• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قوموں کی زندگی میں بعض دن سنگ میل کی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں اور زندہ قومیں یہ دن جوش و جذبے سے منا کر اس عزم و عہد کی تجدید کرتی ہیں، جو اس سے منسوب ہوتا ہے۔ 23مارچ 1940 مسلمانان ہند کے لئے ایک ایسا ہی سنگ میل تھا جسے عبور کرنے کے بعد قیام پاکستان کی راہ متعین اور منزل قریب تر ہو گئی۔ ہر سال کی طرح اس بار بھی یہ دن ملک بھر میں منایا گیا۔ مرکزی تقریب اسلام آباد میں شکر پڑیاں پریڈ گراؤنڈ میں صبح 9بجے شروع ہوئی جس میں پاکستان کی مسلح افواج کے چاق چوبند دستوں نے حصہ لیا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے صدر پاکستان ممنون حسین نے کہا کہ ہماری تاریخ میں 23 مارچ جیسا کوئی دن نہیں، اس دن ہمارے بزرگوں نے ایک جدید اور جمہوری ملک بنانے کا عزم کیا۔ انہوں نے بھارت کو تنبیہ کی کہ اس نے غیر ذمہ دارانہ طرز عمل سے خطے کے امن کو داؤ پر لگا دیا ہے، امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ پاکستان کشمیریوں کی حمایت جاری رکھے گا۔ صدر پاکستان نے کہا کہ پاک فوج نے آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد کے ذریعے دہشت گردی کے چیلنج کا بھرپور مقابلہ کیا اور اس کی لازوال قربانیوں کے نتیجے میں امن بحال ہو چکا ہے، کامیابی کے اس سلسلے کو برقرار رکھنا ضروری ہے تاکہ دہشت گردی کا عفریت پھر سر نہ اٹھا سکے۔ انہوں نے بھارت کو خبردار کرتے ہوئے اس حقیقت کو واضح کیا کہ آزادی کی تحریکوں کو طاقت سے نہیں دبایا جا سکتا۔ صدر مملکت نے ملک میں قیام امن کی خاطر قربانیاں دینے والوں کے لئے ’’تمغہ عزم‘‘ کا بھی اعلان کیا۔ قومی دن منانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس دن کئے گئے عہد کو تازہ کرتے ہوئے، اس پر عمل پیرا ہوا جائے۔ 23مارچ کی قرارداد پاکستان، حصول پاکستان کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے کے عزم سے عبارت تھی، جس کے نتیجے میں بفضل خدا پاکستان معرض وجود میں آ گیا۔ اب ہمیں 23مارچ کو تعمیر و ترقی پاکستان کے عہد کے ساتھ منانا چاہئے، درحقیقت پاکستان کو اس وقت سب سے زیادہ ضرورت بھی اسی سوچ، عزم اور جوش و جذبے کی ہے۔ پاکستان کو درپیش چیلنج اور خطرات کسی سے پوشیدہ نہیں۔ پاکستان اقتصادی و معاشی مسائل سے دوچار ہے جس پر ڈالر کی قیمت میں اضافے نے ضرب کاری لگائی ہے، دیگر اندرونی خطرات کا بھی ابھی مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہوا۔ سی پیک کی وجہ سے بھارت کی اشتعال انگیزیاں بڑھ گئی ہیں اور وہ اپنے حواریوں امریکہ و اسرائیل کے ایما پر ضرورت سے کچھ زیادہ ہی بے لگام ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ نہ صرف ایل او سی پر جنگ بندی معاہدے کو آئے دن توڑتا ہے بلکہ بلوچستان کو بھی پاکستان مخالف سرگرمیوں کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ کشمیر میں تو اس نے مظالم کا ایسا سلسلہ شروع کر رکھا ہے کہ انسانیت منہ چھپاتی پھرتی ہے ۔ صدر مملکت کے خطاب میں تین باتیں انتہائی اہم ہیں۔ اول یہ کہ 23مارچ کے دن ہمارے بزرگوں نے ایک جدید اور جمہوری ملک بنانے کا عزم کیا، دوئم یہ کہ امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے اور سوئم یہ کہ پاکستان کشمیر کی حمایت جاری رکھے گا۔ کوئی شک نہیں کہ جمہوریت ہر طرح کی ترقی و خوشحالی ہی نہیں ناقابل تسخیر دفاع کی بھی ضامن ہے۔ اس ضمن میں ہماری سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کو صدق دل سے سوچنا چاہئے کہ کیا وہ جو سیاست کر رہے اس سے جمہوریت کی منزل کا حصول ممکن ہے؟ اگر نہیں تو انہیں ملک و قوم کے لئے اپنا چلن تبدیل کرنا چاہئے۔ جہاں تک بات ہے ہماری خواہشِ امن کی وہ سب پر عیاں ہے اور یہ بھی کہ پاکستان کسی بھی جارحیت کا دندان شکن جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے لہٰذا بہتر ہے کہ کوئی کسی غلط فہمی یا خوش فہمی میں نہ رہے۔ کشمیریوں کی حمایت ہمارا اخلاقی فریضہ ہے۔ بھارت کو سمجھ لینا چاہئے کہ کشمیریوں کو ان کا حق دے کر ہی خطے کی ترقی اور خوشحالی کا راستہ ہموار ہوسکتا ہے جو خود اس کے عوام کے مفاد کا تقاضا ہے۔ صدر پاکستان کا خطاب دراصل ’’پیغام پاکستان‘‘ ہی کا حصہ ہے اور قوم کو اس پر متفق و متحد ہونا چاہئے کہ یہی ’’یوم پاکستان‘‘ منانے کا بہترین طریقہ ہے۔

تازہ ترین