• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں سیاسی استحکام، قومی اقتصادیات کی بحالی، امن عامہ کا قیام اور سماجی انصاف کی فراہمی، ترقی جاریہ (Sustainuble Development)کی حامل حقیقی ترقی کرتی ریاست میں رواں دواں ہونے کے مانند کیوں جاری و ساری نہیں رہتی؟ دکھاوے کے دوچار علامتی قدم بڑھا کر ہرمرتبہ ہم آٹھ دس قدم پیچھے کی جانب کیوں پھسل جاتے ہیں؟ یقیناً ’’اسٹیٹس کو‘‘ میں ڈھل جانے والی اس مستقل صورتحال کی بڑی ذمے داری تو بالآخر حکومتوں اور حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے، لیکن عوام پر بھی کوئی کم نہیں۔ یوں کہ شرح خواندگی کی اور تعلیم کی کمی، پھر نظام تعلیم کی گمبھیر حالت کے باعث سماجی رویے کی پیچیدگی اور اس میں مزید بگاڑ کا عمل سماجی پسماندگی کے زور پر ہی جاری ہے۔
پاکستانی معاشرے میں ابتدا سے ہی ایسے منفی رجحانات، سماجی عادات اور رسم و رواج تو موجود تھے جنہیں ہمارے بیمار سماجی رویے کے اجزا ترکیبی کے طور پر بھی سمجھنا اور اس کا تجزیہ ہماری اہم قومی ضروریات اور ترجیحات میں سے ایک ہے، کیونکہ ان عناصر سے مل کر تشکیل پانے والے ہمارے گنجلک اور گھمبیر سماجی رویے کے یہ عناصر (اور بحیثیت مجموعی ہمارا سماجی رویہ بھی) حکومت و سیاست سے لے کر نظام تعلیم، صنعت و تجارت غرضیکہ ہر شعبہ زندگی میں سرایت کر گیا ہے۔
آج ملک میں اسی بیمار سماجی رویے کا غلبہ ہے۔ محنت و دیانت اور اپنی قدرتی صلاحیت کے بجائے خوشامد، صاحبان اختیار کی مہلک جی حضوری، حکومتی ایوانوں سے لے کر نیچے کے بڑے چھوٹے ایوانوں میں دھڑے بندی، چاپلوسی، ہر حالت میں تائید، اپنے سے زیادہ دوسروں پر نظر اور اپنے پر دوسروں کے نوٹس کا دبائو اور خوف، یہ سب کچھ کیا ہے؟ ہمارے بیمار سماج کے اجزائے ترکیبی۔ معمولی معمولی تعاون اور فرائض کی ادائیگی سے سائلین کو اپنے زیر احسان لا کر انہیں غلط راہوں پر لگانا۔ جیسے ہمارے سیاست دان حکمران، انتظامی افسران کو اور افسران سیاست دانوں کو دام میں لا کر جو کچھ عشروں سے مملکت کے ساتھ کررہے ہیں، اس میں ہماری سماجی پسماندگی سے حکومت سازی، ادارہ سازی و قانون سازی ان کی سربراہی گویا ٹوٹل گورننس نے عوام دشمن اور ناجائز مراعات یافتہ طبقے کو مسلسل اور مزید نوازتے رہنے والے ظالمانہ نظام بد (اسٹیٹس کو) کی شکل اختیار کرلی ہے۔
انسانی زندگی اور معاشرے کی یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ فقط برائی اور بدی ہی اپنی جگہ بنا اور پھیلا نہیں سکتی۔ مغلوب اچھائی کی بھی اپنی اک طاقت اور حقیقت ہوتی ہے یہ کبھی قدرتی راستوں سے تو کبھی بدی کے منطقی انجام کی صورت میں اپنا رنگ ڈھنگ دکھاتی ہے۔
پاکستان (کاغذوں میں اسلامی جمہوریہ ) آج کے دور کی ایسی ہی مملکت ہے، جہاں کمزور اور غریب اور متوسط اور امیر طبقات پھر محروم و مقتدر طبقات کے مجموعی، منفی، سماجی رویے سے تیار ہماری معاشرتی پسماندگی گلی گائوں اور بازار سے لے کر ایوان ہائے حکومت و سیاست تک Institutionalizedہو کر جامد نظام کی شکل اختیار کر کے اپنے انتہائے عوام دشمن رنگ (بشکل کرپشن کی انتہا، حکمرانوں کے ہاتھوں لاقانونیت اور سیاسی پسماندگی) دکھانے پر اپنے منطقی انجام اور نکلتی قدرتی راہوں سے چیلنج ہوگئی ہے۔
ہماری تباہ کن من گھڑت جمہوریت کے تباہ کن نتائج ہمارے سامنے ہیں کہ قوم اپنے حکمرانوں کو نظریاتی سمجھتے ہوئے عشروں نظریاتی دھڑے بندی میں رہی۔ اب پتہ لگ رہا ہے کہ وہ حکمران جو قوم کے دو منقسم دھڑوں (دائیں بائیں) کو اپنی سیاست، حکمرانی، سیاسی تجارت، تجارتی سیاست، خاندان کو ’’حکمران خاندان‘‘ بنانے میں کمال مکاری سے استعمال کرتے رہے۔ وہ تو خود نظریاتی تھے ہی نہیں۔ اب زیر عتاب و احتساب ہونے پر ان کا کہنا ہے کہ ’’وہ اب نظریاتی ہوگئے ہیں‘‘ اور سدا متنازعہ رہنے والی محدود علاقائی سیاست و قیادت کے مقلد۔ جب فوجی آمریت، تحریکی سیاست دانوں کی مشاورت ’’پہلے احتساب پھر انتخاب‘‘ (ضیائی مارشل لاء آنے پر مرحومین ولی خان اور چودھری ظہور الہٰی کا پاپولر نعرہ) پر عملدرآمد کی فصل کا پھل ن لیگ کی شکل میں نکلا تھا۔ پھر ن لیگ نے دوسرے دھڑے کے ساتھ جو کچھ کیا اور جو رنگ معتوب دھڑے نے اپنی سیاسی پسماندگی بشکل کرپشن زدہ حکمرانی سندھ کارڈ اور دھماچوکڑی سے دکھایا وہ ملک و قوم خود ن لیگ اور پی پی کو برباد کرتی اجاڑتی بناتی اور بناتی اجاڑتی۔ پھر ن لیگ اپنے وفاق میں تیسرے اور پنجاب میں پانچویں دور میں اسی راہ پر چلتی قدرتی اورمنطقی انجام سے دوچار ہے۔ پس منظر میں بڑے بڑے دانشوروں سمیت کروڑوں دھوکا کھاتے رہے کہ وہ کسی نظریاتی سیاست سے منسلک ہیں، جن سے تیار ہوئی اک ’’عوامی سیاسی قیادت‘‘ نے اب اچانک خود کو بے نقاب کیا کہ وہ پہلے تو کبھی نہیںتھی اب نظریاتی ہوئی ہے۔ وضاحت کے بغیر پھر ’’نظریاتی قیادت‘‘ کا جو مظاہرہ ہوا، اس کا ابلاغ پوری قوم کو یہ نہیں ہوا کہ ’’علاقائی سوچ‘‘ پاکستان میں قومی سیاسی سوچ اور اپروچ جاری ہے؟
ماضی میں بھی اسی انداز سیاست سے بدتر حکومتیں اور حکمرانی برآمد ہوتی رہیں اور ملک پہلوانی سیاست سے اکھاڑہ بنارہا۔ ایسے میں سیاسی استحکام کیسے ہوتا، قومی اقتصادیات کی بحالی کیسے ہوتی، ہوتی تو قائم کیسے رہتی۔
ایک بڑی وجہ ہماری قومی سماجی پسماندگی کے اتنے Institutionalizedہونے اور ہمارے پوٹینشل کو دبا کر غالب ہونے کی ہمارا بیمار نظام تعلیم ٹھہرا، جسے ہمارے مقتدر طبقے نے پہلے بیمار کیاپھر نظام میں ڈھال دیا۔ اب عدالتی نظام کا بچا کھچا پوٹینشل بڑی ہمت و جرات سے سارے آوے کو درست کرنے کی جسارت کر بیٹھا ہے تو معنی خیز ملاقاتوں سے اس ہمت کو مشکوک اور کمزور کرنے کا انداز حکمرانی بھی کیسا حربہ ہے؟ کہ کتنے ہی اہم اور سنجیدہ موضوعات کو نظر انداز کر کے میڈیا، سیاست دان اور قوم ’’ملاقات‘‘ پر لاحاصل توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔
70سال سے ہماری بنی گنجلک تاریخ کا عمل تو نکلی قدرتی راہ پر چلتے (راہ احتساب و حساب) ختم ہوتا معلوم دیتا ہے۔ ن لیگ، پی پی، ایم کیو ایم اور مذہبی سیاسی جماعتوں جیسی روایتی سیاسی قوتوں نے ملک کو جو دینا تھا دے دیا اورجو اس سے لینا تھا وہ بھی تمام ہوا۔ نہ دیا کم نہ لیا کم۔ قوم جانتی ہے اور خوب جانتی ہے کہ کس نے کیا دیا اور کیا لیا۔
اب آگے چلئے۔ مختلف چال سے چلنے اور مطلوب راہ لینے کا تقاضا ہے کہ پاکستان کو آئین کی مکمل اختیاریت اور قانون کےسب شہریوں پر یکساں نفاذ نیز گورننس کو علوم اور ٹیکنالوجی سے جوڑ کر آگے چلایا جائے۔ یہ کر گزرے تو ملک ایسا چلے گا ایسا چلے گا کہ کوئی روک نہ سکے گا۔ الیکشن 18کے میدان انتخاب میں اترنے والے بتائیں گے؟ کہ وہ اس جنگی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے کیا کریں گے؟ اور کیسے کریں گے؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین