کراچی (اسٹاف رپورٹر)چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے کراچی میں گندگی اور صفائی کی ناقص صورتحال پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایک ہفتے میں شہر کی صفائی کا حکم دیدیا۔انہوں نے ریمارکس دیئے کہ گندگی ہٹانا اور صفائی کس کا کام ہے؟ ہم تنازع میں نہیں پڑینگے، سیاست سے بالا ہو کر سب سوچیں، جسکی جو ذمے داری ہے اسے پورا کرنا ہوگی،گندگی ختم ہوگی تو بیماریاں خودبخود ختم ہو جائیں گی، میری تعریفی تشہیری مہم بند کریں،میں اپنا فرض نبھا رہاہوں، واٹر کمیشن کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے، کراچی اتنا گند ہے، حکومت سندھ اور شہری حکومت اپنے وسائل بروئے کار لاتے ہوئے شہر میں صفائی ستھرائی کے انتظامات یقینی بنائیں، کراچی میں اتنا گند ہے، میں ساری رات باتھ آئی لینڈ میں مچھر مارتا رہا، جس مچھر کو مارتا اس میں خون بھرا ہوتا تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ مچھر امیر، غریب نہیں دیکھتا، مچھر تو کسی کو بھی متاثر کریگا۔ عدالت نے حکومت سندھ کو واٹر کمیشن کی رپورٹ پر اعتراضات جمع کرانے کی ہدایت کی اور مختلف منصوبوں کی پیشگی رقوم لینے والی کمپنیوں کے سربراہان کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے 31 مارچ کو طلب کرلیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق ہفتہ کو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی لارجر بینچ کے روبرو صاف پانی کی فراہمی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔اس موقع پر چیف سیکرٹری سندھ،ایڈووکیٹ جنرل سندھ، درخواست گزار شہاب اوستو ودیگر حکام پیش ہوئے، شہاب اوستو نے عدالت کو بتایاکہ واٹرکمیشن کی کارروائی کے نتیجے میں بہت بہتری آئی ہےسندھ بھر میں دورے کیے گئے ہیں صورتحال بہترہورہی ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ واٹر کمیشن کی رپورٹ آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔ وفاق واٹرکمیشن کی ضمانت پر فنڈز دے رہا ہے۔ آپ کے افسران کی عزت کرتا ہوں مگر سندھ میں کیا ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری سے مکالمہ میں کہا کہ ہمارے سامنے بڑی بھیانک تصویر آرہی ہے۔ چیف سیکرٹری نے کہا کہ کچھ فوری اور کچھ طویل مدتی منصوبےہیں۔ 24 گھنٹے تین تین شفٹوں پر کام جاری ہے۔ صورتحال بہت بہتر ہورہی ہے۔ جو لوگ پیسے لے کر کام نہیں کر رہے تھے۔ انہوں نے عدالت عظمیٰ کے احکامات سن کراب پیسے واپس کرنا شروع کردیئے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ان کے نام بتائیں ہم انہیں عدالت میں طلب کرینگے۔ چیف سیکرٹری نے شکریہ اداکرتےہوئے کہا کہ سپریم کورٹ اور واٹر کمیشن کی کارروائی پر بہتری آرہی ہےاور اعتراف کیا کچھ ٹھیکیداروں کو منصوبے شروع ہونے سے قبل ہی رقوم جاری کردی گئیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جن ٹھیکیداروں نے رقوم رکھی اور پیسہ کھایا سب کو بلا لیں اگلے ہفتے یا اتوار کو یہ کیس سنیں گے،کروڑوں روپوں کو اس دوران استعمال کرنےوالوں نے منافع بھی تو حاصل کیا ہوگا اسکا حساب کون دیگا۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے یہ سب وسیم اختر کا کام ہے جو ہم کر رہے ہیں اور استفسارکیاکہ کیا یہاں وسیم اختر موجود ہیں؟جس پر وسیم اختر اپنی نشست سے کھڑے ہوگئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ گندگی صاف کرنا کس کا کام ہے۔ وسیم اختر نے کہا کہ سارے اختیارات سندھ حکومت کے پاس ہیں۔ عدالت فیصلہ دے چکی ہے لیکن سندھ حکومت عمل نہیں کر رہی۔