کیا، جب کہ اس عرصے میں امریکا نے اپنے ڈیفینس بجٹ میں کٹوتی کی۔ 

رپورٹ کے مطابق، اسی عرصے میں رُوس نے اپنے دِفاعی بجٹ میں 80فی صد اور بھارت نے 60فی صد اضافہ کیا۔ فوجی طاقت کا موازنہ کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اس وقت بھی امریکا کا دِفاعی بجٹ دُنیا میں سب سے زیادہ ہے، جو 700ارب ڈالرز ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں چین کا دِفاعی بجٹ 193ارب ڈالرز ہے۔ ماہرین چین کے دِفاعی بجٹ میں اضافے کو اس کے تزویراتی عزائم کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔ خیال رہے کہ آبادی کے اعتبار سے دُنیا کا سب سے بڑا مُلک، چین ہمالیہ کی سرحد سے لے کر جنوبی چینی سمندر تک پھیلا ہوا ہے اور وہ ان علاقوں میں اپنا انفرا اسٹرکچر بھی تعمیر کر رہا ہے۔

انقلاب کے بعد چین ایک کمیونسٹ مُلک کے طور پر سامنے آیا۔ اس دوران بیجنگ اور ماسکو کے درمیان قریبی تعلقات تھے اور چین میں ہتھیار بھی رُوس ہی سے آتے تھے۔ نیز، عسکری تربیت اور فوجی حکمتِ عملی بھی رُوس ہی کے انداز میں ترتیب دی گئی تھی۔ تاہم، 1960ء کے بعد، چین اور رُوس کے درمیان بھی سرد جنگ شروع ہو گئی اور دونوں کمیونسٹ ممالک ایک دوسرے کے شدید مخالف ہو گئے۔ 

چین: دِفاع کے میدان میں بھی برتری کے لیےپُرعزم

1970ء کی دہائی میں جب اُس وقت کے امریکی صدر، نکسن نے چین کا دورہ کیا، تو یہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آ گئے۔ 1980ء کی دہائی میں ڈنگ ژیائو پَھنگ کے دَور میں آنے والے اقتصادی انقلاب کے بعد چین نے ایک نئی کروٹ لی اور اقتصادی فواید حاصل کرنے کے لیے مخالفت کی بہ جائے مفاہمت کی پالیسی اپنائی۔ 1990ء کے بعد چین نے اپنی فوج کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے رُوس سے جدید ٹیکنالوجی حاصل کی اور اس کے ساتھ ہی چینی فوج کو عالمی معیار کی عسکری قوّت بنانے کا سفر شروع ہوا، جسے چین کی معاشی مضبوطی نے سہارا فراہم کیا۔ 

چین نے ایک ہمہ جہت فوجی حکمتِ عملی اپنائی، جس میں سمندری طاقت بننے کو اوّلین ترجیح دی کہ چین، بحرالکاہل یا جنوبی چینی سمندر کی ایک بہت بڑی طاقت ہے اور یہ اس کے تجارتی بیڑوں کی اہم گزر گاہ بھی ہے۔ آئی آئی ایس ایس کی رپورٹ کے مطابق، چین نے سمندر کی سطح پر اور زیرِ سمندر موجود بیڑوں کو جدید بنانے پر توجّہ مرکوز کی اور دِفاعی ماہرین کا ماننا ہے کہ اس شعبے میں چینی ٹیکنالوجی کی پیش رفت کو غیر معمولی قرار دیا جا سکتا ہے۔ چین نے روایتی لانگ رینج بیلسٹک میزائلز تیار کیے اور اپنی فضائیہ میں پانچویں جنریشن کے فائٹر جیٹ طیّارے شامل کیے۔ 

نیز، چینی بحریہ میں شامل جنگی جہاز، ٹی کروزر دُنیا کے کسی بھی بہترین سمندری ہتھیار کا مقابلہ کر سکتا ہے اور اب چین اپنا دوسرا طیّارہ بردار بحری بیڑا سمندر میں اُتارنے کی تیاری کر رہا ہے۔ دِفاعی ماہرین کے مطابق، اس کے ساتھ ہی زمینی فوج کو بھی جدید بنانے کا عمل جاری ہے اور چینی فضائیہ بھی امریکی ایئر فورس کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

رپورٹ تیار کرنے والے آئی آئی ایس ایس کے ماہرین کا خیال ہے کہ چین توقّعات سے زیادہ تیزی کے ساتھ اپنی مسلّح افواج کو جدید بنا رہا ہے اور اس وقت اس کی توجّہ فضائی و بحری فوج پر ہے، کیوں کہ یہی دونوں افواج اس وقت جنگوں میں فیصلہ کُن ثابت ہو رہی ہیں۔ اب تک فورتھ جنریشن کے لڑاکا طیّارے چین کے زیرِ استعمال تھے، لیکن حال ہی میں چین نے ففتھ جنریشن کے جے 20جنگی طیّارے بھی اپنے فضائی بیڑے میں شامل کر لیے ہیں۔ 

جے 20طیّارے اسٹیلتھ ٹیکنالوجی کے حامل ہیں۔ یہ آواز کی رفتار سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ پرواز کرتے ہیں اور جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہیں۔ دِفاعی ماہرین کے مطابق، اب چینی فضائیہ کے پالیسی ساز دونوں نسلوں کے طیّاروں کے امتزاج سے ایک اعلیٰ درجے کی لڑاکا فضائی فوج تشکیل دے سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی چین نے فضا سے فضا میں مار کرنے والے ترقّی یافتہ میزائلز تیار کرنے کی ٹیکنالوجی بھی حاصل کر لی ہے، جس کے سبب اس کے لیے مغربی ممالک کی فضائیہ کا مقابلہ کرنا مشکل نہیں رہا اور ایسے جدید ٹیکنالوجی کے حامل میزائلز چین کی اسلحہ ساز فیکٹریز میں تیاری کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔

چین: دِفاع کے میدان میں بھی برتری کے لیےپُرعزم
چینی وزیر اعظم، لی کی چیانگ بجٹ رپورٹ پیش کرتے ہوئے

 دِفاعی ماہرین کے مطابق، ان میزائلز سے ٹینکرز، فضائی کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم اور حملہ آور طیّاروں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ دِفاعی ماہرین کا ایک عرصے سے یہ استدلال رہا ہے کہ امریکا اور اس کے مغربی اتحادی اپنی فضائیہ کے سبب ہی سرد جنگ کے زمانے سے لے کر اب تک دُنیا میں اپنی فوجی برتری قائم کیے ہوئے ہیں اور جنگوں کے دوران مغربی ممالک کی فضائیہ نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ۔ بعض ماہرین اس جانب بھی اشارہ کرتے ہیں کہ مغربی جنگی طیّارے جن ممالک کی ایئر فورسز میں شامل رہے، انہیں اپنے حریفوں پر برتری حاصل رہی اور اس حولے سے وہ 1967ء اور 1973ء کی عرب، اسرائیل جنگوں اور عراق اور افغانستان میں لڑی جانے والی جنگوں کا خاص طور پر ذکر کرتے ہیں۔

 نیز، فوجی ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ چین جس تیزی سے فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائلز کی تیاری میں جدید ٹیکنالوجی استعمال کر رہا ہے، اُسے دیکھتے ہوئے مغربی ممالک بھی اپنے اس قسم کے ہتھیاروں کو اپ ڈیٹ کرنے پر مجبور ہو جائیں گے اور اس کے ساتھ ہی انہیں اپنی فضائی جنگوں کی حکمتِ عملی پر بھی از سرِ نو غور کرنا پڑے گا، جس میں اب تک وہ ایک برتر قوّت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

چین کے پاس دُنیا کی سب سے بڑی برّی فوج ہے اور آئی آئی ایس ایس کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اُسے بھی جدید بنایا جا رہا ہے۔ تاہم، چین کی یہ واضح حکمتِ عملی ہے کہ وہ امریکا سے جنگ کی صُورت میں امریکی افواج کو اپنے ساحلوں سے دُور رکھے اور اسی مناسبت سے وہ اپنی افواج کو جدید اسلحے سے لیس کر رہا ہے۔ آئی آئی ایس ایس کے 2017ء کے اعداد و شمار کے مطابق، اس وقت چین کی مسلّح افواج کی تعداد21لاکھ سے زاید ہے، جس میں نیوی کے 2,35,000،ایئر فورس کے4لاکھ،اسٹرٹیجک میزائیل فورس کے ایک لاکھ،اسٹرٹیجک سپورٹ فورس کے 1,50,000،پیرا ملٹری فورس کے 6,60,000اوردوسری فورسز کے 1,50,000اہل کار شامل ہیں، جب کہ ریزرو فورسز کی تعداد 5لاکھ سے زاید ہے۔ 

دوسری جانب چین ہتھیاروں کی تیاری اور برآمدات میں بھی مغربی طاقتوں سے کسی طور پیچھے نہیں۔ اس وقت چینی اسلحہ ساز کارخانوں میں انتہائی جدید اور معیاری ہتھیار تیار کیے جا رہے ہیں اور یہ چینی ساختہ ہتھیار دیگر ممالک کے ہتھیاروں کی نسبت کم قیمت پر دست یاب ہیں۔ امریکا اور یورپی ممالک میں ہتھیاروں کی فروخت پر بہت سی پابندیاں عاید ہیں، لیکن چین میں صورتِ حال مختلف ہے اور چینی ساختہ ڈورن طیّارے دُنیا بَھر میں مقبولیت حاصل کر رہے ہیں۔ خیال رہے کہ آج ڈرون طیّارے کو ایک کام یاب ترین جنگی ہتھیار تسلیم کر لیا گیا ہے اور امریکا نے اسے افغانستان، پاکستان کے سرحدی علاقوں، شام اور عراق میں جاری غیر روایتی جنگوں میں نہایت مٔوثر انداز سے استعمال کیا۔ 

چین: دِفاع کے میدان میں بھی برتری کے لیےپُرعزم
چینی صدر شی جِن پِنگ

اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ طالبان کی قیادت ڈرون طیّاروں ہی کا نشانہ بنی۔ ڈرون طیّاروں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ان کے استعمال سے بڑے پیمانے پر جانی نقصان نہیں ہوتا اوریہ جاسوسی کے لیے بھی نہایت کارگر ثابت ہوئے ہیں۔ آج چینی ساختہ جنگی ڈرون طیّارے ہتھیاروں کی عالمی نمائشوں میں جا بہ جا دِکھائی دیتے ہیں اور اپنی بہتر کارکردگی اور کم قیمت کی وجہ دُنیا بَھر کے ممالک کے لیے باعثِ کشش ہیں۔ اس وقت چینی ساختہ ڈرون طیّارے خریدنے والے ممالک میں پاکستان، سعودی عرب، متّحدہ عرب امارات، مصر، نائیجیریا اور میانمار سمیت دیگر شامل ہیں۔

دِفاعی ماہرین کا دعویٰ ہے کہ چین الیکٹرانک وارفیئر یا برقی جنگ کے میدان میں بھی تیزی سے ترقّی کر رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، چین گزشتہ ایک عشرے سے انفارمیشن وارفیئر پر خصوصی توجّہ دے رہا ہے، جس میں سائبر وار فیئر میں مہارت بھی شامل ہے۔ انہی ماہرین کا ماننا ہے کہ چین انٹیلی جینس اور سائبر اسپیس دونوں ہی میں پیش رفت کر رہا ہے اور اس مقصد کے لیے مواصلاتی سیّاروں کو بھی بروئے کار لا رہا ہے۔

 اگر رواں صدی کے آغاز سے مختلف ممالک کی جانب سے اپنائی گئی فوجی حکمتِ عملی کا جائزہ لیا جائے، تو اس میں سائبر وار فیئر بڑی اہمیت اختیار کرتی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں اکثر ’’آپریشن اولمپک گیمز‘‘ نامی سائبر آپریشن کا ذکر کیا جاتا ہے، جس کے ذریعے امریکا اور اسرائیل نے ایران کے ایک نیوکلیئر پلانٹ کو شدید نقصان پہنچایا تھا۔ 

امریکا اور اسرائیل نے ایک وائرس کو ایرانی نیوکلیئر پلانٹ کے کمپیوٹر سسٹم میں داخل کر کے اس کے تقریباً 16ہزار سینٹری فیوجز کو ریورس کر کے تباہ کر دیا تھا اور ایسی صورتِ حال میں چین کے لیے بھی ہر دَم چوکنّا رہنا بہت ضروری ہے۔

جب چین کی دِفاعی حکمتِ عملی اور فوجی ترقّی کا ذکر آتا ہے، تو یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ اب تک بیجنگ نے زبردست ٹھہرائو اور صبر کا مظاہرہ کیااور کبھی کسی مُلک پر قبضہ کیا اور نہ ہی جارحیت کی۔ یعنی چین نے ابھی تک اپنی فوجی طاقت کو صرف دِفاعی مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ گرچہ چین کے مختلف ممالک کے ساتھ تنازعات برقرار ہیں، لیکن اس نے ہمیشہ صبر و تحمّل کا مظاہرہ کیا اور گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں ہانگ کانگ کی برطانیہ سے چین کو پُر امن منتقلی ایک بڑی مثال ہے۔ 

اسی طرح تائیوان بھی چین کا حصّہ ہے، لیکن بیجنگ نے کبھی بھی اسے مین لینڈ میں شامل کرنے کے لیے فوج کَشی کی بات تک نہیں کی اور اس تنازعے کے باوجود دونوں حصّوں کے درمیان مثالی معاشی روابط قائم ہیں، جو اقوامِ عالم کے لیے باعثِ حیرت ہے۔ پھر جاپان سے بھی دو جزائر کی ملکیت پر چین کا شدید تنازع ہے اور اس معاملے پر دونوں ممالک کی جانب سے وقتاً فوقتاً تلخی کا اظہار بھی کیا جاتا ہے، لیکن چین نے ہمیشہ مذاکرات ہی کو مقدّم رکھا۔ 

علاوہ ازیں، ’’نائین ڈاٹ پالیسی‘‘ کی وجہ سے چین اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے درمیان بھی تنائو پایا جاتا ہے، لیکن چین نے اس تنازعے کے حل کے لیے بھی کبھی فوج کا سہارا نہیں لیا۔ بھارت کے ساتھ بھی کوہِ ہمالیہ کی سرحد پر چین کا تنازع ہے اور اس کی وجہ سے آج سے 56برس قبل دونوں ممالک کے مابین ایک جنگ بھی ہوئی تھی، لیکن اس جنگ میں فتح حاصل کرنے کے باوجود چین خود ہی اپنے زیرِ قبضہ علاقے سے دست بردار ہو گیا اور آج یہ دونوں ہم سایہ ممالک تجارت سمیت دیگر اہم علاقائی و بین الاقوامی فورمز پر ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں۔ 

ماہرین کا ماننا ہے کہ ’’وَن بیلٹ ،وَن روڈ‘‘ جیسے عالم گیر منصوبے کے آغاز کے بعد چین کے لیے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ وہ اپنے معاشی پھیلائو سے اپنی دِفاعی ترقّی کو ہم آہنگ کرے اور ویسے بھی ایک ایسی بڑی طاقت کہ جس کی مصنوعات افریقا سے آسٹریلیا تک جا رہی ہوں، اپنے دِفاع کو کیسے نظر انداز کر سکتی ہے۔ 

تازہ ترین