مفتی محمدنعیم
(مہتمم جامعہ بنوریہ عالمیہ)
اسلام نے انسانوں کو ایک دوسرے کا احترام کرنے اور باہمی تعلقات کو خوش گوار بنانے پر زور دیا ہے۔اس نے واضح کیا ہے کہ تمام انسانوں کو اللہ نے ہی پیدا کیا ہے ،اس لئے ان سب کو اللہ سے ہی ڈرنا چاہیے،اس حوالے سے فرمایا گیا: ’’لوگو! اپنے رب سے ڈرو ،جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیے۔‘‘(سورۃ النساء)اسلام میں انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیا گیا ہے، اس کے احترام و اکرام کی تعلیم دی گئی، انسان ہونے کے ناطے اسے پوری کائنات پر فضیلت و برتری عطا کی گئی ۔
ارشاد ربانی ہے:’’ہم نے آدمؑ کی اولاد کو عزت بخشی اور خشکی اور دریا میں انہیں سوار کیا اور روزی دی،انہیں پاکیزہ چیزوں سے، اور ہم نے انہیں بہت سی مخلوقات پر فوقیت دی ہے۔‘‘ (سورئہ بنی اسرائیل)
اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوقات میں انسانوں کو سب سے اچھی شکل و صورت عطا فرمائی۔ ارشاد ربانی ہے:’’ہم نے آدمی کو اچھی شکل و صورت میں پیدا کیا ہے۔‘‘(سورۂ والتین)اسلام نے اعلان کیا ہے کہ دنیا کی تمام نعمتیں حق جل شانہ نے انسانوں کے لیے پیدا فرمائی ہیں اور انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔(ترجمہ)’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے نفع کے لیے زمین کی ساری چیزیں پیدا کی ہیں۔‘‘ ’’میں نے سب جنات اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘(سورۃ البقرہ)
اسلام میں انسانی حرمت و شرافت کی کتنی پاس داری ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کہ اسلام میں تعلیم دی گئی ہے کہ انسان کا احترام موت کے بعد بھی ضروری ہے اور یہ حکم ہے کہ مُردے کو پوری عزت و احترام کے ساتھ غسل دیا جائے ، صاف ستھرا کفن پہنا کر خوشبو سے معطر کیا جائے، نماز جنازہ پڑھی جائے، پھر کاندھوں پر اٹھا کر قبرستان لے جایا جائے اور دفن کیا جائے، انسان ہونے کے ناطے ہر شخص کا احترام ضروری ہے۔
ایک بار غیر مسلم کا جنازہ گزر رہا تھا، سرکار دو عالم ﷺ جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوگئے، صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ یہ تو یہودی کا جنازہ ہے،آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ موت ایک خوف ناک چیز ہے، پس تم جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوجایا کرو۔دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے جواب میں فرمایا:’’اَلیسُت نفساً‘‘ انسان تو یہ بھی ہے۔ (مشکوٰۃ شریف، ص: ۱۴۴۔۱۴۷)
زمانۂ جاہلیت میں جنگ کے دوران دشمنوں کے ساتھ ہر برا سلوک روا رکھا جاتا تھا، ان کے جسمانی اعضاء کاٹ دیے جاتے ، دشمنوں کی کھوپڑیوں میں شراب پی جاتی ، سرکار دوعالم ﷺ کے محترم چچا حضرت حمزہ ؓ کے بدن کے بعض اعضاء بھی غزوئہ اُحد کے موقع پر کاٹ لیے گئے ، اسلام نے انسانی حرمت کو پامال کرنے والے ان کاموں سے سختی کے ساتھ روک دیا اور مُردوں کی ہر طرح کی بے حرمتی ناجائز قرار پائی۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مُردے کی ہڈی کو توڑنا ،زندہ انسان کی ہڈی توڑنے کی مانند ہے۔ (مشکوٰۃ شریف، ص: ۱۴۹)
اسلام میں انسانی عظمت کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اسلامی عقیدے کے مطابق جتنے انبیا ور سل دنیا میں انسانوں کی ہدایت کے لیے تشریف لائے ،وہ سب کے سب انسان تھے۔ یہودی حضرت دائود، حضرت یعقوب اور حضرت عزیز علیہم السلام کی نسبت یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ان میں سے ہر ایک خدا کا بیٹا تھا، عیسائی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰؑ خدا کے بیٹے ، قادر مطلق اور تین ارکان الوہیت میں سے ایک ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اپنے فضل و کرم سے عقل و خرد کی بیش بہا دولت سے نواز اہے، جس کی بدولت وہ ساری کائنات پر حکمرانی کرتے ہیں، عقل و خرد سب انسانی خوبیوں اور کمالات کا سرچشمہ ہے، ارشاد نبویؐ ہے:اللہ کی تمام پیدا کردہ چیزوں میں عقل اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ باعزت ہے۔
اسی اہمیت کے پیش نظر، اسلام نے عقل کی حفاظت پر خصوصی توجہ دی ہے کہ عقائد اور اخلاق و اعمال میں اعتدال سے ہی قائم رہتا ہے اور انسان کے لیے حقوق و فرائض کی انجام دہی آسان ہوتی ہے، نیز قرآن کریم میں جگہ جگہ عقل کے استعمال اور غور و خوض ، تدبر و تفکر کی دعوت دی گئی ہے، تاکہ انسان کائنات اور اس کے نظام پر غور و فکر کرکے نظام الٰہی اور پیام ربانی کی حقانیت کا اعتراف کرے اور اس کے مطابق زندگی استوار رکھنے کا عہد کرے۔
انسانی اخوت کا تصور سب سے پہلے اسلام نے ہی پیش کیا ہے اور ہر طرح کی تفریق و امتیاز اور اونچ نیچ کو مٹانے کا اعلان کیا ہے، اسلام کی تعلیم ہے کہ تمام انسان حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں، بہ حیثیت انسان ان میں کوئی فرق و امتیاز نہیں، ارشاد ربانی ہے:اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کی بیوی پیدا کی اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور بہت سی عورتیں پیدا کیں۔ (سورئہ النساء)
مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، اللہ کے نزدیک اس کی مخلوق میں پسندیدہ وہ شخص ہے، جو اللہ کے کنبے کے ساتھ سب سے اچھا سلوک کرتا ہو۔ (مشکوٰۃ شریف)قرآن کریم نے انسانی وحدت و مساوات کے تصور کو ذہنوں میں راسخ کرنے کے لیے ہی جگہ جگہ ’’یایھا النّاس‘‘ اور ’’یا بنی آدم‘‘ جیسے الفاظ کے ذریعے تمام افراد انسانی کو اپنے لازوال پیغام کا مخاطب بنایا ہے اور سب کو یکساں طورپر دنیا و آخرت میں صلاح و فلاح کی دعوت دی ہے، جن افراد نے اس کی دعوت پر لبیک کہا، انہیں’’ یایّھاالذین آمنوا‘‘سے خطاب کیا گیا، انسانوں میں نسلی یا طبقاتی امتیاز اور فرق کو روا نہیں رکھا گیا۔
حجۃ الوداع کے موقع پر سرکار دو عالم ﷺ نے اپنے تاریخی خطبے میں جن بنیادی انسانی حقوق سے متعلق وصیت و ہدایت فرمائی،ان میں انسانی وحدت و مساوات کا معاملہ خصوصی اہمیت کا حامل ہے ۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’اے لوگو! یقیناً تمہارا پروردگار ایک ہے، تمہارا باپ بھی ایک ہے، تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے، یقیناً تم میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہ شخص ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی اور پاک باز ہو، کسی عربی کو عجمی پر کوئی برتری نہیں ، مگرتقویٰ کی بناء پر۔‘‘
تمام انسان اسلامی تعلیمات کی رو سے بھائی بھائی ہیں، حسب و نسب اور خاندان و قبائل تعارف اور شناسائی کا ذریعہ ہیں: اور ہم نے تمہیں مختلف خاندانوں اور قبیلوں میں پیدا کیا ہے، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔نبی رحمت ﷺ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا:’’اے اللہ، میں گواہی دیتا ہوں کہ سب انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔‘‘(سنن ابودائود)محسن انسانیت ﷺ نے صرف اس کا اعلان ہی نہ فرمایا، بلکہ اس اصول کو انسانی زندگی کا دستور العمل بنادیا، ساری زندگی اس پر عمل کرکے دکھایا اور اپنے پیروکاروں کے سامنے اس کا ایسا واضح نمونہ قائم فرمایا کہ وہ بھی اس دستور اور اصول کو فراموش نہ کرسکے اور انسانی اخوت و وحدت اور مساوات کا تصور ان کے اعمال و اخلاق میں ہمیشہ جلوہ گر نظر آیا۔اسلام کے احکام و اعمال میں بھی مساوات انسانی کا مکمل لحاظ کیا گیا ہے۔
نماز میں سب لوگ اللہ کے حضور ایک ہی حیثیت سے کھڑے ہوتے ہیں، کسی بادشاہ، امیر یا عالم کے لیے کوئی خاص جگہ مخصوص نہیں۔رمضان کے روزوں میں سب مسلمان یکسان طورپر بھوکے رہتے ہیں، روزے داروں میں بھی امیر و غریب کا کوئی فرق نہیں ہوتا، حج میں سب ایک ہی طرح کا احرام باندھتے ہیں اور حج کے اعمال یکسانیت و اجتماعیت کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔اسلام دین رحمت ہے، بلا تفریق قوم و مذہب تمام انسانوں پر رحم و کرم اس کی خصوصیات میں داخل ہے۔
اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب یا تہذیب میں انسانیت نوازی اور عام انسانوں پر رحم و کرم کا وہ تصور نہیں ملتا،جو اسلام نے پیش کیا ہے، محسن انسانیت ﷺ ارشاد فرماتے ہیں:’’رحم کرنے والوں پراللہ رحم کرتا ہے ، تم زمین والوں پر رحم کرو، تم پر آسمان والا رحم کرے گا۔‘‘ (صحیح بخاری)انسانوں پر رحم و کرم کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:جنت میں رحم دل انسان ہی داخل ہوگا۔ صحابہؓ نے عرض کیا: یارسول اللہﷺ! ہم سب رحم دل ہیں۔ سرکاردوعالمﷺ نے ارشاد فرمایا: نہیں! رحم دل وہ ہے جو عام مخلوق پر رحم کرے۔ (کنزالعمال، ابواب الاخلاق)
تمام انسانوں کو بھائی بھائی بن کر رہنے کی تلقین کی گئی ہے، اور ایسی ہر بات سے روکا گیا ہے جس سے باہمی تعلقات خراب ہوں، اور رشتۂ اخوت کمزور پڑنے کا خطرہ پیدا ہو۔ ارشاد نبویؐ ہے:ایک دوسرے سے قطع تعلق نہ کرو، نہ ایک دوسرے سے منہ پھیرو، آپس میں بغض و عداوت نہ رکھو، باہمی حسد نہ کرو اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جائو۔ (سنن ترمذی)اسلام اسی اخوت و اجتماعیت،اتحاد و یگانگت کی بنیاد پر احترامِ انسانیت ،بنیادی انسانی اقدار اور انسانی حقوق کے تحفظ کا حکم دیتا ہے۔
اس لیے کہ اسلام احترامِ انسانیت اور امن و سلامتی کا علم بردار ہے۔انسان دوستی اور احترام انسانیت دین اسلام کا امتیاز اور بنیادی شعار ہے ،جس کے بغیر احترام انسانیت اور امن و سلامتی کا تصور بھی محال ہے۔