• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لندن والوں نے پچھلے دنوں ساقی فاروقی کو یاد کیا۔ کیسا اچھا شاعر تھا ، کیسا خاتمہ کیا اپنے ہی ہاتھوں۔ ساقی نے زندگی کے کوئی پچاس برس لندن میں گزارے۔ان تمام برسوں میں وہ شعر کہتا رہا لیکن دوسرے بہت سے شاعروں کی طرح وہ کبھی برطانوی شاعر نہیں کہلایا۔ لندن میں رہ کر بھی وہ اردو دنیا کا شاعر ٹھہرا اور جہاں تک اس کی شہرت پہنچی،وہاں تک ، بلکہ اس سے بھی آگے اس کے اشعار پہنچے۔ ساقی عام شاعر نہیں تھا، اسے گھسی پٹی روایتی شاعری سے چڑ تھی اور شعر گوئی کی دنیا میں اس کا نعرہ بہت مقبول تھا: کلیشے توڑو، کلیشے توڑو۔ خود ساقی نے اپنی نئی راہیں نکالیں، پرانے اسلو ب کے بت توڑے اور ا س پر وہ عنوان اترے جن تک دوسروں کی فکر کی رسائی بھی نہ ہوگی۔ چنانچہ لندن والوں نے ساقی کا سوگ نہیں بلکہ اس کی کامیاب زندگی کا جشن منانے کی ٹھانی۔شہر کی ایک مقبول تنظیم ’سوسائٹی آف فرینڈز انٹرنیشنل‘ نے جسے عرف عام میں سوفی اور غلط العام میں صوفی کہا جاتا ہے، لندن کےوسط میں ایک بڑی محفل کا اہتمام کیا ۔ اس میں ساقی کے دوست، احباب، مدّاح او رپرانے واقف کار جمع ہوئے اور سوفی کے کرتا دھرتا مصطفی علی خاں نے نہایت قرینے سے محفل کو آراستہ کیا۔ لمبی لمبی اور اکتادینے والی تقریروں سے اجتناب کی یہ صورت تھی کہ چھپے ہوئے پروگرام میں لکھا تھا: ابتدائی کلمات، عدیل صدیقی۔ دس جملے۔ اور پروگرام کے آخر میں تحریر تھا: اختتامی کلمات، پانچ فقرے۔
پوری تقریب یوں تو ساقی کے کلام پر مرتّب کی گئی تھی۔ صرف ایک اقتباس مشتاق احمد یوسفی کی تحریر سے پڑھا گیا جس کا ذکر آگے آئے گا۔ شروع ہی میں صبیحہ صدیقی اور دردانہ انصاری نے ، جن کے ترنّم کو شہرت حاصل ہے، ساقی کے اشعار لحن سے پڑھے۔ اس کے بعد ساقی کے کلام کے وہ اوراق کھولے گئے جو اس کی وجہ ء شہرت بنے، یعنی ساقی کی نظمیں۔ یہ وہ میدان ہے جس میں ساقی کی تخلیقی صلاحیتوں نے خوب خوب جوہر دکھائے اور جدید شاعری کی جن خوبیوں پر دنیائے اردو کی نگاہ کم جاتی ہے،ان کو ساقی نے کیسے کیسے برتا ،اس شام خوب خوب سنا اور سراہا گیا۔ عروج آصف نے جو ابھرتی ہوئی شاعرہ ہیں ایک نظم پیش کی،پھر رفعت شمیم نے جن کو ڈرامے کا فن خوب آتا ہے، ایک اور نظم کو تصویر کی صورت پیش کیا۔ اسی طرح ساقی کے قریبی دوست ارشد لطیف نے ساقی کی ایک ذرا طویل نظم سادگی مگر خوبی سے پڑھی۔میں یہا ں وہ نظمیں تو نقل نہیں کروں گا البتہ ان کے موضوع پر پڑا ہوا پردہ سرکاؤں گا۔ مثال کے طور پر ان کی نظم مکڑا بظاہر اس مکڑے کے بارے میں ہے کہ اسے چھیڑو تو اپنے دفاع کی خاطر سکڑ کر اپنا سب کچھ بند کرلیتا ہے۔ ساقی نے اس کی یہ خوبی اپنے اندر بھی محسوس کی۔ اسی طرح ایک نظم اُس بلّے کے بارے میں ہے جسے جان محمد خاں پٹ سن کے بورے میں بند کر کے کہیں دور چھوڑ آنے کے لئے اپنی پیٹھ پر لاد کر لے جارہے ہیں۔راہ میں بلّے کے احساسات کو مصرعوں میں ڈھالا گیا ہے۔ ساقی کی ایک اور بہت ہی جیتی جاگتی نظم تحت اللفظ پڑھی گئی جس کا خیال عورتوں کی بے بسی اور ان کے حقوق سے لیا گیا۔ نظم میں دادی امّاں کی کیفیت بیان ہوئی ہے جو شادی کے بعد عمر بھر کے عذاب جھیلتی ہیں اور ہر صعوبت کا تریاق مانگتی ہیں، آخر وہ دن آتا ہے جب بقول ساقی ’ دادی امّا ں طلاق مانگتی ہیں‘۔
مکڑے اور بلّے کے احوال کے بعدمیں یوسفی صاحب کے مضمون کا ایک حصہ نقل کرتا ہوں۔ساقی کے اپنا کلام پڑھنے کی خوبی بیان کرتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں لکھتے ہیں:’’ساقی نے مینڈک، کتے، بلّے، خرگوش، مکڑے وغیرہ پر بہت خوب صورت اور خیال انگیز نظمیں لکھی ہیں۔ وہ چار ٹانگوں سے کم کسی ذی روح سے محبت نہیں کر سکتے‘‘۔اس کے بعد ساقی کے شعر پڑھنے کے انداز پر یوسفی صاحب کا کہنا بھی خوب ہے۔ ’’پڑھت اس قیامت کی کہ ایک ایک لفظ کو زندہ کرکے سامنے لا کھڑا کرتے ہیں۔خرگوش، کُبڑے یا مینڈک پر نظم پڑھتے ہیں تو بالکل وہی بننے کی بڑی کامیاب کوشش کرتے ہیں۔ ایسی ڈرامائی طرز ایجاد کی ہے جس میں اپنے تمام اعضا استعمال کر کے سننے والے کے پانچوں حواس پر چھا جاتے ہیں‘‘۔
اس شام کی دو بڑی خوبیوں کا ذکر رہا جاتا ہے۔ برطانیہ کے سرکردہ گلوکار آصف رضا نے ساقی کی کئی غزلوں کونغموں میں ڈھالا۔انہوں نے جس خوبی سے طرزیں بٹھائیں، اسی نفاست سے اپنی آواز کا جامہ بھی پہنایا۔ اور آخر میں شام کا سب سے زیادہ حیران کرنے والاواقعہ ہوا اور ہندوستان کی ارونِما کمار نے رقص پیش کیا جس کی خوبیاں دیکھ کر مجمع ششدر رہ گیا۔ یہ رقص ساقی کی غزلوں پر سجائے گئے تھے جنہیں آصف رضا گارہے تھے اور طبلہ نوازمحمد عامر کا ٹھیکہ رقص کی تھاپ کا ساتھ نبھا رہا تھا ۔ ساقی کے ہر بول کو ارونِما بدن کی حرکات سے ظاہر کر رہی تھیں اور وہ بھی اس خوبی سے کہ اگر ساتھ ساتھ بول نہ گائے جاتے تو صاف معلوم ہوجاتا کہ شاعر نے کیا کہا ہوگا۔ ماحول میں رنگ بکھیرتے رقص کے ساتھ اور پانچ فقروں کے اختتامی کلمات پر ساقی کو خراج عقیدت کا سلسلہ تمام ہوا۔ ساقی کے ایک گہرے دوست نے کہا کہ آج کی شام وہ ہوتے تو کتنے خوش ہوتے۔ میں نے کہا کہ ساقی کی برہمی اور غصہ مشہور تھا ۔کیا عجب کہ آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑتے۔ اسی بات پر میں نے لندن کے اس مشاعرے کا حال سنایا جس میں ساقی موجود تھے ۔ اسی مشاعرے میں دو امریکی خواتین بھی کسی طرح آگئی تھیں۔ ہوا یہ کہ ایک شاعر اپنا کلام ترنم سے پڑھنے لگے۔ امریکی خواتین سمجھیں کہ یہ گانا ہے جس کے ساتھ رقص اچھا لگے گا۔ یہ سوچ کر وہ دونوں الٹا سیدھا ناچنے لگیں۔بس پھر کیا تھا۔ ساقی پھٹ پڑے اور پھر وہ ہڑبونگ مچی کہ سارا مشاعرہ غارت ہوگیا۔
اس شام بھی شعروں پر رقص ہورہا تھا۔ مگر ایسا رقص کہ ساقی ہوتے تو کچھ اور بات ہوتی۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین