• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بارسلونا کی معروف شاہراہ ’’ لا رامبلہ ‘‘ جس پر روزانہ لاکھوں افراد چہل قدمی کرتے ہوئے تاریخی نوعیت کی حامل عمارات اور جدید ہسپانوی طرز تعمیر کے شاہکار دیکھتے ہیں ، شاہراہ کے درمیان میں ’’ پکاسو ‘‘ کے آرٹ پر مبنی تصویر ، آرکٹیکٹ ’’ گاؤدی ‘‘ کی یادیں ،لی سیو تھیٹر ، کولمبس کا مجسمہ ، پلاثا کاتالونیا کے فوارے ،فلامینکو ڈانس اورمختلف ٹریڈ مارک کے شاپنگ سینٹرز دنیا بھر سے اسپین آنے والے سیاحوں کی دلچسپی کا باعث ہیں ۔لا رامبلہ پر 24گھنٹے آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے ، آپ کو یہ پڑھتے ہوئے یقیناََ حیرانی کا احساس ہوگا کہ انسانوں کے اس سمندر کی حفاظت کے لئے نہ تو وہاں کوئی رینجرز ہے ، نہ کوئی فوجی اور نہ ہی پولیس کی بے تحاشہ گاڑیاں گشت کرتی ہیں ۔ایک یا دو پولیس والے کبھی کبھار اس شاہراہ پر ایک طرف سے دوسری جانب جاتے نظر آتے ہیں ، عوام اُن کا احترام کرتے ہیں ، اُن کی ڈیوٹی میں رکاوٹ پیدا نہیں کرتے، کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی واردات بلکہ واردات کی نیت رکھنے والے بھی پولیس والوں کو دیکھ کر اپنا منفی ارادہ ترک کر دیتے ہیں ۔بچے اور خواتین ہسپانوی بازاروں میں پیدل گشت کرنے والے پولیس والوں کی وجہ سے اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں ۔اسپین میں مقیم مرد بھی پولیس پر مکمل اعتماد کرتے ہیں ، اُن کے کام سے مطمئن ہیں ،وہ پولیس ملازمین کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ پولیس والے کسی کی سفارش مانیں گے اور نہ ہی مجرم کو چھوڑیںگے ،شہریوں کے جان و مال کا تحفظ اور عزتوں کی پہرے داری بھی اُن کے فرائض میں شامل ہے ۔لاکھوں لوگ اُن پولیس والوں کی بات مانتے ہیں کیونکہ وہ بات قانون کی ہوتی ہے نہ کہ اُن پولیس والوں کی کوئی ذاتی بات ۔ہم عرصہ دراز سے اسپین میں مقیم ہیں اور اُن پولیس آفیسرز کی عزت و تکریم کے عینی شاہد بھی ۔چند دِن پہلےا سپین سے لاہور پہنچے ، جہاز سے اُترے اور امیگریشن ڈیسک کی جانب چل پڑے تاکہ پاسپورٹ پر وطن عزیز میں داخلے کی مہر لگوا لیں ،لمبی لائن تھی جس میں ہم بھی اپنی باری کے انتظار میں کھڑے ہوگئے ،لائن آگے چلنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی ، معلوم ہوا کہ ایف آئی اے ، پی آئی اے ، کسٹم اور اے ایس ایف ملازمین کے جاننے والوں کو پہلے اور بغیر لائن کے کلیئر کیا جا رہا ہے ، سوچا کہ ہم بھی اگر اپنا پروٹوکول لگوا لیتے تو وقت کے ضیاع سے بچ جاتے ، لیکن نہیں ہم نے تہیہ کیا ہوا تھا کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لینا ۔کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے ، ہماری باری بھی آ گئی پاسپورٹ پر مہر لگی اور ہمیں اپنے ملک میں داخل ہونے کی کلین چٹ مل گئی ،سامان لینے کے لئے بیلٹ پر پہنچے تو ایئر پورٹ کے کئی ملازمین ہمیں گھیرکر کھڑے ہوگئے کہ صاحب ہم آپ کا سامان باہر لے کر جائیں گے ، ہم نے کہا کہ بھائی ہم خود ’’ہٹے کٹے ‘‘ہیں اپنا سامان اُٹھا سکتے ہیں ہمیں مدد کی ضرورت نہیں ، سامان اُٹھانے والے بولے جناب آپ کو نہیں لیکن ہمیں مدد کی ضرورت ہے ،ہم بات سُنی ان سنی کرتے ہوئے اپنا سامان خود ہی لے کر باہر نکل گئے ،باہر دوست احباب استقبال کے لئے موجود تھے ہم اُن سے بغل گیر ہوئے تو اِس اثناء میں سامان اُٹھانے والا ایک بوڑھا شخص ہمارے سامان والی ریڑھی لے کر چل پڑا ،دوستوں کو وہیں چھوڑا اور ریڑھی لے جانے والے کو چھلانگ لگا کر دبوچا، سمجھے کہ کوئی چور اُچکا ہے لیکن لوگوں نے سمجھایا کہ یہ صبح سے یہاں کھڑا ہے آپ اس کے پہلے گاہک ہو اِس کی مدد کر دو ،ہم بولے کہ بھائی ہمارے پاس غیر ملکی کرنسی ہے ، چور نُما سامان اُٹھانے والے صاحب بولے کوئی بات نہیں ہمیں آپ یوروز بھی دے سکتے ہیں ، ہم اُن صاحب کا منہ دیکھتے رہ گئے اور سوچنا شروع کر دیا کہ موجودہ حکومت کی اعلیٰ کارکردگی کی بنا پر پاکستان اتنی ترقی کر گیا ہے کہ اب لوگ مدد بھی یوروز میں مانگتے ہیں ۔ایئر پورٹس کسی بھی ملک کا آئینہ ہوتے ہیں وہیں سے ملک کی اقتصادی حالت ، ترقی اور اقتصادی و معاشی کیفیت کا پتا چلتا ہے ، غیر ملکی اسی راستے سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اگر وہ دیکھیں گے کہ لائن ضروری نہیں اور سامان اُٹھانے بلکہ چھیننے والے امداد لینے کے لئے گھات لگائے بیٹھے ہیں تووہ ہمارے بارے میں کیا سوچیں گے ۔بات ہو رہی تھی پولیس کی عزت کے حوالے سے، تو ہم بذریعہ کار مال روڈ سے ہوتے ہوئے نہر کنارے علامہ اقبال ٹاؤن کی جانب جا رہے تھے ، کڑی دُھوپ اور بغیر سائے کے کھڑے ہوئے پاکستانی پولیس مین ٹریفک کو کنٹرول کر نے کی ناکام کوشش کر رہے تھے ،کوئی اُن کی بات یا اشارے کو نہیں مان رہا تھا ،کوئی پولیس مین کو عزت و احترام کی نگاہ سے نہیں دیکھ رہا تھا ، عوام انتہائی بد تمیزی پر مبنی دور ہٹ جانے کے لئے اُلٹا پولیس مین کو اشارے کر رہے تھے ۔ ایسا کیوں ہے ؟پاکستان میں پولیس مین کا احترام کیوں نہیں ؟ حالانکہ وہ پولیس مین بھی ہم میں سے ہیں ، ان کے بیوی بچے ہیں ، ماں باپ ہیں ، بہن بھائی ہیں ، لیکن ہمارےعوام کی سوچ تمام پولیس والوں کو ایک جیسی اور منفی کسوٹی پر رگڑتی ہے ، کیوں ؟ جب کوئی پولیس مین کسی بم دھماکے یا دہشت گردی کی بھینٹ چڑھتا ہے تو اُس کو شہید کا درجہ دیا جاتا ہے ، اُس کے جنازے میں حکمرانوں سمیت ہزاروں پاکستانی موجود ہوتے ہیں ، لیکن زندہ پولیس مین کو عزت دینا ہم اپنی توہین سمجھتے ہیں ، کیوں ؟اگر کوئی پولیس مین مجرمانہ حرکت کا مرتکب ہو تو سزا اُسے ملنی چاہئے لیکن ہم اُس جرم کی سزا سارے پولیس ڈیپارٹمنٹ کو دینے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں ، کیوں ؟ ان سوالات نے گھیرا ڈال لیا تو ہم نے اپنے دیرینہ دوستوں ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹرز پنجاب شہزادہ سلطان ، سی پی او فیصل آباد اطہر اسماعیل اور ایس ایس پی ایڈمن رانا ایاز سلیم سے ملاقات کی اور پوچھا کہ پولیس پر تنقید کرنے ، اس محکمے کو خلائی اور انجان مخلوق سمجھنے والے اپنی حفاظت پر ماموردہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے والے پولیس مین کی شہادت کے بعد اُس کی بیوی ، یتیم بچوں اور بوڑھے ماں باپ کے لئے کچھ امدادکرتے ہیں یا اِنہیں صرف تنقید ہی کرنی آتی ہے ؟میرے دوستوں نے جواب دیا کہ پولیس کے محکمے نے حکومت وقت اور اپنے فنڈز سے ایسا اہتمام کر لیا ہے کہ اب کسی شہید یا طبعی موت مرنے والے پولیس ملازم کے لواحقین اپنے آپ کو کبھی تنہا محسوس نہیں کریں گے لواحقین کیلئےمکان ، سہولتیں ، بچوں کی تعلیم ، معاشرے میں اعلیٰ مقام اور روزمرہ زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے پنشن اور دوسرے پیکیج مختص کر دیئے گئے ہیں ، شہید کی بیٹیوں کو جہیز اور اُن کے سروں پر باپ کی شفقت والا ہاتھ رکھ کر رُخصت کیا جاتا ہے تاکہ اُسے یہ احساس نہ ہو کہ وہ یتیم ہے ،اپنے پولیس آفیسرز دوستوں کے یہ جوابات سن کر دل کو سکون مل گیا ، اور سوچا کہ کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے ، وہی خدا ہے ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین