• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

خیبر پختونخواہ: بے قاعدگیوں کی وجہ سے احتساب کمیشن کی افادیت ختم ہوکر رہ گئی

خیبر پختونخواہ: بے قاعدگیوں کی وجہ سے احتساب کمیشن کی افادیت ختم ہوکر رہ گئی

احتساب اور انتقام میں بہت معمولی فرق ہے‘ کسی کو غیر قانونی طور پر جان بوجھ کر مقدمات میں الجھانا انتقام کے زمرے میں آتا ہے‘ ماضی میں احتساب کے نام پر سیاستدانوں کو انتقام کا نشانہ بنایاگیا‘ سیاستدانوں نے بھی ایک دوسرے کیخلاف کرپشن کے مقدمات بنائے‘ نواز شریف اور بے نظیر کے بعد جنرل مشرف نے قومی احتساب بیورو بنایا جس کو سیاستدانوں کی وفاداریاں تبدیل کرنے کیلئے استعمال کیا گیا تاہم نیب نے وقت گزرنے کے بعد اپنے معاملات کو سیاست سے پاک کیا تاہم آج بھی سیاستدان نیب پر الزامات عائد کرتے رہتے ہیں ‘ پہلے پیپلز پارٹی اور اب مسلم لیگ (ن) یکطرفہ احتساب کا الزام لگا رہی ہے ‘ آج بھی احتساب میں جرنیل اور جج کا احتساب نہیں ہو رہا اس بناء پر سیاستدان اس احتساب کو انتقام قرار دیتے ہیں ‘تحریک انصاف نے خیبرپختونخوا میں حکومت سنبھالنے کے بعد صوبے میں اپنا احتساب کمیشن قائم کرنے کا فیصلہ کیا حالانکہ نیب‘ اینٹی کرپشن‘ ایف آئی اے ‘ وزیراعلیٰ شکایات سیل اور دیگر اداروں کی موجودگی میں احتساب کے ایک اور ادارے کا قیام سمجھ سے بالاتر تھا لیکن تحریک انصاف حکومت نے 2014ء میں احتساب کمیشن قائم کیا جس کیلئے پانچ کمشنرز کا تقرر کیا گیا ‘ ایک کمشنر کو چیف کمشنر بنادیاگیا یوں اس ادارے کا ایک ڈائریکٹر جنرل مقرر کیاگیا‘ اس دوران صوبے میں احتساب کا آغاز ہوا تاہم بہت جلد کمشنروں اور ڈائریکٹرجنرل کے درمیان اختیارات پر اختلافات پیدا ہوگئے پھر حکومت نے پے درپے احتساب کمیشن ایکٹ میں چھ ترامیم کرکے احتساب کمیشن کو بے اختیار اور بے بس کر دیا ‘ ڈی جی احتساب کمیشن جنرل (ر) حامد خان نے اختیارات میں کمی اور ترامیم کیخلاف فروری 2016ء میں استعفیٰ دیدیا جس کے بعد ڈائریکٹر ہیومن ریسورس بریگیڈئر (ر) سجاد کو قائمقام ڈائریکٹر جنرل تعینات کر دیاگیا‘ احتساب کمیشن کے ڈائریکٹر انٹرنل مانیٹرنگ اینڈ پبلک کمپلینٹس بریگیڈئر (ر) طارق نے کمشنروں کے احکامات کی روشنی میں کمیشن کے اندر بھرتیوں کی رپورٹ مرتب کی جس میں تمام بھرتیوں پر بے قاعدگیوں ‘ بے ضابطگیوں اور میرٹ کی خلاف ورزی کے الزامات لگائے گئے جس میں موجودہ قائمقام ڈی جی بریگیڈئر (ر) سجاد کی تقرری بھی شامل ہے ‘ مارچ 2017ء سے ڈائریکٹر آئی ایم اینڈ ڈی سی کی آسامی خالی ہے ‘ قائمقام ڈی جی بریگیڈئر (ر) سجاد کا کنٹریکٹ مارچ 2017ء میں ختم ہو چکا ہے اس کے باوجود موصوف بحیثیت قائمقام ڈائریکٹر جنرل کام کر رہے ہیں۔

مارچ 2017ء سے اب تک احتساب کمیشن کی سرگرمیوں پر بھی سوالیہ نشان لگ چکا ہے کہ ان کی قانونی حیثیت کیا ہوگی؟نئے ڈائریکٹر جنرل کی تعیناتی کیلئے اختیار پشاور ہائیکورٹ کی انتظامی کمیٹی کو دیا گیا جو احتساب ایکٹ کے آرٹیکل 175اے کی خلاف ورزی تھی جس پر پشاور ہائیکورٹ نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیدیا ‘ فروری 2016ء سے احتساب کمیشن ڈائریکٹر جنرل کے بغیر چل رہا ہے اور اب قانون پیچیدگیوں کے باعث تعیناتی میں مزید تاخیر ہو رہی ہے ۔

احتساب کمشنرز اور پراسکیوٹر جنرل کی ملازمت اگست 2018ءمیں ختم ہو رہی ہے اور احتساب کمیشن ترمیمی ایکٹ کے تحت اب ادارے میں صرف 2کمشنرز ہونگے اگر ایسا ہوا تو احتساب کمیشن کی افادیت ہی ختم ہو جائیگی ‘احتساب کمیشن میں اس تمام تر صورتحال سے تنگ آکر ایک کمشنر ثروت جہاں نے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان‘ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک کو ایک کھلا خط بھی ارسال کیا جس میں انہوں نے احتساب کمیشن کو ’’وینٹی لیٹر‘‘ پر قرار دیتے ہوئے اس کی مکمل ’’سرجری‘‘ کا مطالبہ کیا اور واضح کیا کہ احتساب کمیشن گہری کھائی میں جاگراہے جس کیلئے ادارے سے کالی بھیڑوں کو نکال کر درپردہ قوتوں کا راستہ روکنا ہوگا ‘ صوبائی احتساب کمیشن کی صورتحال کے حوالے سے صوبائی اسمبلی کے فلور پر بعض ایم پی ایز نے آواز بھی اٹھائی تاہم احتساب کمیشن کو ایک شخص کی ایماء پر چلایا جا رہا ہےکیونکہ قائمقام ڈائریکٹر جنرل بریگیڈئر (ر) سجاد صوبائی وزیر اطلاعات شاہ فرمان کے رشتہ دار ہیں جس کی بناء پر ان کی خواہش کے مطابق ڈی جی کی تقرری اور کمشنروں کے اختیارات میں کمی کیلئے ترامیم کی گئیں جبکہ کمشنرز کے اختیارات کم کرکے ڈی جی کو زیادہ بااختیار بنانے کیلئے ترامیم بھی کی گئیں اور قائمقام ڈی جی کو ڈائریکٹر جنرل تعینات کرنے کیلئے عہدے کیلئے مطلوبہ معیار میں بھی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں ۔

تازہ ترین
تازہ ترین