• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

اسلام میں خواتین کا مقام اور اُن سے حُسنِ سلوک کی اہمیت

اسلام میں خواتین کا مقام اور اُن سے حُسنِ سلوک کی اہمیت

الحاج ابوالبرکات

قرآن مجید میں عورتوں کے مقام اور ان سے حسن سلوک کے بارے میں کئی آیاتِ ربانی موجود ہیں۔عورت خواہ ماں ہو یا بہن ،بیوی ہو یا بیٹی ،اسلام نے ان میں سے ہر ایک کے حقوق وفرائض کو تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے :اللہ نے تمہیں ایک انسان (حضرت آدمؑ) سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیوی کو بنایا۔(سورۃ النساء)اس بناء پر انسان ہونے میں مرد وعورت سب برابر ہیں۔ قرآن میں ا شاد ہے کہ:ہم نے بنی آدم کو بزرگی وفضیلت بخشی اور انہیں خشکی اور تری کے لیے سواری دی۔ 

انہیں پاک چیزوں کا رزق بخشا اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سی چیزوں پر انہیں فضیلت عطا کی دی۔(سورۂ بنی اسرائیل)اورسورۂ التین میں فرمایا: ہم نے انسان کو بہترین شکل وصورت میں پیدا کیا۔چناںچہ بنی نوع آدم کو جملہ مخلوقات پر فضیلت بخشی گئی اور انسان ہونے کی حیثیت سے جو سرفرازی عطا کی گئی ،اس میں عورت برابر کی حصے دارہے۔اسلام نے علم کو فرض قرار دیا اور مرد وعورت دونوں کے لیے اس کے دروازے کھولے اور جو بھی اس راہ میں رکاوٹ وپابندیاں تھیں، سب کو ختم کردیا۔اسلام نے لڑکیوں کی تعلیم وتربیت کی طرف خاص توجہ دلائی اور اس کی ترغیب دی۔حضرت ابوسعید خدریؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی، انہیں تعلیم وتربیت دی، ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ (بعد میں بھی) حسنِ سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے۔

جس طرح دیگر معاشروں نے عورت کو کانٹے کی طرح زندگی کی رہ گزر سے مٹانے کی کوشش کی، اس کے برعکس اسلامی معاشرے نے بعض حالتوں میں اسے مردوں سے زیادہ فوقیت اور عزت واحترام عطا کیا ہے۔ وہ ہستی جو عالمین کے لیے رحمت بن کر تشریف لائی( محمدﷺ) اس نے اس مظلوم طبقے کو یہ مژدہ جاںفزا سنایا:مجھے، دنیا کی چیزوں میں سے عورت اور خوشبو عزیزہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عورت سے بےزاری اور نفرت کوئی زہد وتقویٰ کی دلیل نہیں ہے، انسان خدا کا محبوب اس وقت ہوسکتاہے جب وہ اللہ کی تمام نعمتوں کی قدر کرے، جن سے اس نے اپنے بندوں کو نوازا ہے، اس کی نظامت اور جمال کا متمنی ہو اور عورتوں سے مناسب طریقے سے پیش آنے والا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ مرد اور عورت دونوں کے لیے نکاح کو لازم قرار دیا گیا ہے، اس سلسلے میں آپ ﷺکا ارشاد ہے:نکاح میری سنت ہے جس نے میری سنت سے روگردانی کی، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔چناںچہ ایک عورت بیوی کی حیثیت سے اپنے شوہر کے گھر کی ملکہ اور اس کے بچوں کی معلم ومربی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے :عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا ۔(سورۃالبقرہ)

معاشرے میں عزت معاشی حیثیت کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ جو جاہ وثروت کامالک ہے، لوگ اسے عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور جس کے پاس مال و دولت نہیں ہے، لوگ عموماً اس کے قریب سے گزرنا بھی گوارا نہیں کرتے، عزت کرنا تو دور کی بات ہے۔ دنیا کے بیش تر معاشروں نے عورت کو معاشی حیثیت سے بہت ہی کمزور رکھا، سوائے اسلام کے، پھر اس کی یہی معاشی کمزوری اس کی مظلومیت اور بیچارگی کا سبب بن گئی۔ مغربی تہذیب نے عورت کی اسی مظلومیت کا مداوا کرنا چاہا اور عورت کو گھر سے باہر نکال کر انہیں فیکٹریوں اور دوسری جگہوں پر کام پر لگادیا۔ ان حالات میں اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے، جس نے راہِ اعتدال اختیار کیا۔

عورت کا نان ونفقہ ہر حالت میں مرد کے ذمے ہے۔ اگر بیٹی ہے تو باپ کے ذمے۔ بہن ہے تو بھائی کے ذمے ، بیوی ہے تو شوہر پر اس کانان و نفقہ واجب کردیا گیا اور اگر ماں ہے تو اس کے اخراجات اس کے بیٹے کے ذمے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:آدمی اپنی استطاعت کے مطابق اور غریب آدمی اپنی توفیق کے مطابق معروف طریقے سے نفقہ دے۔(سورۃ البقرہ)

عورت کا حقِ مہر ادا کرنا مرد پر لازم قرار دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ:عورتوں کوان کا حقِ مہر خوشی سے ادا کرو، اگر وہ اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ حصہ تمہیں معاف کردیں تو اسے خوشی سے کھاوٴ۔(سورۃ النساء)

بعض معاشروں میں وراثت میں عورت کا کوئی حق تصور نہیں کیا جاتا، لیکن اس کے برعکس اسلام نے وراثت میں عورتوں کا باقاعدہ حصہ دلوایا۔اسی طرح عورت کو مہر سے اور وراثت سے جو کچھ مال ملے، وہ پوری طرح اس کی مالک ہے، کیوں کہ اس پر کسی بھی طرح کی معاشی ذمہ داری نہیں ہے۔

پھر وہ اپنے مال کو جہاں چاہے خرچ کرے، اس پر کسی کا اختیار نہیں، چاہے تو اپنے شوہر کو دے یا اپنی اولاد کو یا پھر کسی کو ہبہ کرے یا خدا کی راہ میں دے، یہ اس کی اپنی مرضی ہے اور اگر وہ از خود کماتی ہے تو اس کی مالک بھی وہی ہے، لیکن اس کا نفقہ اس کے شوہر پر واجب ہے، چاہے وہ کمائے یا نہ کمائے۔ اس طرح اسلام کا عطا کردہ معاشی حق عورت کو اتنا مضبوط بنادیتا ہے کہ عورت جتنا بھی شکر ادا کرے، کم ہے۔

شوہر کے انتخاب کے سلسلے میں اسلام نے عورت کو بڑی حد تک آزادی دی ہے۔ نکاح کے سلسلے میں لڑکیوں کی مرضی اور ان کی اجازت ہر حالت میں ضروری قرار دی گئی ۔ ارشاد نبوی ؐہے:شوہر دیدہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے، جب تک کہ اس سے مشورہ نہ لیاجائے اور کنواری عورت کا نکاح بھی اس کی اجازت حاصل کیے بغیر نہ کیا جائے۔اسلام نے عورت کو خلع کاحق دیا ہے کہ اگر ناپسندیدہ ظالم شوہر ہے تو بیوی نکاح کو فسخ کرسکتی ہے اور یہ حقوق اسے عدالت کے ذریعے دلائے جاتے ہیں۔

قرآن میں حکم دیا گیا: عورتوں سے حسن سلوک سے پیش آو۔ٴ (سورۃ النساء) چنانچہ شوہر کو بیوی سے حسن سلوک اور فیاضی سے برتاوٴ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے ۔نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے حق میں اچھے ہیں اور اپنے اہل وعیال سے لطف ومہربانی کاسلوک کرنے والے ہیں۔آپ ﷺنے ایک جگہ فرمایا:تم میں سے بہترین وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے لیے بہترین ثابت ہوں اور خود میں اپنے اہل وعیال کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق میں اچھا ہو اور اپنے اہل وعیال کے لیے نرم خو ہو۔نبی ﷺ کے فرمان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مردوں کو بیویوں کے حق میں سراپا محبت وشفقت ہونا چاہیے اور جائز امور میں ان کی حوصلہ افزائی اور دل جوئی کرنی چاہیے۔ کچھ لمحوں کے لیے دوسروں کے سامنے اچھا بن جانا کوئی مشکل کام نہیں حقیقتاً نیک اور اچھا وہ ہے جو اپنی بیوی سے محبت وشفقت رکھنے والا ہو۔

قرآن پاک کے علاوہ کئی احادیث رسولؐ میں بھی عورتوں کے حقوق، فرائض اور ان کی معاشرے میں اہمیت کا ذکر موجود ہے۔ خاتم النبین حضرت محمدﷺ نے ایک حدیث میں عورت کے وجود کو دنیا میں خوش بختی کا باعث قرار دیا۔ آپﷺ نے فرمایا ’’ تمہاری دنیا کی چیزوں میں سے خوشبو اور عورتیں محبوب بنائی گئی ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے‘‘(الحدیث)’’عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو‘‘(الحدیث) فرمایا ’’جس شخص نےتین لڑکیوں کی پرورش کی، پھر ان کو ادب سکھایا اور ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے‘‘۔ (سنن ابوداؤد)

اسلام نے عورت کوماں ، بیٹی اوربہن کے روپ میں عزت و عظمت عطا کی ۔نبی کریمﷺ کافرمان ہے :’’جنت مائوں کے قدموں تلے ہے۔‘‘(بخاری و مسلم)حضرت ابوہریرہ ؓبیان کرتے ہيں کہ نبی اکرم ﷺکے پاس ایک شخص آ کرکہنے لگا :اے اللہ کے رسول ﷺمیرے حسن سلوک کا سب سے زيادہ کون مستحق ہے ؟نبی اکرمﷺ نےفرمایا ، تیری ماں ۔اس نے کہا ،اس کے بعد پھر کون ؟آپﷺ نے فرمایا : تیری ماں۔اس نے کہا ،اس کے بعد پھر کون ؟نبی ﷺ نے فرمایا : تیری ماں۔اس نے کہا کہ اس کے بعد پھر کون ؟آپ ﷺنے فرمایا : پھر، تیرے والد ۔(صحیح بخاری)

حضرت ابوسعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا :جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ، یا پھر دوبیٹیاں یا دوبہنیں ہوں اوروہ ان کی اچھی تربیت کرے اوران کے معاملات میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے،تو وہ جنت میں جائے گا ۔( صحیح ابن حبان)

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جس نے دو لڑکیوں کی ان کے بالغ ہونے تک پرورش کی تو وہ اور میں قیامت کے روز اس طرح آئیں گے اور آپﷺ نے اپنی انگلیوں کو باہم ملایا۔

ان تعلیمات سے پتا چلتا ہے کہ اسلام نے عورت کو عزت و عظمت اوربلند مقام عطا فرما کر ان سے حسن سلوک کی تعلیم دی اور اسے ایک دینی و معاشرتی فریضہ قرار دیا ۔

تازہ ترین
تازہ ترین