• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر ٹرمپ کی جانب سے جان بولٹن کو اپنا نیا نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر مقرر کئے جانے کے اعلان کے ساتھ ہی امریکہ اور عالمی ڈپلومیٹک حلقوں میں تنقیدی تبصروں اور تشویش کی ایک لہرنے جنم لے لیا۔ امریکہ کے لبرل میڈیا، ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ اور دیگر موثر اور معتبر میڈیا کے ’’ایڈیٹوریل بورڈز‘‘ نے اپنی سوچی سمجھی رائے کا اظہار کرتے ہوئے جان بولٹن کو انتہائی خطرناک اور ملک کو جنگ کی طرف لے جانے والا قرار دے دیا۔ امریکی سی آئی اے کے موجودہ سربراہ مائیک پومپیو جیسے سخت گیر انسان کو نیا وزیر خارجہ مقرر کرنے کا فیصلہ کر کے صدر ٹرمپ نے واضح کر دیا کہ امریکہ عالمی تعاون اور رائے عامہ کی پرواکئے بغیر بھی جو چاہے کرسکتا ہے۔ جان بولٹن خود اپنے سخت گیر کنزروٹیو موقف اور امریکی برتری کے لئے طاقت کے استعمال کے حق میںاتنا ریکارڈ رکھتے ہیں کہ امریکی میڈیا کھل کر ان کے کئی شائع شدہ مضامین اور بیانات کا حوالہ دے کر امریکی رائے عامہ کو بتا رہا ہے کہ جان بولٹن ایران اور شمالی کوریا کے خلاف بمباری جنگ اور دیگر امریکی کارروائیوں کے حامی اور وکیل ہیں۔ نئے نامزد وزیر خارجہ مائیک پومپیو بھی ایسے ہی سخت گیر اور امریکی برتری والے موقف کے حامی ہیں گوکہ ان کی تقرری کی منظوری ابھی امریکی کانگریس سے ہونا باقی ہے لیکن نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کے لئے جان بولٹن کی تقرری انتظامیہ کا معاملہ ہے جس کے لئے مختلف طریقہ کار ہے۔ میں نے اپنے چند گزشتہ کالموں میں جان بولٹن کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ وہ ٹرمپ صدارت میں وزیر خارجہ کے امیدواروں میں شامل ہیں اور سخت گیر پالیسیوں کے حامی ہیں، لیکن امریکی کانگریس میں ڈیموکریٹ کے علاوہ بعض ری پبلکن حلقوں میں بھی ان کی بڑی مخالفت پائی جاتی ہے اسی لئے انہیں کانگریس سے تقرری کی لازمی منظوری والے عہدے پر نامزد کرنے سے پرہیز کیا گیا۔ انہیں ایک ذہین امریکی نیشنلسٹ اور جارحانہ امریکی پالیسیوں کا حامی قرار دیا جاسکتا ہے جو اب دنیا میں صدر ڈونلڈٹرمپ کی سیکورٹی پالیسوں کی نمائندگی کرے گا۔ مائیک پومپیو کی بطور وزیر خارجہ تقرری کی منظوری کے بعد یہ دونوں سخت نظریات کے حامل عہدیدار ’’دوآتشہ‘‘ کا کام کر سکتے ہیں۔ مڈٹرم انتخابات سے قبل ہی صدر ٹرمپ نے اپنے ان تمام کنزرویٹو حامی ووٹرز اور سیاسی حلقوں کو خوش کردیا ہے۔ جنہوں نے صدارتی الیکشن میں ٹرمپ کی کھل کر مالی، سیاسی اور عوامی حمایت کی تھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جان بولٹن اپنے ہر لمحہ بدلتے تیور والے باس ڈونلڈ ٹرمپ کے مزاج اور سوچ کے ساتھ کتنا اور کب تک ’’ایڈجسٹ‘‘ کر سکتے ہیں؟ وہ ایران کے ساتھ ایٹمی ڈیل ختم کرنے اور شمالی کوریا کو ایٹمی صلاحیت سے محروم کرنے یعنی ’’ڈی نیوکلیئرائز‘‘ کے لئے تمام اقدامات کے بھی حامی ہیں۔
مجھے 2005ء اس وقت جان بولٹن سے سوالات کرنے اور گفتگو کے پہلی بار مواقع ملے جب وہ صدر جارج بش (جونیئر) کے دور صدارت میں اقوام متحدہ میں امریکی سفیر بن کر آئے اور اپنے موقف اور بیک گرائونڈ کے باعث دنیا کی توجہ حاصل کی۔ 2006ء دسمبر میں تقریباً 16 ماہ سفیر رہ کر وہ سبکدوش ہوگئے، لیکن پھر وہ جہاں بھی ملے انہوں نے اپنے معاونین کی ’’مصروفیت‘‘ اور ’’وقت کے لئے درخواست‘‘ کے عذر اور انکار کے باوجود میرے لئے وقت نکال کر انٹرویوز دیئے اور پاک امریکہ تعلقات پر بھی اس وقت گفتگو کی جب یہ ان کی منصبی ذمہ داری بھی نہیں تھی۔ 2012ء میں مٹ رومنی کی صدارتی نامزدگی کے لئے ری پبلکن پارٹی کے کنونشن میں سر راہ ملاقات ہوئی تو ان کی معاون خاتون نے جان بولٹن کی مصروفیت اور ’’اپائٹمنٹ‘‘ کے عذر دے کے منع کردیا مگر کسی سے مصروف گفتگو جان بولٹن نے مجھے دیکھ کر اشارہ کیا اور گفتگو سے فارغ ہو کر علیک سلیک کی اور اقوام متحدہ کے ماحول کے بارے اور صحافیوں کی تنظیم کے بارے میں کچھ گفتگو کی۔ اپنی معاون خاتون سے میرے بارے میں اچھے کلمات کہتے ہوئے کہا کہ وہ مجھ سے گفتگو کریں گے اور پھر انہوں نے ’’جیو؍جنگ کے لئے خصوصی انٹرویو دیا، جس میں مٹ رومنی کے صدر منتخب ہونے کی صورت میں پاک، امریکہ تعلقات کی ممکنہ نوعیت اور دیگر امور پر کافی تفصیلی گفتگو کی جو ’’جیو‘‘ کے ریکارڈ کا حصہ ہے۔ اسی طرح 2016ء میں ڈونلڈ ٹرمپ کی نامزدگی برائے صدارت کے ری پبلکن پارٹی کنونشن میں اپنے مداحوں کے ساتھ سیلفیاں بنوانے کے ہجوم سے فراغت کے بعد ’’جیو‘‘ کے لئے خصوصی انٹرویو میں پاک، امریکہ تعلقات کی سمت کے بارے میں جو گفتگو کی وہ نہ صرف جیو کے ریکارڈ کا حصہ ہیں بلکہ موجودہ پاک، امریکہ تعلقات کی جو نوعیت ہے جان بولٹن نے اس کی بالکل درست نشاندہی کر دی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان سے مذاکرات کریں گے کہ جنوبی ایشیا میں ہماری پالیسی اور ترجیحات کیا ہیں؟ ان مذاکرات کے نتائج کو انہوں نے فیصلہ کن قرار دیا تھا۔ انٹرویو کے بعد بھی انہوں نے کچھ ’’آف دی ریکارڈ‘‘ گفتگو میں اپنے موقف کا اظہار کیا۔ گو کہ ابھی تک جان بولٹن ٹرمپ ایڈمنسٹریشن کے کسی عہدے یا منظر پر نظر نہیں آئے تھے مگر ٹرمپ ایڈمنسٹریشن نے پاکستان کے بارے میں جو عوامی اور خاموش حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے مجھے تو اس میں بھی جان بولٹن کے موقف کی جھلک نظر آتی ہے۔ یہ حقیقت تو وزیر اعظم عباسی کو پاکستانی عوام کو بتانے کی لازمی ضرورت ہے کہ ان کے حالیہ اور بظاہر خاموش دورہ واشنگٹن میں ایک ’’اہم ترین‘‘ ملاقات میں کیابات چیت ہوئی۔
مختصر یہ کہ ریک ٹلرسن اور جنرل میکماسٹر کی جگہ مائیک پومپیو اور جان بولٹن کی تقرری سے ’’امریکہ فرسٹ‘‘ اور امریکی نیشنلسٹوں کے ہاتھ مزید مضبوط ہوں گے اور چین، روس سے مزید کشیدگی بڑھے گی۔ جان بولٹن اپنے سخت گیر موقف کے باعث امریکہ میں بھی متنازع ہیں وہ ایک ذہین سفارتکار ہیں اور امریکہ کی عالمی برتری، عالمی اداروں کو بھی امریکی مفادات کے تابع رکھنے کے حامی ہیں۔ جنوبی ایشیا کے بارے میں صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کی پالیسی اور بھارت سے امریکی اتحاد کو مزید فعال بنانے کے حامی ہیں جس کا منطقی نتیجہ پاکستان کے لئے مزید چیلنج اور مشکلات ہیں۔ ایران اور شمالی کوریا کے ایٹمی پروگراموں کے خلاف جان بولٹن کے سخت جارحانہ رویےسے پاکستانی حکمرانوں کو کسی خوش خیالی کی ضرورت نہیں کہ امریکہ کی توجہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر نہیں ہے۔پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے گرد بھی گھیرا تنگ کرنے کا کام جاری ہے مگر ہمارے سیاست دان تو انتخابی نعروں، جلسوں اور الزام تراشی کے لئے باہم دست و گریبان ہیں۔ کس قدر بڑا المیہ ہے کہ پاکستان کے اردگرد خطرات کے بادل اکٹھے ہورہے ہیں لیکن ہمارے حکمراں نہ تو خودخطرات کی شدت کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی عوام کو حقائق سے آگاہ کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ جان بولٹن جس مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور امریکی برتری کے لئے جس عقابی حکمت عملی کے حامی ہیں وہ ریکارڈ پر ہے اور اس کے تناظر میں آنے والے دنوں میں عالمی کشیدگی میں اضافہ ہوتا نظر آتا ہے۔ پاکستان کے فیصلہ ساز خاموش ملاقاتوں اور عوام سے حقائق چھپانے کی بجائے بولڈ انداز میں حقائق و خطرات سے آگاہ کریں۔ صرف اقتدار کے لئے یا انتخابی مصلحت کے لئے بیرونی عناصر سے سودے بازی یا داخلی خلفشار میں اضافہ کرنے سے ملک کی خدمت نہیں ہوتی۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین