• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز شریف اور اپنے بیانیے کو ساتھ لیکر چلنا شہباز کیلئے بڑا چیلنج

نواز شریف اور اپنے بیانیے کو ساتھ لیکر چلنا شہباز کیلئے بڑا چیلنج

اسلام آباد (تجزیہ:طارق بٹ) شہباز شریف نے اب جبکہ مسلم لیگ (ن) کی صدارت سنبھال لی ہے۔ کئی ایک سوالات جو ابھر کر سامنے آئے ہیں انہیں پانچ چیلنجز در پیش ہیں۔ ان میں انتہائی اہم سوال یہ ہے آیا وہ ان زبردست چیلنجوں سے نمٹ پائیں گے، جن کا اس وقت پارٹی کو سامنا ہے۔ ذاتی جذبات سے ہٹ کر ن لیگ کے صدر کی حیثیت سے شہباز شریف جو عام طورپر ’’فاختہ فطرت‘‘ تصور کئے جاتے ہیں، انہیں کئی آزما ئشو ں کا سامنا ہے۔ انہیں درپیش پیچیدہ رکاوٹوں پر قابو پانے کے لیے بڑی مہارت اور ہنر مندی سے کام لینا ہوگا۔ اشتعال میں نہ آنے کی صلاحیت کے جو صورتحال ہے وہ یہ کہ شہباز شریف کے لیے آئندہ عام انتخابات میں ہموار میدان کا حصول ایک بہت بڑا کام ہوگا۔ اس کی بڑی وجہ نواز شریف کے جارحانہ انداز کے مقابلے میں ان کا نرم رویہ ہوگا۔ان کا کام اس وقت زیادہ مشکل ہوجاتا ہے جب آئندہ عام انتخابات کے تناظر میں شہباز شریف کو یکے بعد دیگرے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کہانی میں مسلم لیگ (ن) سے منحرفین کے لئے کوششیں تیز کردی جائیں گی، یہ انتخابات کو انجینئرڈ کرنے کا ایک طریقہ ہوگا کہ جیتنے کی صلاحیت رکھنے والے ممکنہ انتخابی امیدواروں کو حکمراں جماعت سے منحرف کردیا جائے۔ ان کی دیگر دو جماعتوں میں شمولیت کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ جنہوں نے حالیہ سینیٹ انتخابات میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔ لہٰذا شہباز شریف کا اولین کام ایسے ’’وار‘‘ کو ناکام بنانا ہے۔ اس وقت ن لیگ کے پاس جتنے کی صلاحیت رکھنے والے ممکنہ امیدوار دیگر جماعتوں کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔ دوسرا بڑا کام سول ملٹری تعلقات کو معمول پر لانا ہوگا۔ یہ شہباز شریف کے لیے بڑا مشکل پروجیکٹ ہوگا۔ انہیں بڑی حد تک اسٹیبلشمنٹ نواز تصور کیا جاتا ہے وہ زیادہ تر ’’آگ بجھانے‘‘ والے کا کام کرتے رہے ہیں۔ نواز شریف کے دور حکمرانی میں سول ، ملٹری تعلقات یا ہم آہنگی کیسی رہی، اس پر کسی تبصرے یا تجزیئے کی ضرورت نہیں، یہ سب ہی جانتے ہیں۔ ن لیگ میں اب یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وزیر اعظم بننے کی صورت شہباز شریف کی قیادت میں یہ تعلقات بہتر ہوں گے۔ وہ عدم تصادم کی پالیسی پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ متعلقہ حلقوں کے لیے قابل قبول ہیں۔ تیسرا سوال یہ ہے آیا وہ پارٹی سربراہ کی حیثیت سے مرکزی حیثیت اختیار کرسکتے ہیں؟ یہ جزوی طورپر درست ہے کہ انہیں پارٹی پر مکمل کنٹرول حاصل ہے۔

تازہ ترین