دوسری قسط
رئیس امروہوی مراد آباد منتقل ہوئے، تو دس گیارہ برس کے جون اُنھیں ملنے، دیگر اہلِ خانہ کے ہم راہ امروہہ سے آئے۔ ایک روز جون کو خیال آیا کہ بڑے بھائی کی مدد کی جائے۔چناں چہ انھوں نے رئیس کی کاپیاں اور رجسٹر الماری سے نکالے اور بڑی احتیاط سے اُن کے لکھے ہوئے صفحات پھاڑ ڈالے۔ اُن صفحات پر اشعار اور دیگر تخلیقی کام لکھا ہوا تھا۔ یوں جون کی نظر میں لکھے ہوئے صفحات پھاڑ ڈالنے کے بعد کاپیاں صاف ستھری ہوگئی تھیں۔ جب شام کو رئیس واپس آئے اور جون نے اُنھیں شرماتے شرماتے یہ کارنامہ سنایا اور داد کے منتظر ہوئے، تو رئیس نے اپنے کام کو ضائع دیکھ کر غیظ وغضب میں زندگی میں پہلی مرتبہ انھیں تھپڑرسید کیا۔
جون کے مزاج میں ضد کے ساتھ طنز اور لااُبالی پن نے کچھ ایسا رنگ جمایا کہ وہ اپنی ذات میں انجمن اور فردِ واحد میں افراد ہو گئے۔ لڑکیوں سے شرمائے رہنا، اُن سے توقع رکھنا کہ وہ سامنے کچھ کھائیں پئیں نہیں اور تصوّراتی دوشیزہ اور محبوبہ کے مانند بنی رہیں، لڑکوں بالوں سے بے لحاظ ہوجانا، بے وجہ مسکرانا اور بے وقت رقّت طاری کرلینا ان کے مزاج کا حصّہ بن گئے۔بعض اوقات ایسی بے مروّتی طاری ہوجاتی کہ ایک دفعہ کوئی لڑکا شاعری پر اصلاح لینے گیا، تو اُس کی کاپی کا شاعری والا صفحہ پھاڑ کربولے ’’میاں بالے! بھول جاؤ، یہ تمھارے بس کا کام نہیں۔جاؤ کرکٹ کھیلو، فلمیں دیکھو، لونڈیوں سے عشق لڑاؤ ،مگر شاعری پر رحم کرو۔ یہ ایرے غیرے کا کام نہیں۔‘‘
اسی طرح ایک مرتبہ گھر پر منعقد ہونے والی ادبی نشست میں ایک نوآموز شاعر نے غزل میں لفظ ’’کِرچی‘‘استعمال کیا تھا۔یہ لفظ سن کر جون نے تحکّم سے اُسے بیٹھ جانے کو کہا۔ وہ بیٹھ گیا، تو جون نے اپنی بھتیجی ریحانہ کو آواز لگائی۔’’ریحانہ بتا، جب امروہے میں کئی دن تک لگاتار بارش ہوتی تھی، تو اماں ہم سے کیا کہلواتی تھیں؟‘‘ریحانہ نے جواب دیا’’چھلنی میں مرچیں،بادل کی کرچیں۔‘‘جون ترت لڑکے سے بولے’’بالے،سنا کچھ۔ ہماری امّاں پڑھی لکھی نہیں تھیں، مگراردو غلط نہیں بولتی تھیں۔
کِرچی غلط ہی نہیں، بالکل غلط ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ غزل پھاڑ کر پھینک دو۔‘‘جون کو لڑکپن ہی سے مطالعے کی لَت اور فلسفیانہ موشگافیوں میں سر کھپانے کی عادت تھی۔ تجسّس اور سیکھنے کا شوق ایسا کہ اردو، عربی اورفارسی میں حقیقی طور پر رواں، انگریزی اورعبرانی کی شُدبُد، ادب، فلسفے اور لسانیات میں مہارت، دیگر علوم پر مناسب دست رس رکھتے تھے۔ بچپن سے صحت ایسی تھی کہ ہلکا پھلکا سا بھی کھا لیتے تو معدے پر ایسی گرانی ہوتی کہ صحن میں تخت پر لیٹ جاتے۔
مزاج میں مبالغہ ایسا کہ اپنے لیے وہی تاریخِ پیدایش منتخب کی، جو حضرت علی ؓ کی تھی، یعنی تیرہ رجب۔ خود شاعر تھے، شاعری سے محبت تھی، پر شاعروں سے کد تھی۔ غالب کو پچیس اشعار کا شاعر مانتے تھے۔ یعنی غالب نے فقط پچیس قابلِ ذکر اشعار کہے تھے۔ البتہ میر تقی میرؔ کے عاشقِ صادق تھے۔ اپنے آپ کو سب سے برتر مانتے تھے۔ اپنے والد کو اپنے آپ سے بھی برتر کہتے تھے۔ اداکاری تھیٹر میں بھی فرماتے تھے اورزندگی میں بھی۔امروہہ میں تھیٹر میں باقاعدہ اداکاری کرتے رہے تھے، پہلوانی کا بھی شوق تھا۔
ایک مرتبہ امروہے میں مشاعرہ تھا۔ گرمیوں کے دن تھے، رات کا وقت۔ ہوا تھمی ہوئی تھی، حبس کا عالم کہ دم گھٹتا تھا۔ مشاعرے کے لیے شاعروں کی آمد جاری تھی۔ نوجوان شاعر، جون ایلیا کا انتظار تھا۔ اتنے میں عجب حلیے کے ایک صاحب پنڈال میں داخل ہوئے۔ اس گرم رات میں انھوں نے اوور کوٹ زیب تن کرکے، شب کی تاریکی میں سیاہ چشمہ لگا رکھا تھا۔ وہ انتہائی سنجیدگی اورمتانت سے چلتے ہوئے اسٹیج کی جانب بڑھ گئے۔
منتظمین نے غور سے دیکھا، تو معلوم ہوا کہ وہ پراسرار اجنبی، جون ایلیا صاحب ہی تھے۔ امروہہ کی بہت دل چسپ روایات تھیں۔ جب مہمان کسی شادی والے گھر کرائے کی سواری پر آتے، تو یہ میزبانوں کی ذمّے داری ہوتی کہ کرایہ دیں۔ اسے شگون مانا جاتا تھا، البتہ اگرکسی مرگ والے گھر جایا جاتا، تو کرایہ خود ادا کیا جاتا تھا۔ شاہانہ رئیس ایلیا نے ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ ایک شادی کے موقعے پر دلہن کو ڈولی میں روانہ کرنا تھا۔ رخصتی کا وقت آیا، تو دلہن کی ماں اور بڑی بہن کی کہاروں کے ساتھ کرائے پر بحث شروع ہوگئی۔خوب گرما گرمی ہوئی، تب جاکر ڈولی اُٹھی۔
بعدازاں، یہ عقدہ کھلا کہ ڈولی اٹھتے وقت بحث ایک قاعدہ تھا۔ بھلے طے شدہ کرائے سے زیادہ پیسے دیے جائیں، پر تکرار اس تقریب کا لازمی جزو ٹھیرا۔ امروہے کے لوگوں میں فن کاری کی پزیرائی حد درجے تھی۔ ہر شخص کے اندر کا فن کار نمایاں ہوجاتا۔ یہاں تک کہ گھریلو خواتین شادیوں میں سہاگ لکھ لیا کرتی تھیں۔ قصّہ کاری کا یہ عالم کہ ان کے آبائی قبرستان میں جون کے والد کی قبر کے پاس ایک پیڑ نما پودا تھا۔ اسے ’’بی بی بخوئی کی چوٹی‘‘ کہا جاتا تھا۔ شنید ہے کہ جب بی بی بخوئی کے لیے کسی نواب کے بیاہ کا پیغام آیا، تو وہ شرمندہ ہوگئیں کہ اُن کے والد شاہ ولایت تو درویش اور صوفی آدمی ہیں۔
ایک رئیس سے بیاہ اُن کے والد کی توہین ہے۔ یہ سوچ کر کہ پیغام خود بی بی کی وجہ سے آیا ہے، وہ بہت شرمندہ ہوئیں اور دُعاکی کہ زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائیں۔ دعا قبول ہوئی، زمین پھٹی اور وہ اُس میں اِس طرح سمائیں کہ چوٹی باہر رہ گئی۔ وہ درخت نما پودا بی بی بخوئی کی وہی چوٹی تھی۔ اُس پر ایک دَور میں الائچی دانے لگتے تھے۔گرمیوں کی توَے کی طرح گرم تپتی دوپہروں میں سینگی بائی کوٹ اور ہبوڑے امروہہ کی گلیوں میں پِھرا کرتے تھے۔سیاہ رنگت، سرخ آنکھیں، گلے میں رنگ برنگے منکوں کی مالائیں ڈالے سینگی بائی کوٹ، جونکیں لگاتے تھے تاکہ فاسد خون نکل جائے۔
جب لوگ لُو کے لپٹوں سے بچنے کے لیے گھروں میں آرام کرتے یا سایہ ڈھونڈتے ہبوڑے خاموش گلیوں میں آوارہ گردی کرتے تھے۔لڑکپن میں جون کا تخیّل بھی تصوّر کی گلیوں میں پھرا کرتا۔ انھوں نے ایک تصوّراتی لڑکی ’’صوفیہ‘‘ کا خیال تراش رکھا تھا۔ اُسی سے عشق میں مبتلا تھے اور باتیں کیا کرتے تھے۔ تصوّر کی رسائی کا یہ عالم تھا کہ پسندیدہ شعرا، میر تقی میرؔ کے استثنا سے سوا، قدیم بابل، فارس اور جزیرہ نُما سے تعلق رکھتے تھے اور جون فکری طور پر تبھی سے ان میں زندگی بسر کرتے تھے۔ نوعمری ہی میں جون کو ’’پریا‘‘ نام کی ایک حقیقی لڑکی سے عشق ہوگیا۔
اس کی رنگت گوری، مگر چہرے پر چیچک کے داغ تھے۔ وہ جون سے اشعار سن کر لکھ لیا کرتی تھی۔ جون سے عمر میں بڑی تھی اور ایک دوسرے لڑکے کی محبت میں گرفتار تھی۔ سو، اُس لڑکے کو جون سے سنے اشعار لکھ بھیجتی تھی۔ جون پر تویہ راز تب کھلا، جب اُس لڑکی کی شادی اپنے محبوب سے ہوگئی۔ محلّے بھر کی لڑکیاں، بالیاں جون سے سہاگ، قصیدے، غزلیں لکھوایا کرتیں۔ جون کو دوسری محبت ایک منگنی شدہ لڑکی سے ہوئی۔
وہ بھی جلد بیاہ کر چلی گئی۔ اب جون تھے،اُن کی یادیں، شاعری تھی اور غم غلط کرنے کے ذرائع۔ اُس معاشرے میں ذاتی ملکیت پر اجتماعی ملکیت کو فوقیت حاصل تھی۔ ’’میں‘‘،’’میرا‘‘،’’میری‘‘ وغیرہ ایسے الفاظ غیرمہذّب، کرخت، پرُتکبّر سمجھے جاتے اور ’’ہم، ہمارا، ہماری‘‘ یا دیگر باہمی ملکیت کے الفاظ برتے جاتے تھے۔
جون نے لڑکپن ہی میں امروہہ میں بہ طور شاعر ایک پہچان بنانا شروع کردی تھی۔ دن کو پہلوانی اور تن سازی کرتے، رات میں مشاعروں میں شریک ہوتے۔ حلیے کے علاوہ مشاعرے میں حرکات بھی جدا ہوتی تھیں۔ کھچا کھچ بھرے مشاعرے میں اشعار سناتے سناتے رُک جاتے اور کسی سامع کو دیکھ کر آواز لگاتے ’’ارے نذر تُم… یہاں؟ پچھلی مرتبہ تمھارے ہاں خوب لطف رہا۔ بھئی میزبانی تو تم پر ختم ہے۔ کیا خوب آم کا اچار کھلایا تھا۔‘‘قیامِ پاکستان کے وقت وہ اور ان کی بہن ہندوستان ٹھیرگئے تھے۔
دیگربھائی پاکستان چلے آئے۔ رئیس امروہوی ’’جنگ‘‘ اخبار میں قطعات، سیاسی، سماجی کالم لکھنے لگے۔ سیّدمحمدتقی ادارتی شعبے کی سربراہی پر فائز تھے۔
رئیس امروہوی نے گاندھی جی کے قتل کے دن ایک فی البدیہ قطعے سے باقاعدہ قطعہ نگاری کا آغاز کیا۔ وہ نہایت قادرالکلام شاعرتھے، چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے شعر کہنے کی قدرت انھیں حاصل تھی۔ گاندھی جی کی موت پرانھوں نے جو قطعہ کہا،وہ کچھ یوں تھا؎ زیست کی جس نے امید تھی باندھی.....لے اُڑی اُس کو موت کی آندھی.....گالیاں کھاکے، گولیاں کھا کے.....مر گئے اُف، مہاتما گاندھی۔
روزنامہ جنگ کے مالک، میرخلیل الرحمان نے، جو خود بھی ایک شان دار صحافی تھے، رئیس صاحب سے پوچھا کہ کیا آپ ملک کے سیاسی وسماجی واقعات پر روز ایک قطعہ لکھ سکتے ہیں۔رئیس صاحب کے ہامی بھرنے پر یہ سلسلہ شروع ہوگیا۔ روزایک قطعہ، ملک کے سیاسی سماجی حالات کی ترجمانی کرتا ہوا، کبھی طنز، کبھی مزاح سے مرصّع، ایسی کاٹ کہ اللہ اکبر، کوئی شبہ نہیں، سبھی ناقد اعتراف کرتے ہیں کہ رئیس امروہوی نے قطعہ نگاری کے فن میں کیا کیا تجربے کیے۔انھوں نے کئی بے مثال قطعات کہے، پھر جنگ کے ہم عصر اخبارات نے جنگ کی پیروی میں قطعہ نگاری کو مستقل جگہ دینی شروع کردی، مگر کوئی بھی رئیس امروہوی کا ہم سر نہ ہوسکا۔
کسی فن کار، قلم کار کی وفات پر ایک رسمی جملہ ادا کیا جاتا ہے کہ اُس کے خلاکا پرُ ہونا مشکل ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ رئیس امروہوی کے انتقال کے بعد اُن جیسا باکمال قطعہ نگار سامنے نہیں آیا۔ اخبار ِجہاں نے رئیس امروہوی کی زندگی میں اُن کے قطعات کے تین مجموعے شایع کیے تھے، جو اَ ب نایاب ہیں۔
بھارت میں جون کے دن، تنگ دستی میں گزرے۔ سیّدتقی اور رئیس امروہوی اُنھیں اخراجات کے لیے پیسے بھیجتے تھے۔ اپنی تساہل پسندی کے باعث جون نے جم کر کوئی ذریعۂ روزگار اختیار نہ کیا۔ اُنھیں اپنی ماں اور بہن کے اخراجات بھی اٹھانا تھے۔وہیں انھیں تپِ دق نے آلیا۔ جب فروری، 1957ء میں کراچی آئے، تو بہت بیمار تھے، خالی نظروں سے گردونواح کو تکتے رہتے۔ یوں لگتا تھا، جیسے ان کا جسم توکراچی آگیا ہے، پر وہ اپنی روح امروہہ چھوڑ آئے ہیں۔
پاکستان میں رئیس صاحب ’’شیراز‘‘ نامی رسالہ نکال رہے تھے۔ میری ویدر ٹاور کے نزدیک نیوکلاتھ مارکیٹ میں دفتر ’’شیراز‘‘ واقع تھا۔ شکیل عادل زادہ بھی چند روز کے وقفے سے کراچی آئے تھے۔ جون، سیّدمحمد عباس اور شکیل عادل زادہ شیراز کے دفتر میں سوتے تھے۔ ایک صوفے پر، تو دوسرا تخت پر لیٹ جاتا تھا۔ جون کو قریباً سو انجیکشن لگے، توتپِ دق سے ان کی صحت بحال ہوئی۔ اب جو روزگار کے وسیلے پر سوچ بچار کی تو اپنا ایک رسالہ شروع کرنے کا خیال آیا۔اس وقت معروف بیوروکریٹ اور صاحبِ علم، الطاف گوہر کراچی میں کمشنر تھے۔
ان کے ہاں ماہ نامہ ’’انشا‘‘ کا ڈکلیریشن داخل کیا گیا۔ جس کی اُسی روز اجازت مل گئی۔ فروری 1958ء میں انشا کا اجرا ہوا۔ یہ سنجیدہ نوعیت کا ایک علمی پرچہ تھا۔ دورِ حاضر میں ادبی پرچے تو باقاعدہ نکلتے ہیں، جن میں چند علمی مضامین بھی ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس انشا ایک مکمل علمی پرچہ تھا۔ جون بہت عمدہ اداریہ لکھتے تھے۔ ان کی نثربھی اعلیٰ پائے کی تھی جو حبیب اشعر، مولوی عنایت اللہ اور مولانا ابوالکلام آزاد کی سی نثر کی جھلک دکھلا جاتی تھی۔ جون نے اپنی جداگانہ حیثیت منوائی۔ وہ رئیس اور تقی کے بھائی کے بجائے اپنے حوالے سے پہچانے جانے لگے ۔
بچپن سے جون میں سرکشانہ خوتھی، بائیں بازو سے مجنونانہ تعلق تھا اور خود مختاری کا جذبہ فزوں تر تھا۔ کراچی میں جون کا ابتدائی قیام، کھارادر میں بھائیوں کے ساتھ تھا۔ ڈیڑھ کمروں پرمشتمل دو فلیٹس میں دونوں بھائی اپنے اپنے بیوی بچّوں کے ساتھ رہتے تھے۔ ایک میں رئیس امروہوی ، دوسرے برابر والے فلیٹ میں سیّدمحمدتقی۔ بعدازاں، پورا خاندان گارڈن ایسٹ کے علاقے میں 2700 گزپرمحیط ایک وسیع کوٹھی میں منتقل ہوگیا۔ یہ کوٹھی اُنھیں کلیم میں ملی تھی۔
قریب میں خوجہ جماعت خانہ تھا۔ تب کوٹھیوں کے بھی دل کش اور پرمعانی نام رکھے جاتے۔ ہرمکان و بنگلے کی اپنی انفرادیت ہوتی تھی۔ کوٹھیاں اپنے عددی پتّے کے بجائے ناموں یا علامات سے پہچانی جاتی تھیں، جیسے گول بنگلا،باغ والی کوٹھی وغیرہ۔اس کوٹھی کا نام پہلے ’’ارسطاطایس‘‘ پھرجون کی والدہ کے نام پر’’نرجس‘‘ رکھاگیا۔ جلد ہی وہ بنگلا ایک تہذیبی اور ادبی مرکز کی حیثیت اختیار کرگیا۔ صادقین، جوش ملیح آبادی، مجنوں گورکھ پوری،عبدالعزیزخالد، شاہد احمد دہلوی، پروفیسر احمد علی، جمیل الدین عالی، احسن فاروقی، جی الانا، سیّد ہاشم رضا وغیرہ شاموں کو وہاں باقاعدگی سے اکٹھے ہوتے تھے۔
خوب محفل آرائی اور رونق ہوتی تھی۔ شاعرہ اور ادیبہ عذرا عباس نے اُس بنگلے کی لفظی عکس گری کی ہے۔ ’’دروازے ہی سے ایک راستہ شروع ہوکر برآمدے کی سیڑھیوں پر ختم ہوتا تھا۔ برآمدے کی بائیں طرف کسی اجاڑ باغ کی سی کوئی چیز تھی۔ ادھڑی ہوئی گھاس کے ایک چھوٹے سے ٹکڑے پر ایک مضبوط پرانے درخت کے نیچے ایک دبلا پتلا، لمبا سا آدمی چوڑے پائنچے کا سفید پاجاما اور کُرتا پہنے کھڑا کسی دکھائی نہ دینے والی چیز کو گھور رہا تھا اور اس سے قدرے فاصلے پر لکڑی کے ایک کم زور تخت پر ایک خوب رو بیٹھا تھا۔’’یہ میرے باپ ہیں، تم نے نام تو ضرور سنا ہوگا، رئیس امروہوی۔‘‘
اس نے تیزی سے برآمدے کی طرف بڑھتے ہوئے درخت کے نیچے کھڑے آدمی کی طرف آنکھوں ہی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ میں نے دماغ پر زور ڈالا لیکن ابھی میں ’’ہاں‘‘ اور ’’نہیں‘‘ سے نکل بھی نہ پائی تھی کہ برآمدہ بھی ختم ہوگیا۔ اِدھراُدھر کئی کمرے آئے لیکن ان میں سے کسی میں بھی مجھے لے جایا نہیں گیا، پھر ایک لمبا کمرا اور اس کے بعد باورچی خانہ، کھانوں کی خوشبوؤں سے بھرا ہوا۔ کوٹھی کا تصوّر اب ضائع ہورہا تھا۔
ہرطرف کمرے، کمروں میں تخت، تختوں پر چاندنیاں اور چاندنیوں پر گاؤ تکیے، برآمدے کا تخت سب سے بڑا تھا اور اس پر ایک بھاری پان دان بھی رکھا تھا۔ اس پر ایک خاتون بیٹھی تھیں، ریشمی غرارے اور چوڑے ریشمی دوپٹے میں ملبوس۔ پان دان، تخت اور برآمدے کا ایسا میل میں نے نہ تو پہلے کبھی دیکھا تھا اور نہ پھر کبھی دیکھا۔ (جاری ہے)