وہ واحد بیگم اختر، جن کو میں جانتا ہوں․․․ اور یہاں اپنی کم علمی کا اعتراف ضروری ہے․․․وہ ملکہ ٴ غزل تھیں اور اُنھوں نے بہت سی لاجواب غزلیں ، جیسا کہ ․․․”دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دینا․․․“ گائیں۔ گزشتہ ہفتے جب میں نیٹ کے پیچ وخم میں غلطاں تھا، جیسا کہ ہمارے دور کا خاصا ہے، اچانک مجھے بیگم اختر کی ایک لاجواب غزل سننے کو ملی۔ یہ فیض صاحب کی شاہکار تھی جس کو بیگم اختر کی سنہری آواز نے چار چاند لگادیے․․․” آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے، اُس کے بعد آئے جو عذاب آئے․․․“اس دوآتشہ نے مجھے مبہوت کر دیا اور اب تک وجد میں ہوں۔
اس غزل کو اور بھی بہت سوں نے گایا ہے اور بہت خوب گایا ہے مگر مجھے کہنے دیجیے․․․ اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ بیگم اختر کی آواز میں اس کے بول کیف آفریں فضاؤں میں لیجاتے ہیں۔ ایک اور اعتراف کرتا چلوں کہ میں یہ نہیں جانتا کہ یہ غزل کس راگ میں گائی گئی ہے مگر مجھ جیسے موسیقی سے نا بلد شخص کے دل کے تار اس کے سروں کے ساتھ ہلکے ہلکے ہچکولے کھاتے ہوئے ایسی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں جہاں ، بقول غالب․․․ ”ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی ، کچھ ہماری خبر نہیں آتی۔“میرا خیال تھا کہ اختری بائی ، جیسا کہ ان کی تصاویرسے لگتا ہے، کوئی سنجیدہ سی خاتون ہوں گی مگر میں پھر غلطی پر تھا۔ محفل ِ موسیقی کے دوران نہایت عمدگی سے سروں کے مطابق گاتے ہوئے بھی ان کی دلکش آنکھوں میں ایک چمک سی لہرا جاتی اور پھر یہ بڑے دھیرج سے ان کے لبوں سے اٹھکیلیاں کرتی ہوئی ان کی آواز کے جادو میں گم ہوجاتی۔ یہاں احساس ہوتا ہے کہ ”حسن ِ معنی “ کو مشاطگی کی ضرورت ہو نہ ہو، مشاطہ کی ضرورت ہوتی ہے۔
قدیم لکھنوٴ کے سنہری دور کے بہت سے افراد مل جائیں گے جنہوں نے اختری بائی کے ہاں جاکر اُن کی غزلیں سنیں تھیں۔ ان لوگوں سے بات کرنے پر پتہ چلا کہ اُن کے بہت سے چاہنے والے تھے۔بہت سی گانے والیوں کی طرح بیگم اختری کوبھی بچپن سے بہت سے نشیب وفراز سے گزرنا پڑا۔ تاہم فن کے ساتھ وابستگی نے ان کو ڈگمگانے نہ دیا۔ اب صرف فن کی قدردانی باقی ہے․․․ باقی سب کچھ فراموش کیا جا چکا ہے۔
غزل کیا ہے اور یہ کن جذبات کا اظہار کرتی ہے ؟ میرا خیا ل ہے کہ غزل میں انسانی جذبات، روح کی تمازت، دل کی دھڑکن، جذب و مستی اور ہنگامہ ہائے شوق کی سرمستیوں کو شاعر ایک وجدانی کیفیت میں ڈوب کر الفاظ کی موسیقی کے ساتھ ہم آہنگ کر دیتا ہے۔ یہ صنف ِ سخن بنیادی پر طور پر اردو کے ماتھے کا جھومر ہے اور اس کی آبیاری دہلی اور لکھنو کے کلاسیکی دور میں ہوئی۔پہلے پہل شاعروں نے فن ِ غزل میں نام پیدا کیا اور دیوان لکھے ۔ غزل گانے والے بہت بعد میں منظر ِ عام پر آئے۔ جدید دور میں غزل گانے والوں میں سب سے پہلا اور اہم نام کے ایل سہگل کا ہے۔ مشہور گلوگارہ شمشاد بیگم کا کہنا ہے کہ سہگل صاحب سے پہلے مرد گلوکار بھی عورتوں کے لہجے میں گایا کرتے تھے۔ سہگل نے غزل گوئی کا نیا باب کھولا اور پھر دوسروں نے اُن کی تقلید کی۔ اگر مکیش اور کشور کمار کے ابتدائی دور کے گیت سنیں تو لگتا ہے کہ ان پر سہگل صاحب کا اثر بہت گہرا تھا ۔
محمد رفیع صاحب کا فن ِ گائیگی مختلف تھا۔ ان کی آواز، انداز اور سوز سب سے جدا تھا اور ایسا لگتا ہے کہ ان پر آسمانی طاقتوں کی خاص کرم نوازی تھی۔ فن ِ موسیقی کی دنیا میں خیال کیا جاتا ہے کہ بہت سی مافوق الفطرت طاقتیں گلوکاروں اور راگوں سے منسوب ہوتی ہیں․․․ بالکل یونانی دیومالائی داستانوں کی طرح۔ ان مخفی طاقتوں کو سننے والے بھی محسوس کرتے ہیں۔ ایک خاص وقت میں گایا ہواگیت سننے والوں کو طلسماتی دنیا میں لے جاتا ہے اور وہ زمان و مکاں کی قید سے آزاد ہو کر پندار کے اُس صنم کدے میں پہنچ جاتے ہیں جو کبھی ویران نہیں ہوتا ہے۔ وقت طاقتور سہی مگر اس دنیا میں اس کی بھی رسائی نہیں ہے۔ اگر آپ محمد رفیع کو سنیں تو سہگل بہتر سمجھ میں آئے گا اور اگر سہگل کے بعد رفیع کو سنیں تو لاہور سے انڈیا جانے والا یہ عظیم گلوکار بہت اچھا لگے گا۔ نورجہاں اور لتامنگیشکر بھی ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ موسیقی کے ایک سمندر میں ہی سارے سروں کے دھارے جا گرتے ہیں۔ تھوڑی سی تبدیلی چاہتے ہیں تو مغربی موسیقی کے چشمے سے سیراب ہولیں۔
واپس پھر بیگم اختر کی گائی ہوئی دو غزلوں کی طرف․․․ میں نے ان کی گائی ہوئی ایک غزل کا کالم کے آغاز میں ذکر کیا ہے۔ دوسری غزل ․․․” کچھ تو دنیا کی عنایات نے دل توڑ دیا․․․“ہے۔ ان کوسننے کے بعد ”کیس“ میں کوئی جان نہیں رہتی اور دل کی عدالت ِ عالیہ متفقہ فیصلہ کرتی ہے کہ سہگل اور بیگم اختر سے بہتر غزل گو کوئی اور نہیں ہے۔ ان دونوں کا غزل گوئی کا انداز ایک جیسا نہیں ہے․․․ اور خدا کا شکر ہے کہ ایسا نہیں ہے ۔سہگل نہ تو کسی استاد کے شاگر دتھے اور نہ ہی اُنھوں نے فن ِ موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ جو راگ بھی کسی سے سن لیتے وہ اسی طرح گاسکتے تھے۔ اسی صلاحیت نے ان کے فن کو پروان چڑھایا۔ دوسری طرف بیگم اختر، جنہوں نے برس ہا برس کلاسیکل استادوں سے فن سیکھا اور ریاضت کی ، کے بارے میں کہنے کی جسارت کرتاہوں کہ فنی طور پر وہ سہگل سے بہتر گلوکار تھیں۔ تاہم فن کی درستگی میں کی گئی ریاضت نے ان کے جذبات کی کونپلوں کو خزاں رنگ نہیں کیا تھا ۔ وہ سروں کی درست ادائیگی کے ساتھ ساتھ جذ بات کو بھی بہت والہانہ انداز میں بیان کرتی تھیں ۔ سہگل فطری طور پر جذبات اور سوز کو آواز کا روپ دینے کیلئے پیدا کیے گئے تھے۔ بطور ایک نوجوان ، مستقبل کی تلاش میں سرگرداں، جب سہگل کلکتے آئے تو کوئی خیر خواہ ان کو لے کر ایک بنگالی موسیقار رائے چند بورال کے پاس آیا ۔ استاد نے پوچھا کہ کیا وہ راگ توڈی یا رمکالی گا سکتا ہے تو سہگل نے کہا کہ وہ راگ نہیں جانتا ، تاہم اگر اس کو ان کی لے بتا دی جائے تو وہ گا سکتا ہے۔ اس پر بورال نے کہا کہ وہ جو بھی گاسکتا ہے، سنا دے۔ سہگل نے راگ اساوری گانا شروع کر دیا ۔ اس واقعے کے پنتالیس سال بعد بورال کو یہ تو یا د نہ رہا کہ سہگل نے بطور ایک نوجوان لڑکے ، راگ اساوری گایا تھا یا کچھ اور ، مگر اسکا اثر ان کے دل ودماغ سے نہ نکلا۔ ان کا کہنا ہے․․․”جو کچھ میں نے سنا، لگتا ہے کہ کوئی انسان نہیں بلکہ راگ کا کوئی دیوتا گارہا ہے۔
تاہم ہر انسان پر فطرت اس طرح مہربان نہیں ہوتی ہے اور پھر سہگل ایک غیر معمولی انسان تھے۔ ان کی سخاوت کی بے شمار کہانیاں ہیں۔ اپنی گلوکاری سے اُنھوں نے بہت کچھ کمایا اور پھر دونوں ہاتھوں سے بانٹ دیا۔ ایک کہانی بیان کی جاتی ہے کہ ایک مرتبہ سہگل اور ان کے ایک دوست شام کے کھانے کے بعد بمبئی (موجودہ ممبئی) میں سمندر کے کنارے ٹہل رہے تھے کہ ان کو ایک فقیر کی آواز سنائی دی جو غالب کی غزل گارہا تھا۔ وہ دونوں بیٹھ کر اسے سننے لگے۔ جب غزل ختم ہوگئی تو سہگل نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور پانچ ہزار روپے (اُس زمانے میں یہ بہت بڑی رقم تھی)اُس فقیر کو دے دیئے۔ جب دوست نے پوچھا کہ کیا وہ جانتا ہے کہ اُس نے کتنی رقم دیدی ہے تو سہگل نے جواب دیا ․․․ ” مجھے پیسوں سے نوازتے ہوئے کیا اوپر والا بھی گنتا ہے؟“ایک مشہور ٹھمری ․․․”بابل مورا نہار چھوٹ جائے․․․“ ، جو کہ راگ بھیرویں میں ہے اور اسے انیسویں صدی کے نواب واجد علی شاہ نے لکھا ہے۔ یہ ٹھمری در اصل اس در د کو بیان کرتی ہے جو واجد علی شاہ کو لکھنو سے جلاوطنی پر برداشت کرنا پڑا تھا․․․(واجد علی شاہ کو انگریز سرکار نے 1857 میں لکھنو سے جلا وطن کر دیا تھا)۔سہگل نے اس ٹھمری کو ایک فلم میں گایا ہے اور یہ ان پر ہی فلمائی گئی ہے۔ اُنھوں نے اسے اسٹوڈیو کی بجائے گلی میں ہی گایا تھا۔ یہ سننے والے کو سحر زدہ کر دیتی ہے۔ اس ٹھمری کو پنڈت بھیم سین نے بھی گایا تھا مگر فرق واضح ہے۔
غزل کی دنیا کی بادشاہت بیگم اختر کے سر ہے اور اپنی لا علمی کا اعتراف پھر کیے دیتا ہوں کہ ایک زمانہ گزار کر مجھے اب پتا چلا ہے ۔ اگر میں نے زندگی فن کی دنیا کی سیر میں بسر کی ہوتی تو یقینا ایسا نہ ہوتا۔ہماری یاد داشت کا ایک حصہ موسیقی کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔ ہر کوئی کبھی نہ کبھی ، کسی نہ کسی موڈمیں کچھ گنگنا لیتا ہے۔ گزشتہ چند ایک روز سے مجھ پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہے۔ بیگم اختر کی دو غزلیات نے ایک نئی دنیا سے روشناس کر ا دیا ہے۔ اب دل میں یہ سوچ جاگزیں ہے کہ میں نے عمر کہاں بسر کر دی ہے ؟