• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید ؒ بحیثیت عالم دین و سیاسی قائد تحریر: عمران احمد سلفی

شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیرؓ جماعت اہل حدیث کے مایہ ناز خطیب ، عالم دین اور بے باک سیاسی رہنما تھے۔ آپ نے سیالکوٹ کے مردم خیز خطہ میں ایک کاروباری گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ان کے والد شیخ ظہور الٰہی کی خواہش تھی کہ اپنے فرزند ار جمند کو دین کا سپاہی بنائیں۔ چونکہ شیخ ظہور الٰہی ضیغم اسلام مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی ؒ کے صحبت یافتہ اور دینی ذوق رکھنے والے بزرگ تھے۔ لہٰذا انہوں نے خاندانی روایات کے برعکس علامہ احسان الٰہی ظہیر کو دینی مدرسہ میں داخل کرایا جہاں آپ نے محض نو برس کی عمر میں قرآن مجید حفظ کر لیا۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ کو بلا کا حافظہ عطا فرمایا تھا۔ چنانچہ حفظ قرآن کے بعد آپ کو گوجرانوالہ کے عظیم علمی ادارہ میں داخل کرا دیا گیا جہاں آپ نے مفکر اسلام مولانا محمد اسماعیل سلفی ؒ، مولانا احمد اﷲ مدراسی ؒ اور دیگر جید علماء کرام سے کسب فیض کیا اور سند فراغت حاصل کی۔ بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے سلسلے میں آپ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں داخل ہو گئے۔ یہ دور جامعہ کا ابتدائی دور تھا اور اس کا تعلیمی معیار انتہائی درجہ کا حامل تھا۔ یہاں طلبہ کی تعلیم و تربیت اور رحجانات و میلانات پر خصوصی توجہ دی جاتی تھی۔ جامعہ میں داخلہ اور پھر کامیابی سے فراغت بجائے خود ایک کٹھن مرحلہ گردانا جا تا تھا۔ مدینہ منور ہ میں آپ کو وقت کے عظیم اساتذہ سے استفادہ کا موقع فراہم ہوا۔ عالم اسلام کی نا بغہ عصر شخصیات مولانا حافظ محمد گوندلوی ؒ اور مفتی اعظم سعودی عرب فضیلۃ الشیخ عبد العزیز بن عبد اﷲ بن باز ؒ جو اس وقت رئیس الجامعہ تھے سے آپ کو بھر پور شفقت و محبت اور علم کے گوہر بے بہا حاصل ہوئے۔ بعد ازاں آپ کو حافظ محمد گوندلوی ؒ سے شرف دامادی بھی حاصل ہوا۔ آپ کی اہلیہ محترمہ جو آپ کی شہادت کے چند سالوں بعد رحلت فرما گئیں جو نہ صرف بہت بڑے عالم دین کی صاحبزادی اور عالم اسلام کی عظیم شخصیت کی شریک حیات تھیں بلکہ خود عابدہ زاہدہ عالمہ اور انتہائی نیک پارسا خاتون تھیں۔ علامہ احسان الٰہی ظہیرؒ گرچہ خود بہت بڑے کاروباری آدمی تھے اور گاڑیوں کے شورومز اور دیگر کاروبار کے علاوہ کروڑوں کے مالک تھے۔ جبکہ آپ کی کتابوں کی رائلٹی ہی لاکھوں کروڑوں میں تھی۔ تاہم اپنے آپ کو مولوی کہلانے میں فخر محسوس کر تے اور برملا فرماتے کہ میں محمد عربی ﷺ کا ادنیٰ غلام ہوں اور جب تک اہل حدیث کا ایک بچہ بھی زندہ ہے حرمت مصطفی ﷺ پر آنچ نہیں آنے دی جائے گی ۔یہی وجہ تھی کہ تحفظ ختم نبوت کے اجتماعات میں خصوصی طور پر شرکت فرماتے۔علامہ احسان الٰہی ظہیر کو زخمی حالت میں پہلے میو اسپتال لاہور اور بعد ازاں خادم الحرمین الشریفین شاہ فہد بن عبد العزیز ؒکی خواہش پر ملٹری ہسپتال ریاض منتقل کر دیا گیا ۔تاہم اس دوران بم کا زہر سرایت کر چکا تھا، جس سے آپ جانبر نہ ہو سکے ۔لہٰذا30 مارچ1987 کو ریاض میں اپنے رب کی بارگاہ میں شہادت کی منزل عبور کر تے ہوئے حاضر ہو گئے۔
تازہ ترین