• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چین نے شی جنگ پنگ کو تا عمر حکمرانی کی اجازت دے دی

بجینگ: ٹام پینکاک

چین نے ملک کے صدر کے لئے دو مدت تک کی حد ختم کرنے کیلئے اپنے آئین میں ترمیم کی ہے،جس نے شی جنگ پنگ کو تاحیات سربراہی اور ایک شخص کی حکمرانی کی جانب اقدام کو نمایاں کیا ہے۔

چین کی ربر اسٹمپ پارلیمان نیشنل پیپلز کانگریس(این پی سی) کے ارکان نے بھرپور طریقے سے آئینی تبدیلی کو منظور کیا۔این پی سی نے بتایا کہ دو ہزار نو سو چوسٹھ میں سے دو ہزار نو سو اٹھاون ووٹ کاسٹ ہوئے جن میں سے 99.8 حق میں جبکہ دو ووٹ مخالفت میں ڈالے گئے،تین غیر حاضر اور ایک ووٹ غلط کاسٹ ہوا۔

یہ رائے شماری صدر شی جنگ پنگ کو 2023 سے آگے دو مدت کی تکمیل کے بعد بھی صدر برقرار رکھتی ہے۔ اس سے صدارتی کردار سامنےآیا ہے، حکمران کمیونسٹ جماعت کے قائد اور فوج کے پارٹی کمیشن انچارج کے طور پر جن کی کوئی حد مقرر نہیں ان کے مزید اہم عہدوں کے مطابق جس میں غیر ملکی سربراہوں کے ساتھ ملاقاتیں شامل ہیں۔

یہ رائے شماری صدر شی جنگ پنگ کو 2023 سے آگے دو مدت کی تکمیل کے بعد بھی صدر برقرار رکھتی ہے۔ اس سے صدارتی کردار سامنےآیا ہے، حکمران کمیونسٹ جماعت کے قائد اور فوج کے پارٹی کمیشن انچارج کے طور پر جن کی کوئی حد مقرر نہیں ان کے مزید اہم عہدوں کے مطابق جس میں غیر ملکی سربراہوں کے ساتھ ملاقاتیں شامل ہیں۔

2012 میں پارٹی کے سربراہ بننے کے بعد سے شی جنگ پنگ کی توجہ طاقت پر مرکوز ہونے کے بعد سے آئینی نظر ثانی کی بڑے پیمانے پر توقع کی جارہی تھی۔لیکن اسے لبرل دانشوروں اور چین کے متوسط طبقے کے بعض ارکان کی جانب سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جیسا کہ انہوں ماؤ زیڈونگ کی غیر یقینی حکمرانی کی واپسی کے حوالے سے خبردار کیا اور ان کے جانشین ڈینگ شیاؤ پنگ جن کے تحت چین کی معیشت کو فروغ ملا،،کی جانب سے زیادہ اتفاق رائے سے منسلک نظام کی وکالت کی۔

این پی سی قانون ساز باڈی ہے کئی سرکاری عہدیداروں اور متعدد ارب پتیوں سمیت شہریوں پر مشتمل این پی سی قانون ساز باڈی کو کمیونسٹ پارٹی کنٹرول کرتی ہے، اس لئے پالیسی ساز جماعت عاملہ کے رواں سال کی ابتداء پر اس کیلئےمتفق ہونے کے بعد آئینی تبدیلی کی منظوری مؤثر ضمانت تھی۔

بیجنگ میں سرخ ووٹنگ والے بکس کے اندر ہلکی سرخی مائل رنگ کے الیکٹرانک بیلٹ پرچی ڈالنے والے نمائندوں کے ساتھ حساس گریٹ ہال آف دی پیپل میں رائے شماری کی گئی۔ صدر شی جنگ پنگ جو این پی سی کے نمائندے بھی ہیں، رائے شماری کو عمل دیکھتے ہوئے کافی پرسکون دکھائی دئیے اور سنجیدگی سے اپنا ووٹ ڈالنے پر داد بھی وصول کی۔

اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز کے اسکول میں چائنا انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر اسٹیو سینگ نے کہا کہ حزب اختلاف کے ووٹوں کا ایک بڑا تناسب اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ شی جنگ پنگ سے محبت اور پسندیدگی کے مقابلے میں بہت زیادہ خوف پایا جاتا ہے، چونکہ ہم جانتے ہیں کہ ترمیم متنازع تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عوام کو شی کے خلاف کھلی مخالفت کے حوالے سے خدشات ہیں، یہ بہت سنگین بات ہے کیونکہ اگر کوئی بھی متبادل رائے کا اظہار کرنے کے قابل نہیں ہے ،تو پھر خطرہ ہے کہ پالیسی کے مناظرے تنگ نظر ہوسکتے ہیں اور پالیسی کی غلطیوں کا خطرہ بڑھ جائے گا۔

چین میں عوامی مزاحمت دانشوروں کی جانب سے چند درخواستوں تک محدود رہی۔لیکن نجی طور پر بہت سے لوگ شکایت کرتے نظر آئے کہ ماؤ کی حکمرانی کے بعد چار دہائیوں میں اصلاحات پیچھے کی جانب ایک قدم ہے۔

بیجنگ میں ایک آزاد سیاسی مبصر وو قانگ نے کہا کہ ووٹنگ کو شناخت ظاہر نہ کرنے کے طور پر بیان کیا گیا تھا لیکن مؤثر طریقے سے آئینی ترمیم کو منظور کرنے کے لئے نمائندے نہایت سختی سے منتخب کئے جاتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ دو مخالف ووٹ امکان ہے کہ ذاتی ضمیر کا نتیجہ ہوں۔

وکالت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ تبدیلی مسٹر شی جنگ پنگ کو بے نتیجہ ریاستی ملکیت انٹرپرائزز اور قرض سے چلنے والی مقامی حکومتوں اور مسلسل ترقی کو یقینی بنانے کے لئے اقتصادیاصلاحات کے ساتھ آگے بڑھنے کیلئےمزید مستقل اثرورسوخ دے گی ۔لیکن اب تک شی جنگ پنگ کی جانب سے نگرانی کی گئی اصلاحات کا رجحان معیشت میں زیادہ ریاستی شمولیت کے حق میں رہا ہے۔

گزشتہ ماہ کے آخر میں ترمیم عوام کے سامنے لانے کے بعد چین نے تنقید پر سختی سے پابندی عائد کی ہوئی ہے، صدر شی جنگ پنگ کے نام پر ’میں متفق نہیں‘ سے لے کر شرائط کے ساتھ سوشل میڈیا سروسز بند کردی گئیں۔

چین میں عوامی مزاحمت دانشوروں کی جانب سے چند درخواستوں تک محدود رہی۔لیکن نجی طور پر بہت سے لوگ شکایت کرتے نظر آئے کہ ماؤ کی حکمرانی کے بعد چار دہائیوں میں اصلاحات پیچھے کی جانب ایک قدم ہے۔

بیرون ملک، یورپ اور شمالی امریکا میں متعدد یونیورسٹی کیمپسز پر سی جنگ پنگ کی مذمت کے پوسٹرز اچانک نظر آئے جیسا کہ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والے چینی طلبہ کے چھوٹے گروپوں نے رجعت پسند سیاسی تبدیلی کی مخالفت کی۔

جنوبی چین سے تعلق رکھنے والے طالب علم جو تھوماس کے نام سے ایک جاری ایک مہم کو منظم کررہے ہیں نے کہا کہ گزشتہ تیس سال میں چین کی ترقی کے پیچھے واحد اہم ترین طاقت اداروں کی سطح پر پارٹی کے رہنما کے اختیارات پر نگرانی ہے۔

تائی پے میں تعلیم حاصل کرنے والے چینی طالب علم نے ماؤ کے تحت نظریاتی تبدیلی جس کے نتیجے میں سیکڑوں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے،کا حوالہ دیتے ہوئےکہا کہ مجھے خوف ہے کہ چین میں ایک اور ثقافتی انقلاب آئے گا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صدارتی اختیارات کی حدود کا خاتمہ ریاستی اداروں کو پارٹی کے ساتھ زیادہ قریب آنے کے لئے معاشرے کی تمام سطحوں پر پارٹی کے کنٹرول کو بڑھانے کے صدر شی جنگ پنگ کے مرکزی مقاصد کو نمایاں کرتا ہے۔آئینی ترمیم ان کے پیشرو ہو جناتو کی سائنسی ترقی کے نظریات کے ساتھ شی جنگ پنگ کے خیالات کا احاطہ بھی کرتی ہے۔

ووٹنگ ہال کے باہر نمائندے فیصلے کی تعریف کیلئے متفق تھے۔ شمال مشرقی صوبے ہیلونگ جیانگ ست سن یانگلجنگ نے کہا کہ میں نے بلاشبہ خواہش کی کہ صدر شی جنگ پنگ جتنا عرصہ ممکن ہو اپنے عہدے پر برقرار رہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ لیکن لوگ بوڑھے ہوجاتے ہیں اور مرجاتے ہیں ، مجھے امید ہے وہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق کام کریں گے۔

تازہ ترین