• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جوڈیشل ڈاکٹرائن کا وقت آگیا

پاکستان کی جمہوری تاریخ کچھ مختلف ہوتی اگر 1947ء سے 2007ء تک عدلیہ مارشل لاء پر قانون کی حکمر انی کو ترجیح دیتی۔ لیکن 2007ء کے بعد کی عدلیہ مختلف ہے۔ وہ مضبوط کے ساتھ آزاد بھی ہے۔ یہ تمام تر اسی وقت ممکن ہوا جب تمام اسٹیک ہولڈرز ججوں سے لے کر وکلاء، سیاست دانوں سے صحا فیو ںا ور سول سوسائٹی سے لے کر عام آدمی نے مشترکہ جدوجہد کی۔ اس جدوجہد نے ’’نظریہ ضرورت‘‘ کے کالے قانون اور پی سی او کو دفن کردیا اب وقت آگیا ہے کہ منتظمہ، مقننہ اور عدلیہ ایک دوسرے کا احترام کریں اور ریاست کے چوتھے ستون کی حیثیت سے میڈیا ’’واچ ڈاگ‘‘ کا کردرادا کرے۔ اداروں کے درمیان تصادم تباہی کا راستہ ہوگا لہٰذا اس تناظر میں جوڈیشیل ڈاکٹرائن کی ضرورت ہے۔ نظریہ ضرورت کے احیاء کا ہلکا سا بھی اشارہ نقصان دہ ہوگا۔ وہ دن گزر گئے جب سیاستدان اپنے مذموم عزائم کے تحت اور مقاصد کی خاطر ’’پہلے احتساب بعد انتخاب‘‘ کے نعرے بلند کرتے تھے۔ صرف آمروں کے وارث ہی ایسے نعرے لگا سکتے ہیں۔یہ نئے جوڈیشیل آرڈر کادور ہے جو 9؍ مارچ 2007ء کو وجود میں آیا۔ اب اس کوآئے دس سال ہوگئے یہ تعمیر نو کے مرحلے میں ہے، عدلیہ اپنی ماضی کی تاریخی لغزشوں اور غلطیوں کو درست کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کے کردار پر اختلاف رائے سے قطع نظر حقیقت یہی ہے کہ ان کے ’’تاریخی انکار‘‘ سے کوئی انکار نہیں کرسکتا جب وہ سابق آمر کے سامنے ڈٹ گئے تھے جس نے سیاسی جدوجہد کے مردہ گھوڑے میں جان ڈال دی۔ اس وقت جواپنے وقت کے آمر کے ہمنوا تھے وہ بعد ازاں نواز شریف اور عمران خان کے ہم رکاب ہوئے۔ انہیں اپنے ماضی پر شرمندگی بھی نہیں۔ کل کو وہ اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے سے نہیں ہچکچائیں گے۔ اس طرح سیاسی جماعتوں کو بھی ایک مجموعی جمہوری ڈاکٹرائن وضع کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح ریاست کے چاروں ستونوں کا دفاع ممکن ہے۔ جوڈیشیل ڈاکٹرائن کی بنیاد عدالتی اداروں، جمہوریت اور قانون کی حکمر انی پر رکھی جانے چاہئے۔ سیاست داں یا حکمراں آتے جاتے رہتے ہیں لیکن اپنی روح کے مطابق جمہوریت کا چال چلن زیادہ اہم ہے۔ بلا تفریق احتساب بھی جمہوریت کی روح اور اس کا حسن ہے۔ اس کا حصول ابھی دور کی بات ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ بھی مختلف ہوتی اگر سیاسی قیادت سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرتی۔اپنے مذموم مفادات کے لئے آمروں کا دفاع نہ کیا جاتا۔ اگر بھٹو کی پھانسی عدالتی قتل تھا تو اس میں سیاست دان بھی آلہ کار بنے۔ لیکن عدلیہ کی طرح سیاست دانوں کو بھی اپنی تاریخی غلطیوں سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔ آزاد عدلیہ کے ان دس برسوں میں سیاسی یا سول قیادت نے محسوس کیا کہ عدلیہ نے اکثر منتظمہ کے دائرہ کار میں مداخلت کی۔ لیکن سوال ہے کہ ’’کیوں‘‘؟ حکومت نے آئینی ذمہ داریاں نبھانے میں اپنا کردار ادا کیا؟ ملک میں مردم شماری صرف سپریم کورٹ کے حکم پر ہی کیوں ہوئی۔ بلدیاتی انتخابات کے لئے عدالت عظمیٰ ہی کو حکم جاری کرنا کیوں پڑا، 2011ء میں ’’کراچی بدامنی کیس‘‘ کے بعد ہی آپریشن کیوں ہوا؟ اگر بڑے کیسز میں فیصلوں کا جائزہ لیا جائے جن کے سیاسی مضمرات بھی رہےتو معلوم ہوگا کہ اکثر فیصلے جمہوری اقدار اور قانون کی حکمر انی کے حق میں ہوئے۔ عدلیہ کی جانب سے ازخود نوٹس کے کثرت سے استعمال پر اختلاف ہوسکتا ہے لیکن کاش پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں بھی مسائل اور معاملات کا سیاسی ازخود نوٹس لیتیں۔ حسن حکمرانی ور اچھی نظیریں قائم کرکے عوام کو ریلیف دیا جاتا۔ پاکستان کی سیاسی قیادت کواس حقیقت کا ادراک کرنا ہوگا کہ عدلیہ متحرک اور مقبول اسی وقت ہوئی جب منتظمہ یا حکومت نے اپنا واجب کردار ادا نہیں کیا۔ سیاسی حکومتوں کے لئے یہ شرم کا مقام نہیں کہ مردم شماری اور بلدیاتی انتخابات اس وقت تک نہیں ہوئے جب تک کہ سپریم کورٹ نے حکم جاری نہیں کیا؟ 2007ء سے قبل کوئی یہ تصورتک نہیں کرسکتاتھا کہ لاپتہ افراد کے مقدمات کو اتنی سنجیدگی سے لیا جائے گا۔ اسی طرح سابق صدر پرویز مشرف کے مقدمے اور اصغر خان کیس میں بھی عدلیہ ان مقدمات کو سنجیدگی سے لے۔ جیساکہ اس نے میمو گیٹ کیس میں دلچسپی لی تھی۔ اگر تین بار کا وزیراعظم اپنی بیٹی سمیت بیمار اہلیہ کی عیادت کی اجازت نہیں پاتا تو پھر ایک ریٹائرڈ جنرل وطن واپسی پر آمادہ کیوں نہیں ہے؟ جب تک کہ اس کی مرضی کی سیکورٹی اسے فراہم نہ کی جاتی۔ پرویز مشرف کے وکیل کےا عتراض پر ایک جج کے دستبردار ہونے سے بنچ ٹوٹ گیا اور اب نیا بنچ بنانا پڑے گا۔ دو وزراءاعظم نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی نا اہل قرار دیکر گھروں کو بھیج دیئے گئے۔ ان کے انتخاب لڑنے پر پابندی لگادی گئی۔ دوسری جانب پرویز مشرف بھی تاحیات نا اہل ہوئے لیکن پھر بھی اپنی پارٹی کے بدستور سربراہ ہیں جبکہ نواز شریف کے پارٹی عہدے پر بھی پابندی لگ گئی۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے لے کر موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار تک عدلیہ نے بڑی حد تک جمہوری اقدار کا دفاع کیا۔ لیکن ساتھ میں لاپتہ افراد اور اصغر خان کیسے جیسے مقدمات کی بھی سماعت کی جو ماضی میں معمہ بنے رہے۔ گو کہ ان کی سماعت ہنوزباقی ہے لیکن عدلیہ نے کم از کم یہ تو کہا کہ 1990ءکے عام انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی۔ پیسہ تقسیم ہوا اور وصول کیا گیا۔ آئین کے آرٹیکل۔6 کے تحت پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ عدلیہ کے لئے بڑی آزمائش اور چیلنج ہے۔ یہ حقیقت ہےکہ مولوی تمیز الدین سے لے کر بھٹو، بیگم نصرت بھٹو سے ظفر علی شاہ کیس تک مشکل ہی سے کسی فیصلے میں جمہوریت کا دفاع کیا گیا ہو لیکن اس تاریک دور میں بھی عاصمہ جیلانی کیس امید کی کرن تھا۔ لیکن جمہوریت کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے بدقسمتی سے جولائی 1977ء کے مارشل لاء کو جائز قرار دیاگیا۔ نواز شریف درست کہتے ہیں کہ انہوں نے عدلیہ کوا س وقت بحال کیا جب آصف زرداری نے انکار کردیا تھا۔ پیپلزپارٹی نے اخلاقی اور سیاسی جواز کھودیا جب 2009ء میں عدلیہ مکمل بحال ہوگئی۔ سپریم کورٹ نے ایسے وقت میمو گیٹ کیس اٹھایا ہے جب نواز شریف نے اس وقت اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے فریق بننے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اگر نواز شریف آج اپنے پاناما کیس میں عدالتی فیصلے کوتنقید کانشانہ بنارہے ہیں تو پیپلزپارٹی اورآصف زرداری بھی پیپلزپارٹی حکو مت کے دوران ان کے کردار سے خوش نہیں ہیں جب یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دیا گیا۔ اگر نواز شریف اس وقت خوش تھے تو زرداری اور ان کی پارٹی کوبھی آج خوش ہونے کا حق ہے۔ کوئی یہی توقع کرسکتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ اپنی اصلاح کرے گی اور قطع نظر کون اقتدار میں ہےاپنے آزادانہ کردار کو برقرار رکھے گی۔ بہتر ہے کہ ججوں کے بجائے ان کے فیصلے بولیں۔ اگر تمام ادارے آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام اور اس عمل میں ایک دوسرے کااحترام کریں تواداروں کے سربراہوں میں ملاقات کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ 

تازہ ترین