• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چوہدری ظہور الٰہی ۔ چند یادیں... قلم کی آواز…سید انور قدوائی

چوہدری ظہور الٰہی کا شمار ایسے ”بڑے لوگوں“ میں ہوتا ہے جنہوں نے انسانوں کی خدمت کی اور سیاسی طور پر ”اتحاد و اتفاق“ کے لئے کوشاں رہے۔ ان کے دروازے بلا تفریق سب کے لئے کھلے ہوئے تھے۔اپنے دور کے عظیم سیاسی رہنما سیّد حسین شہید سہروردی کی طرح چوہدری ظہور الٰہی بھی بڑی باقاعدگی سے خاموشی کے ساتھ سیاسی کارکنوں کی مالی اعانت کیا کرتے تھے ۔ بیواؤں اور مستحق طالب علموں کے وظیفے مقرر تھے میری آنکھوں کے سامنے آج بھی وہ سین گردش کر رہا ہے جب ایمبولنس میں ان کا جسد خاکی گجرات روانہ ہوا تو ایک ادھیڑ عمر مزدور ان کی ایمبولنس کے آگے دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔ ان کے ہر ملنے والے کا دعویٰ تھا کہ چوہدری صاحب سے ان کے بڑے قریبی تعلقات ہیں۔ ان میں غریب، امیر سب شامل تھے۔ وہ دور جاگیرداروں اور زمینداروں کا تھا عام سیاسی کارکن کیلئے آگے آنا ناممکن تھا لیکن چوہدری ظہور الٰہی نے ”عوامی خدمت“ سے ان کی حکمرانی پر مضبوط کمند ڈالی اور ایوب دور میں کنونشن مسلم لیگ اسمبلی پارٹی کے سیکرٹری بن گئے۔ اس دور میں کراچی کے اے ایم قریشی اور چوہدری ظہور الٰہی ایوب خان کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے تھے۔ قومی اتحاد کے اجلاسوں کی میزبانی کی۔ آج سے 31سال پہلے 25ستمبر کو جمعہ کی نماز ادا کر کے سابق جسٹس مولوی مشتاق حسین کو ماڈل ٹاؤن ان کی کوٹھی چھوڑنے جا رہے تھے کہ گھات میں بیٹھے دہشت گردوں نے فائرنگ کر دی جس سے چوہدری ظہور الٰہی اور ان کا ڈرائیور موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے۔ مولوی مشتاق شدید زخمی ہوئے۔
نواب کالا باغ اور پیپلز پارٹی کے دور میں انہیں شدید انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک دو نہیں درجنوں مقدمات قائم کئے گئے ان میں بھینس چوری کا ایک مضحکہ خیز مقدمہ بھی شامل تھا۔ بلوچستان کے علاقے کوہلو میں اسلحہ کی اسمگلنگ کا ایک مقدمہ درج کر کے انہیں لاہور سے گرفتار کر کے بلوچستان لایا گیا تاکہ کوہلو میں پیش کیا جا سکے۔ نواب اکبر بگٹی اس وقت بلوچستان کے گورنر تھے۔ ملک غلام جیلانی کو ایک بے نامی فون کال موصول ہوئی جس میں کہا گیا تھا کہ چوہدری صاحب کو بچایا جائے چنانچہ سردار شیر باز مزاری اور ملک غلام جیلانی کی بروقت مداخلت پر گورنر بگتی نے چوہدری صاحب کو بلوچستان پولیس کی تحویل میں لینے کا حکم دیا۔ اگلے روز کوہلو میں عدالت کے باہر پہاڑوں سے حملہ ہوا اور کئی لوگ مارے گئے ۔ بلوچ لیڈر شیر محمد مری نے لاہور ہائیکورٹ میں پیشی کے دوران اس واقعہ کی روداد سنائی۔ اسی طرح پولیس کے اعلیٰ افسر عبدالوکیل خان کوہلو کے واقعہ کی ذمہ داری گجرات سے ایک لیڈر پر عائد کرتے تھے تاہم یہ سچ ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور میں انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ مسلم لیگ کے وہ کبھی بھی عہدیدار نہیں رہے لیکن ان کا شمار مسلم لیگی قائدین میں ہوتا تھا۔ انہوں نے سیاسی مخالفت کو ذاتی دشمنی نہیں سمجھا۔ اگرچہ ملک غلام مصطفی کھر کی گورنری کے دور میں انہیں قید ہی نہیں ذہنی تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ لیکن جب لاہور کے حلقہ 3 کی انتخابی مہم کے دوران تاجپورہ گراؤنڈ میں بدترین ہنگامہ آرائی کرائی گئی جس میں بہت سے لوگ جاں بحق اور 200کے قریب زخمی ہوئے، مسٹر کھر جب وہاں سے فرار ہو کر ایڈورڈ روڈ پر ملک محمد قاسم کے آفس پہنچے تو وہ چوہدری ظہور الٰہی ہی تھے جنہوں نے آگے بڑھ کر انہیں گلے لگا لیا اور بعد میں انہیں مسلم لیگ کا سینئر نائب صدر اور مرحوم حنیف رامے کو چیف آرگنائزر بنایا گیا۔ لیکن کھر صاحب 1977ء میں واپس پیپلز پارٹی میں چلے گئے اور وزیر اعظم بھٹو کے معاون خصوصی بن گئے۔ اور آخر میں دو واقعات۔ میرے ایک قریبی دوست سیّد داؤد شاہ ریکروٹنگ کا کاروبار کرتے تھے ایک دن میرے پاس آئے اور کہا کہ میرا لائسنس معطل ہو گیا ہے۔ میں ان کے ساتھ راولپنڈی میں چوہدری ظہور الٰہی کی کوٹھی جا پہنچا۔ سیٹھ اشرف نے صبح صبح آنے کی وجہ پوچھی۔ جب چوہدری صاحب سے سفارش کی تو انہوں نے استفسار کیا کہ داؤد شاہ نے اپنا جرم بھی بتایا ہے۔ میں اس سے لا علم تھا تو انہوں نے بتایا کہ راولپنڈی کے ایک ہوٹل کے ایک کمرے سے محترمہ بے نظیر بھٹو نے دمشق میں اپنے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو سے 45منٹ بات کی ہے اور یہ کال ٹریس ہو گئی ہے۔ کمرہ سیّد داؤد شاہ کے منیجر ثناء اللہ کے نام سے لیا گیا تھا۔ صدر جنرل ضیاء الحق نے اس پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا اور حکم دیا ”داؤد شاہ کو گرم دودھ پلایا جائے۔“ چوہدری صاحب نے سیّد داؤد شاہ کو اندر بلا کر کہا کہ آپ کو تمام بات سے انہیں آگاہ کرنا چاہئے تھا تاہم صدر مملکت کو مطمئن کر کے اس کی ایجنسی بحال کرادی۔ اس سے داؤد شاہ اتنے متاثر ہوئے کہ چوہدری صاحب کے قریبی ساتھی بن گئے۔ دوسرا واقعہ یہ ہے کہ جب چوہدری صاحب پر پے در پے مقدمات قائم کئے جا رہے تھے تو پشاور ہائی کورٹ کے سربراہ مسٹر جسٹس صفدر شاہ نے ان کی ”جنرل ضمانت“ منظور کر لی۔ مسٹر جسٹس صفدر شاہ پیپلز پارٹی کے حامی سمجھے جاتے تھے اور بھٹو صاحب کے خلاف مقدمہ میں یہ بھی ان کے حق میں فیصلہ لکھنے والوں میں شامل تھے اور ظاہرہے کہ یہ اس وقت ”بڑا جرم“ تھا چنانچہ ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا۔ شاہ صاحب مرحوم نے 34صفحات پر مشتمل استعفیٰ لکھا اور رات گئے لاہور میں چوہدری ظہور الٰہی سے ملاقات کی جس میں چوہدری صاحب نے ان سے کہا کہ وہ دو سطری استعفیٰ لکھ دیں۔ وہ صدر سے بات کر کے اسے منظور کرا لیں گے۔ لیکن چوہدری صاحب کی بات سے پہلے ہی چیف جسٹس مسٹر جسٹس انوار الحق نے فیصلہ سنا دیا تاہم چوہدری ظہور الٰہی ہی تھے جنہوں نے سیّد صفدر شاہ کو لندن میں ”جلا وطن حکومت“ قائم کرنے سے روکا تھا جبکہ پیپلز پارٹی کی جانب سے تیاری مکمل تھی۔ چوہدری ظہور الٰہی اپنی ذات میں ایک ادارہ ایک انجمن تھے کہ اب ایسے لوگ کہاں؟
تازہ ترین