مولانامحموداشرف عثمانی
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: (روزِ حشر )سات افراد وہ ہوں گے۔ جنہیں اللہ تعالیٰ کے (عرش کے) سایے میں جگہ ملے گی ،جب کہ(اس روز) اس کے سایے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہو گا۔
٭…انصاف کرنے والا حاکم۔٭…وہ نوجوان جو اپنے رب کی عبادت میں پروان چڑھا۔
٭… وہ شخص جس کا دل مسجد میں اٹکا ہوا ہے۔٭… وہ دو آدمی جنہوں نے اللہ کےلیے ایک دوسرے سے محبت کی، اسی محبت پر جمع ہوتے اور اسی پر ایک دوسرے سے جدا ہوتے تھے ۔
٭…وہ شخص جسے مرتبے والی خوب صورت عورت نے (اپنی طرف گناہ کی) دعوت دی تو اس نے کہا میں اللہ سے ڈرتا ہوں ۔
٭… وہ آدمی جس نے کوئی صدقہ کیا اور چھپا کر دیا، یہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی علم نہیں ہوا کہ دایاں ہاتھ کیا خرچ کرتا رہا ۔
٭…اور وہ آدمی جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا تو (اللہ کی محبت یا خشیت سے) آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ (صحیح بخاری، فتح الباری)
یہ مشہور حدیث ہے جس میں اُن سات خوش نصیب حضرات کا ذکر کیا گیا ہے جو قیامت کے دن میدان محشر میں اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت کے سایے میں ہوں گے۔
(ا)۔ امامِ عادل:۔ یعنی انصاف کرنے والا حکمران۔ (الف) یہ حکمران بڑا حکمران بھی ہو سکتا ہے۔ جسے اسلامی سلطنت کے تمام افراد کے مابین انصاف کی حکمرانی کےلیے بٹھایا گیا ہو، مگر نچلے درجے کے حکمراں بھی اسی حکم میں داخل ہیں، مثلاً سرکاری یا غیر سرکاری ادارے کا نگران اعلیٰ، صدر، وزیراعظم، اسپیکر، وزیراعلیٰ، چیئرمین، نگران اعلیٰ، بڑی اور چھوٹی عدالتوں کے جج، تعلیمی یا غیر تعلیمی اداروں کے سربراہان، مہتمم، ناظم اعلیٰ، پرنسپل، کسی بھی شعبے کا سربراہ، کسی بھی خاندان کا سربراہ، گھر کا سربراہ مرد، گھر کی خاتون سربراہ، کلاس کا امیر وغیرہ۔ یعنی ہر وہ شخص جس کے ماتحت ایک سے زائد افراد ہوں اور وہ ان کے درمیان انصاف سے کام لیتا ہو یا لیتی ہو۔ (فتح الباری ص147ج2)
(ب)۔ انصاف سے مراد مساوات نہیں ہے، بلکہ انصاف سے مراد یہ ہے کہ جس کا جو حق بنتا ہو، وہ اُسے پورا پورا دیا جائے اور دلوایا جائے۔ انصاف سے مساوات مراد لینا بڑی غلطی ہے جو مغربی دنیا سے آئی ہے۔ کسی بھی ادارے میں موجود افراد کی نہ صلاحیت برابر ہوتی ہے، نہ تنخواہ برابر ہوتی ہے۔ نہ عملاً یہ ممکن ہے، البتہ یہ ضروری ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ انصاف سے کام لیا جائے اور ان میں سے ہر ایک کا جو حق بنتا ہو، خواہ شریعت کے اعتبار سے،خواہ قانون کے اعتبار سے ،خواہ عرف کے اعتبار سے اورخواہ اخلاقی اعتبار سے،وہ حق اُسے پورا پورا دیا جائے اور دلوایا جائے۔ ایک گھر میں رہنے والے افراد میں کوئی بوڑھا ہوتا ہے، کوئی جوان، کوئی صحت مند ہوتا ہے، کوئی مریض، کوئی کالج میں پڑھ رہا ہوتا ہے۔
کوئی اسکول میں، کوئی دودھ پیتا بچہ ہوتا ہے، کوئی شادی شدہ عاقل بالغ اور بچوں کا باپ ہوتا ہے کوئی اپاہج معذور ہوتا ہے، کوئی کمانے اور محنت کرنے والا، ان سب میں مساوات کیسے ممکن ہے؟ ہاں ان سب کے ساتھ انصاف کرنا بہرحال ضروری اور لازم ہے۔
(2)۔ وہ نوجوان جو اپنے رب کی عبادت میں پروان چڑھا۔ فارسی زبان کی مثل مشہور ہے ’’درجوانی توبہ کردن شیوئہ پیغمبری است‘‘ یعنی جوانی میں توبہ کرنا پیغمبروں کا طریقہ ہے۔ بڑھاپے میں جبکہ گناہ کی نہ ہمت رہتی ہے ،نہ حوصلہ، اس وقت تو اکثر لوگ توبہ کر لیتے ہیں اور یہ بھی ان پر اللہ تعالیٰ کا کرم ہوتا ہے کہ کم از کم ان کا خاتمہ بالخیر ہو جاتا ہے…
لیکن…اصل درجہ اُن نوجوانوں کا ہے جو جوانی میں پاکیزہ زندگی گزارتے ہیں، حسن اخلاق کے ساتھ محنت مشقت کی زندگی گزارتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عبادت، اس کے ذکر و فکر میں کمی نہیں کرتے اور قبر کے کنارے تک ایمان اور اعمال صالحہ کو مضبوطی سے تھامے رکھتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں، جو میدان محشر میں اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت کے سایے میں ہوں گے۔
(3)۔ وہ نمازی جس کا دل مساجد میں اٹکا ہوا ہو: یعنی اس کی زندگی میں نماز کو مرکزی اہمیت حاصل ہو۔ (کیونکہ نماز دین کا ستون ہے) اس کے پورے دن کی مصروفیات پانچوں نمازوں کے گرد گھومتی ہوں۔ وہ افسر ہو یا ملازم، تاجر ہو یا کاشت کار، دکان دار ہو یا زمیں دار، ٹھیکے دار ہو یا دیہاڑی دار، گھر میں رہنے والی خاتون ہو جو باورچی خانہ ، گھر اور بچوں کی دیکھ بھال میں مصروف رہتی ہو یا اسکول کالج میں تعلیم پانے والا نوجوان۔
اگر وہ اپنے دن بھر کے کاموں اور روزمرہ کے اوقات کو اس طرح ترتیب دیتا/ اور ترتیب دیتی ہو کہ ہر نماز اپنے اپنے وقت پر اپنی اپنی جگہ بآسانی خشوع و خضوع کے ساتھ ادا ہو جاتی ہو تو ایسا شخص گو یا سارے دن نماز ہی میں مشغول ہے ،کیونکہ اس کے دن کی ساری مصروفیات نماز کے گرد گھوم رہی ہوتی ہیں۔ ایسا شخص گھر، دفتر، دکان، کاروبار، اسکول، کالج، بازار میں رہتے ہوئے بھی نماز کی تیاری ہی میں مصروف سمجھا جائے گا، کیونکہ اس کا دل نماز میں اٹکا ہوا ہے۔
صحت مند مردوں کو مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم ہے، اس لئے جو شخص فجر کی نماز پڑھ کر مسجد سے نکلتا ہے اور اسے معلوم ہے کہ میں ظہر کی نماز فلاں مسجد، عصرکی نماز فلاں مسجد اور مغرب و عشاء کی نماز فلاں مسجد میں پڑھوں گا ،وہ دنیا کا کوئی بھی جائز کام کر رہا ہو،ا سے مسجد کے ساتھ جڑنے، مسجد کے ساتھ دل معلّق ہونے کی فضیلت حاصل ہے، اس لئے وہ میدانِ محشر میں اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت کے سایے میں مطمئن ہو گا۔
(4)۔ حُب فی اللہ رکھنے والے دو آدمی جو صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ جمع ہوتے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر علیحدہ ہو جاتے تھے۔
دو آدمی جب ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں تو اس ملاقات کے مختلف اسباب اور مختلف مقاصد ہوتے ہیں، نیتیں مختلف ہو سکتی ہیں۔ لیکن اگر وہ (رشتے دار ہوں یا غیر رشتے دار) اللہ تعالیٰ کی خاطر ایک دوسرے سے ملاقات کریں، کوئی دنیوی غرض اصل مقصد نہ ہو،تو وہ مقرّبان بارگاہ حذاوندی میں شامل ہیں ،کیونکہ ایمان کے بعد حُب فی اللہ اور بُغض فی اللہ اعمال قلبیہ میں افضل ترین عمل ہے۔
عجیب بات ہے کہ حدیث شریف میں صرف جمع ہونے کو ذکر نہیں کیا گیا ،بلکہ جدا ہونے کو بھی ذکر کیا ہے کہ دونوں اللہ کےلیے جمع ہوتے اور اللہ ہی کے لئے علیحدہ ہو جاتے تھے۔ معلوم ہوا کہ بعض اوقات علیحدہ ہو جانا بھی صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کےلیے ہوتا ہے۔
تو وہ بھی باعث اجر و ثواب ہے۔ خاص طور پر جب جمع ہونے یا اجتماع کے طویل ہونے سے جانبین کو الجھن، تکلیف یا پریشانی کا خیال ہو تو اس وقت جمع ہونا یا اجتماع کو جاری رکھنا ثواب نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ایک دوسرے سے علیحدہ ہو جانا باعث اجر و ثواب ہے۔
(5)۔ وہ شخص جسے مرتبے والی خوب صورت عورت نے (گناہ کی) دعوت دی تو اس نے کہا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ عورت خوب صورت ہو، مرتبہ والی ہو اور دعوت بھی وہی دے رہی ہو ،تو مرد کےلیے انکار کرنا بہت مشکل ہے ،مگر اس شخص نے اللہ تعالیٰ کی محبت و خشیت میںیہ دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا میں اللہ سے ڈرتا ہوں، میں یہ حرام دعوت قبول نہیں کر سکتا تو وہ مقرّبان بارگاہ خداوندی میں سے ہو گیا۔
یہی حکم اس خاتون کا ہے جسے کسی حسب نسب مرتبے والے خوب رُو مرد نے گناہ کی دعوت دی، مگر خاتون نے اللہ کے خوف سے یہ حرام دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ (فتح الباری ص147ج2) وہ بھی عرش کے سایے میں ہو گا یا ہوگی۔
(6)۔ وہ آدمی جس نے صدقہ دیا اور چھپا کر دیا یہاں تک کہ اس کے بائیں ہاتھ کو پتا نہیں چلا کہ اس کا دایاں ہاتھ کیاخرچ کر رہا ہے۔فرض نماز، فرض زکوٰۃ، فرض روزہ ظاہر کرنے میں کوئی حرج نہیں، بلکہ بہتر ہے ،اسی لئے فرض نماز مسجد میں باجماعت ادا کی جاتی ہے۔
فرض زکوٰۃ اور فرض روزے کا بھی قریب کے لوگوں کو علم ہوتا ہے۔ لہٰذا فرائض کا اظہار ناپسندیدہ نہیں ہے، بلکہ فرائض کی ادائیگی مسلمان کے اسلام کی علامت ہے۔ البتہ نفلی نماز، نفلی روزہ اور خاص طور پر نفلی صدقہ لوگوں کے سامنے خود ظاہر کرنا ناپسندیدہ عمل ہے۔
نفلی صدقہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو دور کرتا ، آدمی کو جہنم سے بچاتا اور خاتمہ بالخیر کا ذریعہ ہے۔ اس لئے حسب استطاعت خاموشی کے ساتھ چپکے چپکے نفلی صدقات کا اہتمام کرنا مؤمن صادق کے ایمان کی علامت ہے۔ واضح رہے کہ نفلی صدقے کا ثواب ضائع کرنے والی دو چیزیں ہیں، ایک دکھاوا، اور دوسرا صدقے کا احسان جتانا۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے: اے ایمان والو!اپنے صدقات احسان جتا کر اور تکلیف پہنچا کر ضائع مت کرو، جیسے وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کو دکھانے کےلیے خرچ کرتا ہے۔(سورۃ البقرہ)لہٰذا نفلی صدقہ دیتے وقت اپنے آپ کو ان دو خرابیوں سے بچانا نہایت ضروری ہے، ایک یہ کہ صدقے کا اظہار اور دکھاوا نہ ہو، دوسرے صدقہ دے کر اسے جتایا نہ جائے، بلکہ ’’نیکی کر دریا میں ڈال‘‘ کے محاورے کے مطابق صدقہ دے کر بالکل بھول جائے، کیوںکہ آپ کا پروردگار اللہ تعالیٰ جس کی رضا کی خاطر آپ نے صدقہ دیا ہے ،وہ نہ بھولتا ہے، نہ فراموش کرتا ہے۔ لہٰذا آپ کو اپنا صدقہ یاد رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اسی طرح جس وقت نفلی صدقہ دیا جا رہا ہو تو کوشش کرنی چاہئے کہ جب آپ دائیں ہاتھ سے صدقہ کر رہے ہوں تو قریب کے لوگوں کو تو درکنار آپ کےبائیں ہاتھ کو بھی اس کا علم نہ ہو، تاکہ یہ صدقہ اخلاص پر مبنی ہو، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہو اور دنیا و آخرت میں اس کے درست ثمرات آپ کو نصیب ہوں۔
(7)۔ وہ آدمی جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا تو اس کی آنکھوںسے خوف خدا کے باعث آنسو بہنے لگے۔ کسی بھی مسلمان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت و خشیت عظیم نعمت ہے ،جو اس کے کمال ایمان کی علامت ہے۔ مجمع میں اللہ تعالیٰ کے ذکر پر آنکھوں میں آنسوئوں کا آجانا بھی رحمت ہے، لیکن اس میں ریا یعنی دکھاوے کا قوی امکان ہے۔
جبکہ تنہائی میں اگر کوئی بندۂ مومن اللہ تعالیٰ کو یاد کرے اور اللہ تعالیٰ کی محبت/ خشیت سے اس کی آنکھیں آنسوئوں سے بھیک جائیں ،تویہ ایسی نعمت ہے ،جو آدمی کو عرش کے سایے میں پہنچا دے گی ،کیوںکہ تنہائی میں کوئی دیکھنے والا نہیں ہے۔
صرف بندہ ہے اور اس کا پروردگار، ایسی تنہائی میں محبت و خشیت کی کیفیت قلب و جوارح پر طاری ہونا ،پھر اس محبت و خشیت کا اثر دل سے نکل کر آنکھوں تک آجانا ،مؤمن کی رگ رگ میں اللہ تعالیٰ کی محبت سرایت کر جانے کی علامت ہے۔
سچی محبت تو وہی ہے جو صرف محبّ اور محبوب کے درمیان ہو ،نہ کہ منبر و محراب اور سڑکوں بازاروں میں اس کا اظہار کیا جا رہا ہو۔