مفتی منیب الرحمٰن
بیٹیوں کو وراثت سے محروم رکھنا
سوال:۔ہمارے گاؤں میں بیٹیوں کو وراثت سے محروم رکھاجاتاہے اور انہیں وراثت میں کچھ نہیں دیاجاتا ، والد اپنی تمام جائیداد بیٹوں کے درمیان تقسیم کردیتے ہیں،اس کی بابت شرعی حکم کیاہے ؟(قاری بہادر ،چترال )
جواب:۔ بیٹی کو باپ کے ترکے سے محروم نہیں کیاجاسکتا ،کیونکہ باپ کے مال میں بیٹیوں کا حق قرآن کی نَصِّ قطعی سے ثابت ہے ،جسے قطعاً رَد نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’ اللہ تمہاری اولاد( کی وراثت کے حصوں) کے متعلق تمہیں حکم دیتاہے کہ(میت کے) ایک بیٹے کا حصہ دوبیٹیوں کے حصے کے برابرہے،سواگرصرف بیٹیاں (دویا) دوسے زیادہ ہوں تو ان کا حصہ (کل ترکے کا) دوتہائی ہے اوراگر صرف ایک بیٹی ہوتو اس کا حصہ (کل ترکہ کا) نصف ہے ‘‘۔ (سورۃ النسا:11)اگر بیٹایا کوئی وارث بیٹی کو محروم کرتاہے تو یہ ظلم ہے اور اس طرح کا کوئی بھی عمل شرعاً ناقابلِ قبول ہے ۔
لزومِ کفر کا حکم اُس صورت میں ہوگا،جب کوئی شخص بیٹی /بہن کے حقِ وراثت کا منکر ہواور یہ عقیدہ رکھتاہوکہ باپ کی وراثت میں اُن کاکوئی حصہ نہیں ہے،کیونکہ یہ قرآن کی نَصِّ قطعی کا انکار ہے، لیکن اگروہ بیٹی کے حقِ وراثت کا عقیدۃً تومنکر نہیں ہے ،لیکن ظلم کرتے ہوئے اپنی علاقائی یا قبائلی رسم و رواج کو بہانہ بناکر بیٹی یا بہن کو وراثت میں حق دینے سے انکاری ہے ،یہ ظلم اورفسق ہے،کیونکہ ایساشخص قرآن میں بیان کردہ اللہ تعالیٰ کے صریح اورقطعی حکم کو رسم ورواج کی بنیاد پر رَد کرتاہے ،علاقائی یا قبائلی رسم ورواج کو فوقیت دیتے ہوئے بیٹی یا بہن کو اُس کے حقِ وراثت سے روکتاہے،تویہ گناہ ِ کبیرہ اورظلماً مال غصب کرناہے اور اس پر حدیث پاک میں بڑی وعید آئی ہے :’’جو شخص کسی کی زمین کا ایک بالشت ٹکڑا بھی ظلما ً(یعنی نا حق) لے گا ،تو اُسے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن (سز ا کے طورپر) سا ت زمینوں کا طوق پہنا ئے گا‘‘۔(صحیح مسلم)ریاست اورحکومت کا فرض ہے کہ بیٹی کو باپ کی وراثت میں اُس کا حق دلائے اور ایسا قانون بنائے کہ جس کی رُو سے کسی بھی شخص کے انتقال کے بعد اُس کی منقولہ اورغیر منقولہ جائیداد میں ہرقسم کا تصرُّف تقسیمِ وراثت سے پہلے ممنوع اورکالعدم قراردیا جائے اورکسی نے دوسرے وارثوں کی لاعلمی میں بالاہی بالا باپ کی جائیداد اپنے یا صرف بھائیوں کے نام کردی ہوتو عدالت فی الفور اسے غیر قانونی قرار دے کر جائیداد کی سابق حیثیت بحال کرسکے ۔ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنے مال کاکچھ حصہ اپنی اولاد میں تقسیم کرنا چا ہتا ہے، تو شریعت کی رو سے مستحسن امر یہ ہے کہ وہ تمام اولاد(یعنی بیٹے اور بیٹیوں) کومساوی طور پر دے، مگریہ تقسیمِ وراثت نہیں کہلائے گی ،بلکہـ ’’ہبہ ‘‘کہلائے گااور’’ہبہ‘‘ میں اولاد کے درمیان مساوات کی ترغیب دی گیٔ ہے ۔
حضرت نعمان بن بشیرؓ بیان کرتے ہیں کہ ان کی والدہ حضرت بنت رواحہؓ نے ان کے والد سے درخواست کی کہ وہ اپنے مال میں سے کچھ ان کے بیٹے (حضرت نعمان) کو ہبہ کر دیں، میرے والد نے ایک سال تک یہ معاملہ ملتوی رکھا، پھر انہیں اس کا خیال آ یا، میری والدہ نے کہا ،میں اس وقت تک راضی نہیں ہوںگی، جب تک کہ تم میرے بیٹے کے ہبہ پر رسو ل اللہ ﷺ کو گواہ نہ کر لو، میرے والدمیرا ہاتھ پکڑکررسول اﷲ ﷺ کے پاس لے گئے۔ اس وقت میں نوعمرلڑکا تھا، انہوں نے کہا: یارسول اﷲ ﷺ! اس کی ماں بنت رواحہ یہ چاہتی ہیں کہ میں آپ کو اس چیز پر گواہ کرلوں ، جومیں نے اپنے اس لڑکے کو ہبہ کی ہے، رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، اے بشیر! کیا اس کے علاوہ تمہاری اور بھی اولادہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں ! آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم نے سب کو اتنا ہی مال ہبہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا، نہیں! آپ ﷺ نے فرمایا:پھر مجھے گواہ نہ بنائو، کیونکہ میں ظلم پر گواہ نہیں بنوں گا‘‘۔(صحیح مسلم: 4104) مذکورہ حدیث سے واضح ہوا کہ جب کوئی شخص اپنی حیات میں اپنی اولاد کو کچھ ہبہ کرے تو تمام اولادکے درمیان مساوات کو روارکھے۔ہاں ! اگر کسی اولاد کو کسی خاص سبب مثلاً دوسری اولاد کی نسبت زیادہ فرماںبردار اور خدمت گزار ہے یا کوئی معذوری لاحق ہے تو اُسے دوسری اولاد سے زیادہ دے سکتا ہے ۔
ظہر کی نیت میں غلطی سے عصر کہہ دینا
سوال: اگر کوئی شخص عشاء کی جماعت میں غلطی سے ظہر ،عصر یا مغرب کی نیت کرکے شامل ہوجائے ،سلام پھیرنے سے پہلے یا سلام پھیرتے وقت یاد آیا تو اس نماز کا شرعی حکم کیاہے ؟(محمد اشرف قادری ، کراچی)
جواب:نیت دل کے ارادے کا نام ہے، زبان سے نیت کے کلمات کا اداکرنا ،جوہمارے ہاں معروف ہیں ،نہ حدیث سے ثابت ہیں،نہ شرعاً ضروری ہیں ۔ہمارے متاخرین فقہائےکرام نے ذہنی استحضار یعنی ذہن کومُتوجہ رکھنے کے لیے زبانی نیت کو مستحب قراردیاہے ۔فرض نماز میں یہ ضروری ہے کہ دل میں اُس خاص نماز کی نیت کرے ،مثلاً: آج کی ظہر ۔
علامہ نظام الدینؒ لکھتے ہیں:ترجمہ:’’واجبات اور فرائض مطلق نیت سے ادا نہیں ہوںگے،اس پر اجماع ہے ،جیساکہ ’’غیاثیہ‘‘ میں ہے ،فرض نماز میں تعیین ضروری ہے ،پس یہ کہے: میں آج کے ظہر کی نیت کرتاہوںیا وقتی فرض کی یا وقتِ ظہر کی نیت کرتاہوں ،جیساکہ ’’مُقَدِّمہ ابو اللّیث ‘‘ کی شرح میں ہے اور(وقت کی تعیین کے بغیر مطلق) فرض کی نیت کافی نہیں ہے ،مگر جب فرض ِوقت کی نیت کی تو جائز ہے مگر جمعہ میں فرض وقت کی نیت کافی نہیں اور اگر جمعہ کے علاوہ ظہر کی نیت کی تو بعض نے جائز قرار دیا ،یہ صحیح ہے ،(فتاویٰ عالمگیری ،جلد1،ص:65)‘‘۔
صحتِ نیت کے لیے چند امور ضروری ہیں: (۱) نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں،محض جاننا نیت نہیں ہے (۲) نیت میں محض زبان سے اداکیے ہوئے الفاظ کا اعتبار نہیں ہے ،پس اگر دل میں ظہر کی نیت کی اور وقت بھی ظہر کاہے ، لیکن زبان سے لفظ عصر نکلا تونماز اداہوجائے گی (۳) محتاط ترین بات یہ ہے کہ تکبیرِ تحریمہ کے وقت نیت حاضر ہو،اگرنیت پہلے کرلی اور درمیان میں کوئی اجنبی فعل عارض نہیں ہوا (جیسے کھانا پینا کلام وغیرہ) توبھی صحتِ ادا کے لیے یہ نیت کافی ہے(۴) نماز شروع کرتے وقت دل میں نیت حاضر نہیں ہے ،تودوران نماز کی نیت کا اعتبار نہیں ہے (۵) صحیح یہ ہے کہ سنت اور نفل کے لیے مطلق نماز کی نیت کافی ہے ،وقت کی تعیین ضروری نہیں ہے، البتہ احتیاط کاتقاضا یہ ہے کہ تراویح کے لیے تراویح یا قیام اللیل کی نیت کرے ،البتہ فرض اور واجب نماز کے لیے بالترتیب فرض اور واجب کی نیت ضروری ہے (۶) نیت حاضر ہونے کے معنیٰ یہ ہیں کہ اگرکوئی پوچھے، کون سی نماز پڑھ رہے ہو توکسی تردّد یا سوچ بچار کیے بغیر بتادے کہ مثلاً : ظہر کی نماز پڑھ رہاہوں،(بہارِ شریعت،جلدسوم ،ص:493، ملخصاً ) ‘‘ ۔
اپنے مالی وتجارتی مسائل کے حل کے لیے ای میل کریں۔
tafheem@janggroup.com.pk