• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں اسٹیٹس کو(نظام بد) بالآخر اپنی شکست و ریخت کا عمل شروع ہونے پر سر چڑھ کر اپنا رنگ دکھارہا ہے۔ سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی ہر سماعت کے بعد احاطہ عدالت کے باہر وزراء اور اپوزیشن اراکین اسمبلی کا دھونس، دھمکیوں بھرے اور غیر جمہوری اور غیر ضروری ابلاغ کا تواتر سے اہتمام، ہماری سیاسی پسماندگی کی انتہا کے طور پرتاریخ میں محفوظ ہوگیا۔ اس سے ہماری آنے والی نسلوں کو اندازہ ہوگا کہ 7عشرے گزر جانے کے بعد بھی ہمارے سیاسی جمہوری کلچر کی کیا کیفیت تھی۔
فیصلہ آنے پر نااہل ہوجانے والے وزیر اعظم اور ان کی صاحبزادی کا جلسے جلوسوں اور ریلیوں میں عدلیہ کو متنازع بنا کر ن لیگی کارکنوں اور حامی بینی فشریوں کے ہجوم کو’’اصلی عدالت‘‘ کے طور پر منوانے کی مہم جوئی اپنی جگہ ایک بڑا سیاسی ڈیزاسٹر تھا۔ اس کے متوازی بھی ن لیگی وزراء نے عدالتی فیصلوں کو متنازع بنانے اور عدلیہ کے وقار کو ٹھیس پہنچانے میں اپنی جانب سے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی ، جبکہ اس حوالے سے ماضی کا داغ دامن پر پہلے ہی موجود ہے، جو شرمندگی اور اصلاح کے لئے کافی ہونا چاہئے تھا لیکن اسٹیٹس کو کا’’جمہوری کلچر‘‘ کہاں اتنا حوصلہ پیدا کرتا ہے۔ سو، عدلیہ پر ن لیگی تبراجاری رہا۔ کھلے سیاسی ابلاغ میڈیا اور سوشل میڈیا سے بھی۔
اصل میں اپنے آئینی کردار کے مطابق عدلیہ کا اپنے فرائض کی ادائیگی میں سرگرم ہوجانے اور اسی کے آئینی اختیار کے استعمال سے کئی جامد ریاستی اداروں خصوصاً نیب کے سرگرم ہونے پر ن لیگ نے جو دہائی ڈالی ہے، وہ اسٹیٹس کو کا مخصوص انداز طفل ہے، جو بڑے بڑے ذمہ دار اپنے حلف اور آئین و قانون کے منافی اختیار کرتے ہیں تو یہ دھما چوکڑی میں تبدیل ہوجاتا ہے، اگر تھی تو یہ مشاورت خطرناک ثابت نہیں ہوئی ؟ کہ عوام میں اس طرح رونے دھونے اور دنگا مچانے سے ہمدردی پیدا ہوگی۔ جن کروڑوں بدحالوں کو اسٹیٹس کو مسلسل اور قدم قدم پر ڈستا ہے، انہیں کیسے ہمدردی پیدا ہوسکتی ہے جبکہ کائونٹر نیورٹیو(جوابی بیانیہ)جو عوام کی محرومیوں کی جملہ تفصیلات اور حالت زار پر مشتمل ہے، نسبتاً زیادہ اثر انداز ہوا۔ ایسے میں عدلیہ مزید سرگرم اور اپنی رٹ قائم کرانے کی سعی میں حق بجانب ہے۔
ن لیگی’’اصل قیادت‘‘ نے خطرناک مشاورت سے یا اپنی ہی اپروچ سے اپنے ردعمل میں جو گلو بٹوانا رنگ اختیار کیا وہ جتنی غلط راہ تھی ا س پر چلنے میں اتنا ہی تسلسل رہا۔ نتیجہ قانونی اور شاید فطری ردعمل کے مطابق بھی احتسابی عمل زیادہ محتاط لیکن وسعت پذیر ہوگیا۔ نہالی جلال کی واضح مذمت کے باوجود دانیال اور طلال جیسے چودھریوں نے مزید مروانے کا اہتمام نہیں کرنا تھا تو کیا کوئی راستہ نکالنا تھا؟ کیا ان کا سپاہی (حتیٰ کہ کل اسٹیٹس کو سیاست کا بھی) پوٹینشل ہے جو وہ لیڈر کو بچالے جاتے یا کم از کم انہیں دھیما رکھ کر زیادہ سے زیادہ ریلیف دلانے کا کوئی اہتمام کرتے، جس کے امکانات اب معدوم معلوم دیتے ہیں۔
اب تو احتسابی عمل آئین و قانون کا دامن پکڑے اپنا کام دکھارہا ہے تو دھیمی ہونے کا کیا فائدہ؟ جبکہ ن لیگی تبرا اپنا رخ عدلیہ سے سینیٹ کی طرف موڑتا معلوم دے رہی ہے۔ گویا اس نے ریاستی اداروں سے لڑنے بھڑنے اور اس کی مرضی کے مطابق تابع و مہمل نہ ہونے پر، ان پر مسلسل تبرا اور انہیں عوام کی نظر میں گرانے کا مذموم ارادہ باندھ لیا ہے، جو کچھ قائد کو اصل وزیر اعظم ماننے والے ہمارے اصلی وزیر اعظم جناب خاقان عباسی نے سینیٹ اور اس کے منتخب چیئرمین جناب صادق سنجرانی کو کہا، وہ ان کی اسٹیٹس کو کی مخصوص ذہینت کا عکس ہے۔ یہ ابلاغ عام میں تبدیل ہو تو ملکی سیاسی استحکام کے لئے تشویشناک ہے ہی، خود آپ کی سیاست و جمہوریت کا بھانڈا بھی پھوٹ گیا جس سے معلوم ہوا کہ آپ اسٹیٹس کو کے فریم میں بھی کتنے سیاسی ہیں؟
کیا عزت مآب آپ ہی ہیں ۔آپ کو کس نے کہا کہ عوام میں جناب صادق سنجرانی کی عزت نہیں ؟جس نے کہا لغو ہے ۔عوام الناس اس امر پر بے حد مطمئن ہیں کہ پاکستان کے ایوان بالا کا سربراہ ایک ایسا شخص بنا ہے جو بلوچستان کے بھی دور دراز علاقے چاغی سے ہے کیا چاغی صرف ایٹمی تجربے اور معدنیات نکالنے کے لئے ہے؟ جناب سنجرانی کا چیئرمین سینیٹ منتخب ہونا منتخب ایوان ہائے نمائندگی میں پارٹی سیپٹری اپروچ اختیار ہونے کا آغاز ہوگا ۔سینیٹ کا انتخاب عین آئینی تقاضے کے مطابق ہوا۔ یہ لغو ہے کہ پی ٹی آئی کے سینیٹر بک گئے تو آپ ثبوت لیکر الیکشن کمیشن اور عدلیہ میں جائیں ۔آپ کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ آپ یہ فتویٰ دیں کہ سینیٹ کے نو منتخب چیئرمین کی کوئی عزت نہیں کرتا ۔اس لئے کہ بقول آپ کے انہیں کوئی نہیں جانتا، یہ جاننا اور نہ جاننا کیا ہوتا ہے؟ آپ کو معلوم ہے کہ آپ جو سینیٹرز ایوان میں لاتے رہے اور لائے ہیں، لوگ ان کو کس طور جانتے ہیں ؟اور وہ کیا کیا ہیں؟ چیئرمین بھی ایسا ہی ہو تو آ پ کے نزدیک عزت مآب ہو گا اور جو ’’ذلت مآب‘‘ ہمارے منتخب ایوانوں میں داخل ہو کر ملکی خزانے کی لوٹ مار میں ملوث رہے اور ہیں وہ ہی عزت دار ہیں ؟چاغی پاکستان کا بازو ہے کیا تکلیف ہے اگر صادق سنجرانی کو عوام الناس پہلے نہیں جانتے تھے۔ آپ اور آپ کے لیڈر اور بزرگوں کو ’’عسکری سیاست‘‘ میں آنے سے پہلے کتنے لوگ جانتے تھے جن کے طفیل آپ وزیر اعظم بن گئے بننا تو آپ نے انجینئر تھا اور اگر سینیٹ میں آنے کے لئے عوام الناس کا جاننا ضروری ہے تو یہ بھی کہونہ کہ لوگ انہیں کس طور جانتے ہیں؟
آپ کے قائد اور جماعت نے پاکستان کو لوٹنے والوں کے احتساب کے وعدے جو انتخابی مہم میں کئے تھے اس سے حکومت میں آتے ہی آپ کی دستبرداری کتنی عزت مندانہ اور حلف سے آپ کی وفا تھی ؟ یہ دستبرداری اسٹیٹس کو سے وفاداری تھی یا آپ اور آپ کے قائدین کی حلف سے وفا تھی؟اگر یہ آئین حلف ، منصب اور عوام سے بے وفائی تھی تو آپ کی حکمران جماعت کتنی عزت دار قرار پائے ؟ سیدھی سادی بات ہے کہ آپ سینیٹ کے انتخاب میں بری طرح ناکام ہوئے سیاست اور دائو دونوں طرف کے اسٹیٹس کو والےتھے جیسے آپ ’’فرینڈلی اپوزیشن ‘‘ کے احتساب سے دستبردار اور نظام بد سے ہی وفا کے مرتکب ہوئے اس طرح آپ کے کچھ سینیٹرز بھی اسی کا ارتکاب کر بیٹھے تو یہ قدرت کی نکلی راہ ہے کہ بلوچستان کے جواں سال سینیٹرپر ملک بھر کے مختلف اور متضاد جماعتوں کے اتنے سینیٹرز متفق ہو گئے ایسے میں نئے متفقہ چیئرمین کا کیا مطلب ؟عدلیہ پر حملوں کے نتائج آپ دیکھ چکے اب منتخب ایوان کو ہدف بنانا بھی ضروری ہے ؟آخر کیا چاہتی ہے ن لیگ ؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور
واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین