• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مہنگے داموں کار خریدنے کے باوجود قاسم بہت پریشان تھا ،اس نے اپنی پسند کی کار لی تھی اور اسے اپنی کار کا رنگ بھی بہت پسند تھا،وہ خوشی سے ہمیں اپنی کار دکھانے آیا تھا۔لیکن ہم سے ملاقات کے بعد وہ پریشان تھا کیونکہ ہمارے ہی ایک دوست سلطان نے قاسم کو مبارکباد دینے کی بجائے کار دیکھتے ہی کہہ دیا تھا کہ کار کا رنگ منحوس ہے۔ سلطان نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہاکہ مجھے گاڑیوں کے بارے میں تو زیادہ علم نہیں ہے لیکن یہ جس رنگ کی کار لی ہے یہ رنگ بڑا منحوس ہے۔قاسم بے چارہ تھوڑا بجھ سا گیا تھا، اس کی ساری خوشی غارت ہورہی تھی ،اس نے ہمارے پاس سے اٹھ کے جانے کے تھوڑی دیر بعد ہی ہمیں فون کرکے کہا کہ سلطان نے درست کہاتھاکہ رنگ منحو س ہے گاڑی ایک موٹر سائیکل سے ٹکراگئی ہے اور موٹر سائیکل سوار خاصا زخمی بھی ہوگیا ہے جبکہ گاڑی کو بھی ڈینٹ پڑ گیا ہے ، میں پریشا ن ہو گیا،میں نے قاسم کو سمجھانے کی کوشش کی کہ شاہرائوں پر روزانہ درجنوں چھوٹے بڑے حادثات ہوتے ہیں لیکن اس کی وجہ گاڑیوں کے منحوس رنگ نہیں بلکہ ہماری اپنی کوتاہی ہوتی ہے۔ تم اپنے ذہن سے منحوس رنگ والی بات نکال دو میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ تمہاری کار کا رنگ بالکل اچھا ہے اور بڑا یونیک ہے۔بلکہ میں نے اپنے دوسرے دوست سلطان کے بارے میں یہ تک کہہ دیا کہ وہ ایک احمق انسان ہے اس نے خواہ مخواہ یہ بات کرکے تمہیں شک میں ڈال دیا ہے۔ لیکن قاسم کے دل میں سلطان کی بات گھرکرگئی تھی ۔وہ کہنے لگا علی بھائی جس روز میں نے کار خریدی تھی پہلے روز ہی اسکاایک اگلا ٹائر ایک بڑی کیل لگنے سے پنکچر ہوگیا تھا۔مجھے تو سلطان کی بات سوفیصد درست محسوس ہوتی ہے۔میں کار کو مرمت کراکے بیچ دوںگا چاہے مجھے اونے پونے داموں ہی کیوں نہ بیچنا پڑے۔میں سمجھ گیا کہ قاسم کو اس شک سے نکالنا بہت مشکل ہے وہ نفسیاتی طورپر بہت ڈسٹرب ہے اور اسی نفسیاتی دبائو کے تحت کہیں وہ بڑا حادثہ نہ کربیٹھے اس لیے میں نے زیادہ اصرار نہیں کیا اور کہاکہ ٹھیک ہے وہ گاڑی فروخت کردے۔لیکن آج تو حد ہی ہوگئی تھی کیونکہ قاسم نے ابھی گاڑی نہیں بیچی تھی کہ چکوال جاتے ہوئے سڑک پر اچانک ایک گدھے کے آجانے کی وجہ سے اس کی گاڑی ایک درخت سے جاٹکرائی تھی اور گاڑی تقریباً تباہ ہوگئی تھی اور قاسم جس کو اللہ نے محفوظ رکھا تھا اس کا یہ یقین اوربھی پختہ ہوگیا تھا کہ اس کی گاڑی کا رنگ واقعی منحوس ہے اور یہ سارے حادثات اسی منحوس رنگ کی وجہ سے ہوئے ہیں۔لیکن میرا خیال نہیںبلکہ یہ یقین ہے کہ سلطان کے ایک غلط فقرے نے قاسم کے اعتماد کو متزلزل کردیا تھا ۔وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہی اپنا اعتماد کھوکر یہ سوچنے لگا تھا کہ میں ایک منحوس کار میں سفر کررہا ہوں۔ہم اپنی روز مرہ زندگی کو دیکھیں ہم روزانہ کتنی بار ایسی غلطیاں کرکے دوسروں کی زندگیوں میں زہرگھول دیتے ہیں۔مثلاً ساس کے سامنے کہہ دیں گے کہ آپ کی بہو تو آپ کے بیٹے کے یا آپ کے خاندان کے لائق نظرنہیں آتی۔ساس چاہے اپنی بہو سے کتنا ہی پیار کیوںنہ کرتی ہو آپ نے ان کے ذہن میں ایک ایسا خطرناک بیج بودیا جو وقت کے ساتھ ساتھ تناور درخت بن جاتا ہے اور لوگوں کی زندگی جہنم بن جاتی ہے ۔میں ایسی درجنوں اور مثالیں دے سکتاہوں جو ہم روزمرہ زندگی میں اپنی نام نہاد دانشوری جھاڑ کر دوسروں کی زندگیوں کو برباد کردیتے ہیں۔ ہم دوسروں کو خواہ مخواہ کہہ دیتے ہیں کہ یار آج تمہارا رنگ پیلا یا زرد ہورہا ہے خیریت تو ہے اور وہ بے چارہ پھر ایسا حکیموں اور طبی مراکز کے چکروں میں پڑتا ہے جو واقعی اس کا رنگ زرد کرکے چھوڑتے ہیں یہ اور بات ہے کہ خوش قسمتی سے وہ کسی ایسے اچھے ڈاکٹر کے پاس چلا جائے جو اس کی درست رہنمائی کرکے اسے اس شک سے نکال لے۔ہمارے محنتی اور روز بروز مقبول ہونے والے وزیراعظم صاحب نے بھی گزشتہ روز ایک ایسا ہی بیان دیا ہے جو قومی یکجہتی اور کئی دیگر حوالوں سے ایک قابل اعتراض بیان تھا جوانہوںنے سینٹ کے نومنتخب چیئرمین کے حوالے سے دے کر ،پورے ملک کا وزیراعظم ہو نے کی بجائے، محض ایک سیاسی عداوت کا اظہار کیا ہے۔ یہ بیان ان کے عہدے اور منصب کے مطابق نہیں ہے۔ نفرتوں کے ایسے بیانات آنے والے کل تناور درخت بن سکتے ہیں اس لیے ہم سب کو ایسی بات یا بیانات سے اجتناب کرناچاہیے جو زندگی واعتماد اور حالات کو بری طرح متاثر کریں۔

تازہ ترین