• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آئی ایم ایف سے قرضہ: ضروری یا مجبوری؟

عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) اور حکومت پاکستان کے درمیان قرض کے حصول کے معاہدے ہمیشہ ہی ماہرین معیشت کے لیے گرما گرم بحث کا موضوع ہے۔دونوں جانب سے ہی اسکے ممکنہ فوائد اور نقصانات کے بارے میں دلائل دئیے جاتے رہے ہیں۔

 لیکن بیشتر ماہرین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستانی معیشت کو درکار کیش فوری طور پر نہ ملنے کی صورت میں جو نقصان ملک اور بالخصوص غریب طبقے کو برداشت کرنا پڑتا اسکے مقابلے میں آئی ایم ایف کے ساتھ اس معاہدے کی شرائط پر عمل کی صورت میں ہونے والے مضر اثرات کہیں کم ہیں ۔ پاکستان کو چار ماہ بعد ہمیشہ ان قرضوں کی ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔ 

یہ ادائیگیاں ان غیر ملکی قرضوں کی اقساط کے سلسلے میں ہیں جو پاکستان ہر سال واپس کرتا ہے۔ اگر یہ ادائیگیاں نہیں کی جاتیں تو پاکستان کو غیر ملکی قرضوں پر ’ڈیفالٹ‘ کرنے والے ممالک میں شامل کیا جاسکتا ہے۔یہ وہ صورتحال تھی جس کی بنیاد پر حکومت نے اعلان کیا کہ وہ آئی ایم ایف کے ساتھ ’بادل ناخواستہ‘ قرض کے حصول کے لئے معاہدہ کر رہی ہے۔

 ایسا حکومت نے پہلے بھی کیا ہے لیکن اب دوبارہ یہ خبریں زد عام ہیں کہ پاکستان ایک بار پھر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے دروازے پر دستخط دے رہا ہے ۔ 

پہلے دو آپشنز میں دوست ممالک اور نرم شرائط پر قرض دینے والے ادارے شامل تھے لیکن یہ آپشنز زیر عمل نہیں آسکے۔ اب پاکستان میں عالمی بنک سے منسلک ماہرین کے مطابق ملک کے شیئر بازار مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔

انکا کہنا ہے کہ یہ تاثر درست ہے کہ آئی ایم ایف سمیت دیگر مالیاتی ادارے سخت مالیاتی نظم قائم کرنے اور اخراجات کم کرنے پر زور دیتے ہیں جس سے بالعموم قرض لینے والے ممالک میں اقتصادی ترقی کی شرح (جی ڈی پی) کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔ 

جس سے بیروزگاری کی شرح میں اضافے جیسے منفی اثرات معیشت پر پڑ سکتے ہیں۔ اس نقطہ نظر کے برخلاف چند ایک ماہرین ایسے بھی ہیں جو دوسرے زاویے سے اس پورے معاملے کو پرکھتے ہیں۔ ان معاشی ماہرین کی نظر میں کمزور مالیاتی پوزیشن کے باعث پاکستان کو ویسے بھی اپنی اقتصادی شرح نمو کی رفتار کم کرنی ضروری ہے کیونکہ تیز رفتار معیشت کو جس ’کیش فلو‘ کی ضرورت ہوتی ہے وہ پاکستان کو دستیاب نہیں ہے۔ مزید یہ کہ تیز رفتار معیشت مہنگائی کو بھی جنم دیتی ہے۔

اسکے برعکس اگر پاکستان یہ قرض نہ لیتا تو اگلے ماہ اسے غیر ملکی قرض واپس نہ کر سکنے والے ممالک یا غیر ملکی قرض کے تعلق سے دیوالیہ ملکوں کی فہرست میں شامل کر دیا جاتا۔اسکے نتائج کی فہرست بہت طویل ہے جس میں غیرملکی سرمایہ کاری کا فقدان، قرضوں کی عدم دستیابی، ترقیاتی پروگراموں کی بندش، تجارتی مسائل وغیرہ شامل ہیں۔

ان منفی اقدامات کا جو نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے وہ افراط زر کی شرح میں ناقابل یقین حد تک اضافے کی صورت میں ہو سکتا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ بین الاقوامی تجارتی اور مالیاتی روابط منقطع ہونے کے بعد پاکستان کو اپنے روز مرہ کے اخراجات سے نمٹنے کے لئے زیادہ سے زیادہ مقامی کرنسی چھاپنے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہ ہوتا اور نتیجہ یہ ہو سکتا تھا کہ افراط زر کی شرح جو اس وقت پچیس فیصد کے قریب ہے، وہ بڑھ کر کئی سو فیصد تک ہو سکتی تھی۔افراط زر میں اس غیر معولی اضافے کا سب سے زیادہ نقصان متوسط اور غریب طبقے کو ہوتا ہے۔

آئی ایم ایف کے پروگرام میں شامل ہونے سے پاکستانی معاشی اور مالیاتی نظام میں وہ نظم و ضبط آ جائیگا جس کی کمی کئی برس سے محسوس کی جارہی تھی۔دوسری جانب مالیاتی نظم سخت کرنے سے افراط زر کی شرح میں کمی کا سلسلہ بہت سست روی سے شروع ہو چکا ہے۔ گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں اس ہفتے اس کی شرح میں معولی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔

آئی ایم ایف کے پروگرام میں شمولیت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس پروگرام پر عمل کرنے کی صورت میں اقتصادی نمو کی شرح کم ہونے کے علاوہ صنعتی پیداوار کا گراف بھی گرنا شروع ہوتا ہے جس سے بیروزگاری کی شرح بڑھتی ہے۔حکومت کو بجلی، گیس وغیر پر دی جانے والی رعایتی قیمت (سبسڈی) واپس لینا پڑتی ہے جس سے انکی قیمت میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور بجٹ خسارہ کم کرنے کی کوشش میں ترقیاتی اخراجات بھی کٹوتی کی زد میں آ جاتے ہیں۔ایک اور معاشی ماہر کے مطابق تمام امکانات کسی حد تک آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام شروع کرنے کی صورت میں ملکی معیشت کو درپیش ہو سکتے ہیں۔ 

وہ کہتے ہیں کہ ماضی کے تجربات بتاتے ہیں کہ دنیا کے بیشتر ممالک کے آئی ایم کے ساتھ پروگرام شروع کرنے سے طویل مدت میں انکی معیشت پر اچھے اثرات مرتب نہیں ہوئے۔ کچھ ایسا ہی تجربہ پاکستان کا بھی ہے۔ لیکن اب عالمی معاشی نظام میں ہونے والی تبدیلیوں نے آئی ایم ایف کو بھی اپنی ترجیحات بدلنے پر مجبور کر دیا ہے مثلاً یہ پہلی بار ہے کہ آئی ایم ایف نے غریب لوگوں کی بہتری کے لئے کئے جانے والے اخراجات میں کٹوتی نہ کرنے کی شرط رکھی ہے۔’پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان جو شرائط طے ہوئی ہیں ان میں ابھی تک ایسی کوئی چیز سامنے نہیں آئی جس پر خطرے کی گھنٹی بجنی چاہئے۔ اب وہ وقت نہیں ہے کہ جب آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی آنکھیں بند کر کے مخا لفت کی جا سکے۔

ایک سال سے زائد کا عرصہ ہو گیا ہے جب آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسچن لاگریڈ پاکستان آئی تھیںاور اس نے کہا تھا کہ پاکستان نے فنڈ پروگرام میں گریجویشن کر لی ہے۔ حالانکہ بہت سی بےضابطگیوں کو دانستہ آئی ایم ایف نے نظر انداز کر دیا تھا۔ آئی ایم ایف جن ملکوں کو قرض دیتا وہ اسی شرائط میں باندھ دیتا ہے کہ قرضوں سےنجات مشکل ہو جاتی ہے۔ 

تقریباً دو سال پہلے اسحاق ڈار وزیر خزانہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ مالیاتی ریزو اس وقت بلند ترین شرح پر ہیں اور یہ لمحہ پاکستان کے لئے مواقع پیدا کرنے کا ہے۔ حالانکہ جو ریزو زرمبادلہ کے ذخائر میں تھے وہ زیادہ تر قرضوں سے تشکیل دیئے گئے تھے۔ آمدنی زرمبادلہ کی برآمدات سے ہوتی ہے جو پاکستان کی تاریخ میں جاری مالیاتی سال میں 21.4ارب ڈالر رہ ہے جب کہ 2012 میں 26 ارب ڈالر تھیں۔

 ایک سال پہلے آئی ایم ایف نے 6.6ارب ڈالر اسٹرکچرل ایڈجسٹمنٹ کے نام پر ایک سال کے لئے قرض دیا تھا اس وقت یہ کہا تھا کہ شرح گروتھ رفتار پکڑ رہی ہے اور افراط زر مناسب حد تک کم ہے۔ پھر ایک انٹرویو میں آئی ایم ایف کے سربراہ نے کہا تھا کہ امیدکہ حکومت معاشی اصلاحات کر کے ملک کو درست سمت میں لے جائے گی۔ اور اب آئی ایم ایف کے بورڈ نے پاکستان کو وارننگ دے دی او رکہا کہ جتنا جلدی ہو سکے حکومت بیرونی صورتحال یعنی کرنٹ اکائونٹ میں جو خسارے کی حالت ہے اور محصولاثی اکائونٹ جس زوال پذیری کا شکار ہے ہنگامی حالت میں فوری طو پر قلیل مدت کے اقدامات کرے۔

 یہ بالکل عیاں ہے کہ حکومت نے مواقع کا وقت ضائع کر دیا ہے اور اب پاکستان پھر لڑھکتا ہوا آئی ایم ایف کے پروگرام کی طرف جا رہا ہے۔ اب ایک اور رائونڈ میکرو اکنامک استحکام کی شرائط کا دور صاف نظر آرہا ہے جس کے تحت مزید ٹیکسوں کے نفاذ کی ہدایت ہو گی اور برآمدات بڑھانے پر زور دیا جائے گا اور درآمدات جوبہت زیادہ ہیں ان کو کم کرنے کی ہدایت ہو گی اس وقت 33ارب ڈالر کا بین الاقوامی تجارت میں خسارہ ہے۔ کرنٹ اکائونٹ خسارہ اس قدر خطرناک حد تک پہنچ گیاہے اگر زرمبادلہ کمانے کی خاطر روپےکی قدرمیں خاص کمی بھی کرد تاکہ برآمدات بڑھیںلیکن مسئلہ حل نہیں ہو گا کیونکہ کرنسی گرنے سےدرآمدات بھی مہنگی ہو جائیں گی۔ دیکھنا یہ بھی ہے کہ برآمدا ت حکومت کیا 26 ارب ڈالر یعنی 2012 کی حد تک لا سکتی ہے اور کم از کم پانچ ار ب ڈالر درآمدات میں کمی کر سکتی ہے تو پھر زرمبادلہ کو سانس لینے کا موقع مل جائے گا۔ 

ریگولیٹری ڈیوٹی نافذ کی گئی ہے لیکن اسمگلنگ اور انوائسنگ میں گڑبڑ سے ریگولیٹری ڈیوٹی سے زیادہ مثبت اثرات مرتب نہیں ہونگے بین الاقوامی تجارت توازن ادائیگیوں کا خسارہ زرمبادلہ کے ذخائر کو چاٹ رہے ہیں (آئی ایم ایف) پاکستان کی تاریخ میں بار بار خساروں کی وجہ سے اب قرض دینے والوں کو بھی اکتاہٹ ہو گئی ہے لیکن پاکستان کی حکومتیں بھی اپنا گھر ٹھیک نہیں کرتیں۔ 35 لاکھ مالدارلوگ انکم ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔ 

سیلز ٹیکس جو عوام سے لیاجاتا ہے وہ بھی کھا لیا جاتا ہے ایک رستوران کی روزانہ کی فروخت 5 لاکھ روپے ہے اور وہ دو دو لاکھ روپے سالانہ سیلز ٹیکس ادا کرتا ہے نجی اسپتال اور ریستوران کتنا کماتے ہیں اس کا درست ڈیٹا حکومت کے پاس نہیں ہے کیونکہ سرکاری عملہ کرپٹ ہے۔ ٹرانسپورٹ سواریوں کے ضمن میں ہویا ٹرک ہوں ان آمدنی کے اعداد و شمار اتنے ہی ہیں جتنے ملی بھگت سے دکھائے جاتے ہیں اور موجودہ نظام صرف ٹیکسوں کی درست وصولی پر ہی چلتا ہے۔ 

جن کو ٹیکس ادا کرنا وہ نہیں کرتے اور ان کو کوئی پوچھتا بھی نہیں ہے۔ زرعی ٹیکس جہاں آمدنی ہے اور وافر ہے وہاں بھی ٹیکس نہیں لیا جاتا تو پھر عوام پر بلواسطہ ٹیکس ہی نافذ کئے جائیں گے اس لئے گیس اور پیٹرول کی قیمتیں بھی بے قابو ہو جائیں گی۔ ایک سال جو آنے والا ہے اور انتخابات بھی ہونے والے ہیں اس میں سب سے بڑا مسئلہ معاشی عدم توازن کا ہے جو بالکل بے قابو ہے۔ 90 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے میں اور چین کے قرضے 60 ارب ڈالر ہیں اور گودار میں پاکستان کا حصہ صرف 9فیصد ہے تو پھر کس طرح کوئی آنے والی حکومت اس ملک کو سنبھال پائے گی۔ 

ابھی تک کسی پارٹی نے ان مسائل پر کوئی گفتگو نہیں کی اور نہ ہی کوئی شیڈول منصوبہ دیا ہے کہ ملک کس طرح چلائیں گے۔ آئی ایم ایف کا کہنا ہے بیرونی اشارئیوں کو دیکھیں تو سوچ سے بھی زیادہ حالات خراب ہیں جو مالیاتی طور پر سنبھالے نہیں جا سکتے۔ 

تازہ ترین