• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے جمعہ کے روز لنڈی کوتل میں قبائلی جرگے کے عمائدین سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فاٹا اصلاحات میں قبائلی عوام کی خواہشات کو مدنظر رکھا جائے گا۔ 10سال کے اندر قبائلی علاقوں میں ایک ہزار ارب روپے خرچ ہوں گے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف کو پشاور کور ہیڈکوارٹرز میں فاٹا اور خیبر پختونخوا میں سیکورٹی کی صورتحال اور آپریشن ردا لفساد پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ قبائل یا وفاق کے زیر انتظام علاقہ جات فاٹا کہلاتے ہیں اور چاروں صوبوں سے علیحدہ حیثیت رکھتے ہیں۔ 27ہزار 220مربع کلومیٹر پر محیط یہ علاقہ صوبہ خیبرپختونخوا سے منسلک ہے اور مغرب کی سرحد ڈیورنڈ لائن انہیں افغانستان سے جدا کرتی ہے۔ فاٹا میں سات ایجنسیز ، خیبر، کرم، باجوڑ، مہمند، اورکزئی، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان جبکہ پی ایف آرز شامل ہیں۔ 1848میں انگریز نے یہاں فرنٹیئرکرائم ریگولیشنز جو کچھ ضابطوں کا مجموعہ ہے نافذ کیا تھا۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 247کے مطابق فاٹا اور شمالی علاقہ جات کسی بھی صوبائی حکومت، وفاقی حکومت اور اعلیٰ عدلیہ کے اختیار سے باہر ہیں۔ یہ علاقے براہ راست صدارتی احکامات کے پابند ہیں۔ ان حالات میں جبکہ یہاں ریاستی قوانین کا اطلاق ہی نہ ہوتا تھا، نہ یہ کسی صوبے سے منسلک تھے اور قبائلی ملکوں کے ذریعے یہاں کا نظام چلایا جارہا تھا تو یہاںترقی کیونکر ممکن تھی۔ موجودہ حکومت نے فاٹا اصلاحات کے تحت 2017میں کام شروع کیا، سرتاج عزیز کی سربراہی میں کمیٹی بھی بنی جس نے ایک منصوبہ بھی پیش کیا لیکن اس پر عملدرآمد نہ ہوسکا حالانکہ اپوزیشن کا موقف تھا کہ اس کام میں مزید تاخیر پاک فوج کی بےمثال قربانیوں کی افادیت کھودینے کے مترادف ہوگی۔ امید ہے کہ آرمی چیف کے بیان کے مطابق قبائلی عوام کی خواہشات کے عین مطابق فاٹا اصلاحات کا عمل جلد شروع ہوگا اور فاٹا کے عوام بھی قومی دھارے میں شامل ہو کر ملک کی ترقی و خوشحالی کا سبب بھی بنیں گے اور ان کی محرومیوں کا بھی خاتمہ ہوگا۔

تازہ ترین