• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خواتین کے عالمی دن کی خاصیت عظمیٰ صدیقی کی جدائی ٹھہری حرف بہ حرف…رخسانہ رخشی

درپیش مجھے ایسے سمندر کا سفر ہے

جس میں مجھے لایا ہے یہ حالات کا دریا

غالباً یہ لندن میں ایک ادبی محفل کا سماں تھا، ٹھنڈے اور بھیگے موسم سے زیادہ ادبی فضا سے حاضرین سیراب ہو رہے تھے۔ کہکشاں، ماہتاب، چاندنی، دھوپ، موسم، دھنک، دریا، سمندر، ملن، جدائی اور پھولوں کا تذکرہ تمام شعراء ہی اپنے اپنے کلام کا موضوع بنا رہے تھے مگر وہیں کہیں ایک مناسب شکل و صورت کی سیدھی سادہ سی شخصیت والی خاتون شاعرہ آفات، حالات، تصویر شکستہ اور شعلوں میں لپٹے حالات کو موضوع سخن بنائے ہوئے تھی۔ یوں اس کی شاعری سبھی کو اپنے طرف متوجہ کرنے لگی اور پھر داد ملنا شروع ہوئی اور ساتھ ہی اس کی کرید بھی شروع ہوگئی کہ اس شہر و ملک میں نئی ہیں۔ یورپ کے ملک جرمنی سے نقل مکانی کرکے انگلینڈ کے شہر لندن میں آبسی ہیں، انہیں سننے کے بعد ملنے کی تمنا بڑھ گئی پھر انہیں مشاعروں میں اچھی واقفیت کے بعد دوستی بھی ہوگئی۔ ملاقات گاہے بگاہے رہنے لگی مگر کھل کر بات صرف ٹیلی فون پر ہوتی وہ بھی تقریباً شام یا رات کے کسی پہر میں جس سے اندازہ ہوتا کہ اس کی زندگی آسان نہیں رہی کبھی۔ یعنی کہ وہ بقول خود اور بقلم خود اس کا اظہار کرتی رہی ہے کہ:

بیتے ہوئے لمحوں کی ہوں تصویر شکستہ

آئینہ شوریدہ میری ذات کا دریا

اس شخص کی رنج زدہ زندگی کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے جس کی مسکراہٹیں، حالات کی تعمیر اپنے زور بازو سے کرنا اور ماحول کی گردش کو جو ساتھ ساتھ لے کر چلے، اندرونی و بیرونی پریشانیاں انسانی زندگی میں متحرک ہی رہتی ہیں۔ پھر ایک عورت کی زندگی جب اطمینان و سکون کے معنی کھو دے، تلخیٔ حالات و زمانے کے غمزلے مل کر اس کی زندگی کو اجیرن کردے تو پھر وہ تاریک اور پرخار راستوں کا سفر تنہا ہی طے کرتی ہے۔ بچوں کی پرورش کا بوجھ بھی اسی کے اندھوں پر آجاتا ہے پھر اس میں اعلیٰ تربیت اچھا ماحول انہیں دینا، ان کے مستقبل اور کیریئر کی فکر کرنا یہ سب لوازمات ایک ماں ہی اولاد کے لئے کرتی ہے۔ عورت کی مجبوریاں تاحال جوں کی توں ہے بھلے ہم حقوق نسواں کی لاکھوں لڑائیاں لڑ لیں، عالمی سطح پر خواتین کے دن منا لیں، اس کی زندگی، تعلیم حاصل کرنا، شادی کرنا، رفیق حیات کے حق رفاقت کو ادا کرنا، ان سے منسلک لوگوں کی خوشیوں کا خیال کرنا، یہ اگر سب ذمہ داری ایک کمزور عورت کے کندھوں پر آجائے تو وہ مضبوط ہوجاتی ہے پھر تو اس پر بھلے پہاڑ جیسی ذمہ داری و مشکلات ڈال دو، وہ خندہ پیشانی سے سہہ لیتی ہے کہ انہیں کٹھنائیوں میں سے سے راستے نکالنا ہوتے ہیں، فرائض ادا کرنا ہوتے ہیں۔ عورت تو مجبوریوں میں بندھی ایک کٹھ پتلی ہوتی ہے جو عالم فاضل بھی ہو تو کسی مجبوری سے نکل نہیں پاتی وہ ظرف کے اس مقام پر ہوتی ہے جہاں سب سہ جانا اور پی جانا ہی اس کیلئے اہم ہوتا ہے حسرت موہانی کے شعر کی مانند زندگی گزارتی ہے:

دیکھ اے نگہ جاناں یہ نقش محبت ہیں

بنتے ہیں بمشکل یہ مٹتے ہیں بہ آسانی

یہ جس کی کہانی میں ٹوٹے اور دکھی دل سے بن رہی ہوں اسے تمام اخبار و رسائل والے بخوبی جانتے ہیں کیونکہ اس کی تحریر زیب و زینت بنتی رہی ہے ہر پرچے کی جہاں چاہے چلے جائیں اور اس جگہ کا کوئی بھی کسی بھی قسم کا پرچہ اٹھا لیں اس کے نام کے ساتھ اس کی تحریر جگ مگ کرتی نظر آتی۔ اس نے لکھا اور جم کر لکھا اس نے خواتین کے موضوعات پر بھی لکھا۔ آج میرے سامنے اس کی کوئی کتاب نہیں، نہ ہی میں کہانیاں جمع کررہی ہوں، بس… بس آنسوؤں میں اس کی کہانی ذاتی و سماجی ذہن میں لانے کی کوشش کررہی ہوں کہ اس کا مقام ادب میں بھلے کیا تھا مگر میری نظر میں وہ اعلیٰ مقام رکھتی تھی۔ اس کی مجبوری و بیماری نے بھلے ہی دوستی میں اس کا حلقہ محدود رکھا مگر میں واقعی اس کی قدردان رہی کہ مجھے دکھی لوگوں سے دوستی عزیز رہتی ہے۔ صحت اور حالات کی کشمکش انسان کے کردار کو عظیم بنا دیتی ہے اور ہمیں اس عظیم کردار کا ہمیشہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اللہ جانے کس حال میں ہے پھر دعا نکلتی ہے کہ اللہ اپنے حفظ و امان میں رکھے … مگر … مگر بہت رویئے ! ان غنچوں پہ جون بن کھلے مرجھا جاتے ہیں اور کچھ عہد بہاراں میں ہی ہم سب کو داغ جدائی دے جاتے ہیں۔ ان کے جانے کا غم اشکوں سے دامن بھر دیتا ہے، دل غم سے چور ہے، رنج و غم سے نکلیں تو سبھی کو ان کی باتیں یاد دلائیں مگر فی الحال آہوں، اشکوں کی جو سوغات ہمیں وہ دے گئی اسی کے تحت ہم بتا رہے ہیں کہ عظمیٰ صدیقی چلی گئی۔ اپنی پیاری نوعمر بیٹی حریم احمد کو اور ایک ہی بھائی تھے اس کے دنیا میں انہیں چھوڑ کر چلی گئی۔ ویسے بھی والدین تو برسوں پہلے بچھڑ گئے تھے اس کے اور مرنے سے پہلے عظمیٰ نے اپنی ایک عزیز دوست کو ان کی قبر پر فاتحہ کے لئے بھیجا تھا اسے نظر آگیا تھا کہ اس کا بھی وقت جانے کا ہے اسی لئے کبھی اس نے کہا تھا کہ ’’رخشی تم بزرگوں کے لئے تو اپنی تنظیم انجمن تحریم اردو کے تحت کافی نشستیں رکھتی ہو یہ بزرگ تو خوب جی لئے اور ابھی تک ان کی پذیرائی ہو رہی ہے ہمارے لئے بھی اہتمام کرو ہماری زندگی معلوم نہیں کتنی ہے، ہم اتنا جی پائیں گے یا نہیں‘‘۔ اور اس کی مزاح میں کہی گئی بات سچ ثابت ہوئی اور عظمیٰ عہد بہاراں میں کوئی چھوٹی بڑی خوشی دیکھے بنا ہی رخصت ہوگئی اور دن بھی کون سا تھا بھلا جمہ کا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جمعہ کے دن انتقال کرنے والوں کو اللہ قبر کے فتنے سے محفوط فرما دیتے ہیں۔ جب بھی کسی خاتون کو سرطان کا مرض لاحق ہوتا ہے تو اس بیماری کا رخ اس کے غموں کے دہانے پر موڑ دیا جاتا ہے۔ یہ بات کافی حد تک درست بھی ہے وہ خود پر گزری ببتا کافی دوستوں کو بتا بھی چکی تھی۔ اسے اندرونی و بیرونی نظریاتی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا جسے اس نے دل آزاری سمجھا۔ خیر ان نظریاتی آہ زاری سے ہر ادیب کو گزرنا پڑتا ہے، آپ کی تحریر کا ہر لفظ اب ہمارے لئے اہم ہوگا۔ معافی تلافی بھی نہ ہوسکی ان لوگوں سے جو تنقید کے ٹھیکیدار بن بیٹھتے ہیں اور جن میں انسانیت صرف اپنے لئے ہے۔ خواتین کے عالمی دن کا انتخاب بھی خوب تھا۔ عظمیٰ جانے کا اب تمہاری یاد منائیں گے ہم اور تمہاری معصوم بیٹی کی خیر خبر بھی رکھیں گے۔ اللہ آپ کو جنت نصیب کرے تم نے کہا تھا:

عظمیٰ اب کس کو پکاروں میں اماں کی خاطر

آسماں دور ہے دھرتی چھپا لے مجھ کو

تازہ ترین