اشفاق میمن
ملک یمن کا بادشاہ بہت نیک دل اور غریبوں سے محبت کرنے والا انسان تھا، اس کا ایک خوبصورت بیٹا، شہزادہ مراد تھا۔ جس کی دوستی وزیر کے بیٹے، یوسف سے تھی۔ دونوں بچپن سے بہت گہرے دوست تھے۔ شکار پر ایک ساتھ جانا ان کا معمول تھا۔
ایک روز جب دونوں جنگل میں شکار کھیل رہے تھے کہ اچانک شہزادے کو پیاس محسوس ہوئی اس نے یوسف کو پانی لانے کا کہا، وہ پانی تلاش کرتے کرتے ایک کنویں پر پہنچا، یہ کافی پرانا معلوم ہورہا تھا، اس نے کنویں میں جھانکا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ، کنویں میں پانی نہیں ہے، البتہ اس میں ایک چارپائی پر ایک خوبصورت شہزادی بیٹھی تھی۔ اور ایک دیو شہزادی کی گود میں سر رکھ کر سو رہا تھا، شہزادی اسے پنکھا جھل رہی تھی۔
یوسف یہ دیکھ کر فوراً شہزادے کے پاس گیا، جو پانی کا انتظار کر رہا تھا، اسے جو کچھ دیکھا تھا، سب بتا دیا۔
شہزادہ فوراً اس کے ساتھ کنویں پر گیا اور جھانک کر کنویں میں دیکھا، شہزادی سر جھکائے بیٹھی تھی۔ وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی، اسے دیکھتے ہی شہزادے نے یوسف کو حکم دیا کہ کسی بھی طرح وہ شہزادی کو کنویں سے نکالے، میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ یوسف نے ایک ترکیب سوچی اور شہزادے کو بتائی کہ، ’’میں پہلے رسے کی مدد سے کنویں میں اُتروں گا، دیو کا سر اپنی گود میں رکھ کر شہزادی کو آزاد کروا دوں گا، پھر شہزادی اسی رسے کی مدد سے کنویں سے باہر آجائے گی۔
اس کے بعد آپ ایک ریت کی بوری کنویں میں رسے کے ذریعے لٹکا دیجئے گا، میں وہ بوری اس دیو کے سر کے نیچے رکھ کر خود باہر آجاوں گا‘‘۔ شہزادے کو اس کی تجویز پسند آئی، اس پر عمل کرتے ہوئے شہزادی کو کنویں سے باہر نکال لیا، لیکن شہزادے نے اپنے دوست کو دھوکا دیا اور ریت کی بوری کنویں میں لٹکانے کی بجائے شہزادی کو لے کر وہاں سے چلا گیا۔
محل پہنچ کر بادشاہ سے درخواست کی کہ وہ ان دونوں کی جلد از جلد شادی کر دیں۔ بادشاہ نے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرواتے ہوئے شہزادی کے والدین کا پتا معلوم کر کے، انہیں محل میں بلوایا، کچھ ہی دیر میں شہزادی کے والدین آ گئے۔ بادشاہ نے اپنے بیٹے کی خواہش کا اظہار کیا۔ شہزادی کے والدین کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ جلد ہی ان کی شادی ہو گئی۔
دوسری جانب کافی دیر گزر جانے کے باوجود جب شہزادے نے ریت کی بوری نہ لٹکائی تو یوسف کو اندازہ ہوگیا کہ شہزادہ اسے دھوکا دے کر شہزادی کے ساتھ چلا گیا ہے۔ اب اسے ڈر تھا کہ کہیں دیو اُٹھ نہ جائے، اگر وہ اُٹھ گیا تو شہزادی کو ڈھونڈے گا اور جب وہ اسے یہاں نہیں ملے گی تو غصے سے آگ بگولہ ہوجائے گا۔ یوسف اپنی سلامتی کی دعا کرتے ہوئے اسے پنکھا جھلتا رہا۔
چار پانچ گھنٹوں کے بعد جب دیو کی آنکھ کھلی تو یوسف سہم گیا۔ دیو یہ دیکھ کر حیران تھا کہ جب سویا تھا تو شہزادی تھی اور انکھ کھی تو یہ لڑکا ہے، جو نہ جانے کون ہے! اور شہزادی کہاں ہے۔ اس نے یوسف سے پوچھا کہ، ’’تم کون ہو، یہاں کیا کر رہے ہو اور میری شہزادی کہاں ہے؟‘‘۔ یوسف اس قدر ڈر گیا تھا کہ اس نے سب کچھ دیو کو بتا دیا۔
دیو کو یوسف کی باتیں سن کر غصہ تو بہت آیا لیکن اس نے یوسف کو کچھ نہیں کہا، کیوں کہ غلطی یوسف کی نہیں شہزادے کی تھی، اس نے تو صرف ایمانداری سے دوستی نبھائی تھی۔
دیو دھاڑتے ہوئے کہنے لگا کہ، ’’جی تو چاہ رہا ہے تمہیں ابھی کچا کھا جاؤں مگر مجھے تم پر رحم آ رہا ہے کہ تم نے خود غرض اور مکار شہزادے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالی، یہ کیسی دوستی ہے! آؤ میں تمہیں دوستی کی ایک سچی اور مثالی کہانی سناتا ہوں، پھر تمہیں اندازہ ہوگا کہ دوستی کیسی ہوتی ہے‘‘۔ یہ کہہ کر دیو نے کہانی شروع کی۔
(جاری ہے)