• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی مشیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے کراچی میں منعقدہ ایک سیمینار میں نئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سمیت بعض مالی اقدامات کی نوید دی ہے جن پر عملدرآمد سے ملکی معیشت میں مزید بہتری آسکتی ہے اور عوام کے معیار زندگی پر مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ورلڈ اکنامک فنانس فورم سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئندہ بجٹ کے لئے جو اگلے ماہ کے اواخر میں پیش کیا جا رہا ہے، ہمارے پاس بہترین تجاویز ہیں۔ ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ اس میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا ۔ حکومت کی بنیادی توجہ ترقی کی شرح میں اضافے پر مرکوز ہو گی۔ جی ڈی پی کی شرح 6فیصد حاصل کر لی جائے گی جو گزشتہ ایک دہائی میں سب سے زیادہ ہے۔ اس سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے۔ پاکستان میں دس فیصد شرح نمو حاصل کرنے کی صلاحیت موجود ہے جسے بروئے کار لایا جائے گا۔ ملک میں عوام دوست اورٹیکس فرینڈلی پالیسی متعارف کرائی جارہی ہے۔ اس کے تحت ٹیکسوں کی فیصد شرح کم کی جائے گی اور ٹیکس جمع کرنے کا دائرہ بڑھایا جائے گا۔ جی ڈی پی کی شرح کے علاوہ برآمدات بڑھانے پرکام ہو رہا ہے اور افراط زر اوردرآمدات میں کمی لانے پر توجہ دی جا رہی ہے، صنعتوں، خاص طور پر چھوٹے کاروبار کے فروغ کے لئے مختلف شعبوں میں اسلامی بینکاری متعارف کرائی جا رہی ہے۔ بہتر ملکی حالات کی وجہ سے معاشی اہداف حاصل کرنا مشکل نہیں رہا۔ حکومت نے توانائی کی قلت، امن و امان اور حکومتی سطح کی مشکلات پر قابو پا لیا ہے جس سے خوشحالی اور ترقی کے راستے میں حائل بنیادی خرابیاں دور ہو گئی ہیں۔ 12ہزار میگاواٹ مزید بجلی سسٹم میں شامل ہو گئی ہے اور صنعتوں کو بجلی اور گیس کی فراہمی یقینی بنائی جا رہی ہے۔ سی پیک کے تحت پاور پلانٹس لگانے کےلئے مشینری کی درآمد سے درآمدی بل میں اضافہ ہو رہا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ بتدریج کم ہوتا جائے گا۔ ٹیکس وصولی کا نظام بہتر ہو رہا ہے۔ توقع ہے رواں سال محصولات کی وصولی چارہزار ارب روپے تک پہنچ جائے گی۔ مشیر خزانہ نے نئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا چند روز میں اعلان کرنے کی بات کی جس کے نتیجے میں ترغیبات ملنے سے امید ہے کہ پاکستانیوں کے بیرون ملک 4 سے 6ارب ڈالر واپس آسکتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق ایف بی آر نےا سکیم کا مسودہ تیار کر لیا ہے۔ بزنس کمیونٹی کا مطالبہ ہے کہ پاکستانیوں کے بیرون ملک اثاثوں کو قانونی بنا کر واپس لانے کا موقع دیا جائے۔ ایمنسٹی اسکیم کے تحت ان اثاثوں کی نیب اور اینٹی منی لانڈرنگ قوانین سے تحفظ مل جائے گا اور کم سے کم 3 سے5 فیصد تک ٹیکس ادا کرکے خطیر رقم واپس لائی جا سکے گی۔ اگرچہ ماضی میں ایسی اسکیموں کے مطلوبہ نتائج کماحقہ حاصل نہیں ہوئے اور آئی ایم ایف، ورلڈ بینک بھی ان کے خلاف ہیں کیونکہ ان سے دیانتدار ٹیکس دہندگان کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے لیکن توقع کی جا رہی ہے کہ ٹیکس نادہندگان کے خلاف موجودہ بین الاقوامی ماحول کی وجہ سے نئی اسکیم بڑی حد تک کامیاب ہو گی۔ موجودہ حکومت برسر اقتدار آئی تو پاور سیکٹر میں گردشی قرضوں کی شکل میں اسے ایک بڑا مسئلہ درپیش تھا جو500بلین روپے تک پہنچ گئے تھے۔ یہ مسئلہ پہلی فرصت میں حل کرلیا گیا توقع تھی کہ گردشی قرضوں کا دور دوبارہ واپس نہیں آئے گا۔ بجلی کی پیداوار بڑھ جائے گی اور لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی، بجلی کی پیداوار میں اضافہ ضرور ہوا اور لوڈ شیڈنگ پر بھی کافی حد تک قابو پا لیا گیا لیکن گردشی قرضے پھر بڑھ گئے۔ اطلاعات کے مطابق اب ان کا حجم9سو بلین روپے تک پہنچ گیا ہے یعنی 5سال پہلے کے مقابلے میں تقریباً دو گنا ہو چکے ہیں بجلی کی چوری ختم نہیں ہوئی اور صارفین کے ذمے واجبات کی وصولی بھی بلوں کے مطابق نہیں ہو رہی۔ احتمال ہے کہ گردشی قرضے اسی طرح بڑھتے گئے تو ایک بار پھر پاور سیکٹر کو مفلوج بنا سکتے ہیں۔ اگرچہ موجودہ حکومت کی میعاد ختم ہونے میں بہت کم عرصہ رہ گیا ہے مگر اپنے آخری بجٹ میں اور اس سے قبل بھی موثر مالی اقدامات کے ذریعے معاشی معاملات ٹھیک کر کے وہ عوام کی محرومیوں کا مداوا کر سکتی ہے۔

تازہ ترین