ڈینگی کی علامات ظاہر ہوتے ہی، سب سے پہلا کام یہ کرنا چاہیے کہ تصدیق کے لیے فوری طور پر ڈینگی کی تشخیص کروائی جائے۔ تشخیص کے لیے متاثرہ شخص کے خون کا نمونہ لے کر کسی بھی معیاری لیبارٹری سے ٹیسٹ کروایا جاسکتا ہے۔
ڈینگی کیسے ہوتا ہے ؟
ڈینگی ایک وائرس ہے، جو مادہ مچھر aedes aegypiti کے کاٹنے سے پھیلتا ہے۔یہ مچھر صاف پانی اور زیادہ تر گھروں میں افزائش پاتا ہے۔اس مچھر کی ایک مخصوص پہچان ہے، اس کے جسم پر سیاہ اور سفید دھبے ہوتے ہیں۔اس مچھر کے کاٹنے کی وجہ سے انسان ڈینگی بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے۔بارشوں کے بعد ان مچھروں کی افزائش میں اضافہ ہوجاتا ہے اور ان کے کاٹنے سے ڈینگی بخار کے کیسز بھی دگنا ہوجاتے ہیں۔یہ ایک معتدی بیماری ہے اور ایک مخصوص وائرس سے پھیلتی ہے۔
یہ وائرس استوائی خطے میں پایا جاتا ہے اور تقریباً 110 ممالک اس سے متاثر ہیں۔ اس وائرس کی چار مختلف اقسام ہیں۔ اس کی ایک قسم سے متاثرہ شخص میں زندگی بھر کیلئے صرف اسی قسم کی وائرس کے خلاف مدافعت پیدا ہو سکتی ہے لیکن دوسری قسموں سے وہ پھر بھی متاثر ہوسکتا ہے۔
ڈینگی پھیلانے والا مچھر انسانوں کو طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت کاٹتا ہے۔اگر اس کا بروقت علاج نا کروایا جائے تو یہ جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔پاکستان میں ہر سال سینکڑوں افراد اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت دنیا کی ڈھائی کروڑ سے زائد آبادی اس موذی اور جان لیوا مرض کا شکار ہے۔
ڈینگی کی علامات
متاثرہ شخص میں ڈینگی بخار کی ابتدائی علامات کچھ اس طرح سے ظاہر ہوتی ہیں۔ اچانک تیز بخار ،سر میں درد ، جوڑوں میں درد،آنکھوں کے پیچھے درد ،جسم میں درد،جسم پر سرخ دھبے،بے ہوشی ،پیشاب کے رنگ کا گہرا ہوجا نا اور کم آنا،دھڑکن کا تیز ہونا،پیٹ میں درد،قے ہونا شامل ہے۔
ڈینگی کی تشخیص
ڈینگی کی علامات ظاہر ہوتے ہی، سب سے پہلا کام یہ کرنا چاہیے کہ تصدیق کے لیے فوری طور پر ڈینگی کی تشخیص کروائی جائے۔ تشخیص کے لیے متاثرہ شخص کے خون کا نمونہ لے کر کسی بھی معیاری لیبارٹری سے ٹیسٹ کروایا جاسکتا ہے۔ڈینگی کی تشخیص مندرجہ ذیل ٹیسٹ کے ذریعے ممکن ہوتی ہے۔
پلیٹیلیٹس کے ذریعے ڈینگی کی تشخیص
عمومی طور پر ایک شخص میں پلیٹیلیٹس کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے ساڑھے چار لاکھ فی مائکرولٹربلڈ ہوتی ہے۔ موسمی بخاری میں یہ کم ہوکر نوے ہزار سے ایک لاکھ ہوسکتی ہے۔ ڈینگی وائرس کی صورت میں پلیٹیلیٹس شدید کم ہوجاتے ہیں اور اس کا کاؤنٹ بیس ہزار یا اس سے بھی کم رہ جاتا ہے۔
ڈینگی کا علاج
اس مرض سے تحفظ کے لئے اب تک کوئی مخصوص ویکسین دریافت نہیں ہوئی۔ اس مرض سے بچنے کیلئے عالمی ادارہ صحت نے بھی جو تجاویز دی ہیں، وہ سب حفاظتی نوعیت کی ہیں۔تحقیق نے ثابت کردیا ہے کہ ڈینگی کا مرض تشویشناک ہونے کے باوجود ایسا مرض نہیں ہے کہ انسان اس سے خوف زدہ ہو جائے۔ یہ مرض ٹائیفائیڈ سے زیادہ نقصان دہ نہیں، بشرطیکہ اس کا علاج بروقت شروع کردیا جائے۔
اس وائرس سے متاثرہ افراد میں سے 90 فیصد مریض عام علاج معالجے اور غذائی ردو بدل سے روبہ صحت ہوجاتے ہیں۔ ایسے مریض جو ڈینگی وائرس کی زیادہ مقدار خون میں سرائیت کرجانے سے نازک صورتحال تک جا پہنچیں، ان کو صاف خون لگا کر اس وائرس سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن انتقال خون کے وقت تسلی کرلی جائے کہ خون دیگر تمام متعدی امراض کے وائرس، جراثیم اور بیکٹیریا سے پاک ہو۔
ڈینگی میں اینٹی بائیوٹیکس کا استعمال
ڈینگی سے متاثرہ شخص کو اینٹی بائیوٹک ادویات کا استعمال کسی صورت نہیں کرنا چاہیے، کیوں کہ اینٹی بائیوٹکس کے استعمال سے پلیٹیلیٹس کی تعداد مزید کم ہوجاتی ہے، جس سے مریض کی حالت مریض بگڑسکتی ہے۔اس کے لیے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے، علاج شروع کرنے سے پہلے اس کی تشخیص کروانا ضروری ہے۔
ڈینگی سے متاثرہ شخص کی غذا
ڈینگی سے متاثرہ شخص کو ایسی غذائیں استعمال کرنی چاہئیںجو اس کی قوت مدافعت میں اضافہ کا باعث بنیں۔پھلوں میں انار اور ٹماٹر قدرتی طور پر بیماریوں کے خلاف جنگی سپاہیوں کا کام کرتے ہیں۔ سبزیوں میں ادرک ، لہسن او ر پیاز اینٹی وائرل اور اینٹی بائیوٹک خصوصیات کے حامل ہیں۔ زود ہضم اور ہلکی غذائیں کھائی جائیں‘ اس کے علاوہ سبزیاں پکاتے وقت سرخ مرچ کا کم سے کم استعمال کریں ۔
ہری مرچ اور ہلدی کامناسب استعمال کریں، کیونکہ ہلدی بھی بدنی مدافعاتی نظام میں بہتری کا ذریعہ بنتی ہے۔ ڈینگی کے مریض کے لیے شہد کا استعمال بھی مفید ثابت ہوتا ہے۔سیب ، ناشپاتی اور انار کے جوس میں چند قطرے لیموں ڈال کر پینے سے بھی ڈینگی بخار میں آرام ملتا ہے۔پپیتے کے پتوں کا قہوہ بھی مدافعت کو بڑھاتاہے۔ پپیتا، ڈینگی میں متاثرہ ہونے والے پلیٹلیٹس کو بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ مریض کو پپیتے کا جوس بھی دینا چاہیے۔
حفاظتی اقدامات
ڈینگی کا مچھر خاص طور پر صبح اور شام کے وقت کاٹتا ہے۔ صبح اور شام میں اپنا جسم ڈھانپنے، پانی کا صحیح نکاس اس مچھر کو بیماری پھیلانے اور افزائش نسل سے روکنے میں خاصا مددگار ثابت ہوتا ہے۔ حفاظتی اقدامات ہی اس وائرس سے بچاؤکا ذریعہ ہے۔
ڈینگی بخار ایک موذی مرض ہے۔ جیسے کہاوت ہے کہ احتیاط علاج سے بہتر ہے کے مصداق اس موذی مرض سے احتیاط کرکے اس سے چھٹکار ا حاصل کیا جاسکتا ہے۔