• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانوی دورمیں خانقاہوں کی ملکیت گدی نشینوں سے چھین کر بنگال کوڈ 1810 اور بعد میںReligious Endowment Act 1863 کے مطابق پہلے اختیار بورڈ آف ریونیو کو دیا اورنگرانی سول کورٹ کے ذمہ لگائی اور عوام کی عدم دلچسپی کے خوف سے مزارات پر کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔میو اسپتال ، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج ، گورنر ہاؤس ، انکم ٹیکس کمپلیکس ، آڈٹ کمپلیکس ، ہائی کورٹ لاہور ، سپریم کورٹ لاہور بینچ ، دفتر تعلیمی بورڈ لاہور ، ایون اوقاف ،انار کلی، آڈیٹر جنرل آفس سمیت بے شمار ایسی عمارات ہیں، جو ان مزارات کے احاطہ اورملکیتی زمین پر بنائی گئی ہیں ۔حضرت شاہ چراغ لاہور ی ، حضرت شاہ عبدالرزاق نیلا گنبد ،حضرت موج دریا بخاری کے احاطوں میں سرکاری افسر رہائش پذیر رہے ،وقف آمدن اور خرچ کے لئے ’’مسلم وقف ایکٹ 1923‘‘بنایا گیا۔برطانوی حکومت کی طرز پر مزارات پرگانے پر پابندی کیلئے Music in Muslim Shrine Act 1942 جاری ہوا،تاکہ مزار ، صاحب مزار کا وقار اور روحانی ماحول برقرا رہے ،حکمران بدلتے رہے، انداز حکمرانی نہ بدلا، محمد ایوب خان نے روحانی مراکز سے مزاحمت کے خوف سے بچنے کیلئے مغربی پاکستان وقف پراپرٹی آرڈیننس 1960ء کے تحت وقف ڈیپارٹمنٹ قائم کئے اور چیف ایڈمنسٹریٹر اوقاف کواتنے وسیع اختیارات دیئے ،کہ ایک نوٹیفکیشن سے مزارات سے منسوب و ملحق جائیداد پر قبضہ کرنا شروع کر دیاگیا۔ مزارات کی آمدن کو سنٹرل اوقاف فنڈ سے منسوب اکائونٹ بنائیں ۔ بھٹو دورکے وزیر اعلیٰ پنجاب حنیف رامے نے 4اپریل 1974ء کو علمی، ادبی ،فکری ،اور ثقافتی سرگرمیوں اور صوفیانہ کلام کے فروغ کیلئے ’’پنجاب آرٹس کونسل‘‘بنائی۔ 26اپریل 1974ء کو خصوصی اجلاس میں’’ بی اے قریشی‘‘ کی قیادت میں کمیٹی بنی، جبکہ کمیٹی میںڈاکٹر محمد باقر، ڈاکٹر عبداللہ چغتائی، خان ولی اللہ خان، منو بھائی، نجم حسین سید، شفقت تنویر مرزا، فتح محمد ملک جیسی شخصیات کو شامل کیا،تا کہ یہ کمیٹی شروع میںسید وارث شا ہ اور بعد میں دیگرمزارات کی تعمیر اور معاشرے میں ان کی تعلیمات کو عام کرنے کیلئے سفارشا ت دیں، حضرت وارث شاہ کے ذاتی گھر کو میوزیم میں بدلنے اوروارث شاہ میموریل کمیٹی بنانے کا اعلان کیا گیا۔یہ ابتدائی باتیں بتانے کا مقصد خاص تھا ،کہ ہزاروں سال پر محیط خانقاہوں کی روحانی قوت کشش لوگوں کو اپنی طرف آنے پر مجبور کرتی ہے۔مقناطیسی درباروں اور مزارات پررسومات اورمعمولا ت مرضی کی نہیں،بلکہ شرعی اصولوں کے عین مطابق ’’از سر نو ‘‘ان کا جائزہ لیں اور جورسومات قرآن وسنت سے ٹکر اتی ہیں ،ان کو اجتماعی طور پر ختم کرنے کا اعلان کریں ۔ قرات وتفسیر، نماز جمعہ ،عیدین ،شب معراج وبرات،عید میلادالنبی، محفل نعت، اعراس کے ایام کو بامقصد بنانے کی پہلے منصوبہ بندی کریں۔ تمام تقریبات میں قومی ترانہ کا اہتمام کریں ۔ دربارئوں کی تعمیر جمالیاتی ذوق کے مطابق نہیں ،بلکہ شرعی اصولوں کے مطابق کریں ،کروڑں روپے مزار کی تعمیر پر ہرگز نہ لگائیں، وہ وقت یاد کرو ، جب لوگ بے مرشد ہونا ،اخلاقی و شرعی طور پردرست نہیں سمجھتے تھے ۔ اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کریں ،ماضی کی طرف لوٹیں اورگزرے سنہرے وقت کویاد کریں !اور وہ وقت واپس لائیں جب بادشاہ، قاضی، سردار، وڈیرے اور افسران بالا، آپ کوکسی صورت ناراض نہیں ہونے دیتے تھے۔ مزارات کو اپنی مرضی کے مطابق نہ چلائیں ،بلکہ تھنک ٹینک تشکیل دیں ۔مریدین ،متوسلین، اورمعتقد ین کی تربیت کیلئے علم وحکمت کے ادارے قائم کریں ۔ وہ کون تھے، جن کے پاس جو صبح سے شام تک آتا، غروب آفتاب تک تقسیم کر دیا کرتے ،دربارئوں پر قائم ’’مساجد ‘‘کی مزید بددعائوں سے بچیں ،پانچوں وقت’’ بلاتفریق برادری وذاتی اختلافات‘‘نماز مساجد میں ادا کریں ،مریدین کو درگاہوںپر’’ اپنے پن ‘‘کا احسا س ختم نہ ہونے دیں ،دربائوں کو علمی ادبی ،روحانی اور شرعی حیثیت واپس لوٹائیں،حرام کمانے والوں سے نذرانے لینا بند کریں، اسی کے سبب دھمال ، گانوںاور نحوست کے کلچر نے فروغ پایا ہے ۔کبھی غور کریں ،مزارات کیساتھ کھنڈرات اورویرانی کن کی وجہ سے ٹپکتی نظر آتی ہے۔ مریدین کوتصوف کے ساتھ جڑنے کیلئے’’ نئی آئیڈیالوجی ‘‘کے طریقے تلاش کریں۔ پرانے بابوں کو مٹی کے گھروں میں سکون تھا ،آج شاید آپ کو وسیع محل میں اتنا سکون کیوں نہیں ۔مراقبہ ،ذکر خفی اوراللہ ہو کی ضربیں کہاں گئیں،یہاں سے سنت رسول ﷺ کے مطابق بھوکوںکو کھانا،بے گھروں کو رہائش اورپیاسوں کو پانی ملتا تھا۔درباروں کی رونقیں آج بھی آپ کے لنگر عام کرنے سے بڑھ سکتی ہیں۔ساغر صدیقی کا لکھا کلام’’ دمادم مست قلندرکی مستیاں ‘‘دھمال اورڈھول کی تھاپ بند کرائیں، یہ فقیروںاورمجذوبوں کی غذا ہوتی ہے، لیکن حقیقی فقیر کہاں سے لائیں۔صوفیانہ سوچ وفکر کو عام کرنے کیلئے ویب، سوشل میڈیا اکائونٹ وپیج، یوٹیوب چینل بنائیں۔ رواداری کا جھنڈا چھوڑیں مت،بلکہ مضبوطی سے تھام لیں،کسی کی متشددانہ سوچ سے ڈریں مت ،صوفیاء کے جلال ،کمال جمال ،اخلاق اورنرم اسلوب کو سامنے رکھیں ، مزارات پر’’ شرعی حاضری ‘‘کا طریقہ آ ویزاں کریں ، خواتین کی موجودگی میں بہت سی قباحتیں لازم ہوتی ہیں۔ خواتین سے تنہائی میں نہ ملیں۔عام دنوں اوراعراس کے موقع پر خواتین کاآنا منع قراردیں اورخواتین کی الگ کانفرنس کا اہتمام کریں ، آپ کی روشن تاریخ صدیوں پر محیط ہے، فرقہ نہیں، اہل سنت ہونے پر فخر کریں ۔ فاضل بریلوی فرماتے ہیں ،مزار کے قدموں کی طرف چار گز کا فاصلہ رکھ کر کھڑے ہوں اور بوسہ مت لیں ۔ میت والے گھر سے تین دن تک اہل ثروت کھانا نہیں کھا سکتے، جوکھائے گا،اس کا دل مردہ ہو جائے گا۔تو پھر قل ،دسواں، چہلم پر خرچہ نہ کرائیں ،بلکہ ایصال ثواب کیلئے، مدارس ومساجد کی تعمیر اوردیگر طریقے تلاش کریں ۔ شرائط پیر پر عمل کی ضرورت ہے،نہ کہ نااہل اولاد کو جانشین بنانا۔ بزرگان دین کے اعراس میں ہونے والے ناجائز افعال سے بزرگوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے، کہ آرام فرما اولیاء نے بھی توجہ کم فرما دی، ورنہ پہلے جس قدر فیوض ہوتے تھے، وہ اب کہاں؟ بزرگان دین کی توجہات سے فیض یاب ہونے کے لیے ان کے مزارات پر ناجائز امورسے سختی سے اجتناب کریں ،اعراس کے موقع پر لنگر پھینکنے کی حوصلہ شکنی کریں، مساجد میں قبریں بنانا ناجائز ، فرضی مزارات بنانا سب حرام و گناہ ہیں ،(جاری ہے)
مخبر :مقبوضہ کشمیر کے حالیہ واقعات پرعالمی ضمیر کو جگانے سے پہلے کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمن کوہوش دلانے کی ضرورت ہے ،کشمیر ی بھائیوں اور بہنوں کی آواز تو دور کی بات آسیہ اندرابی اپنے ویڈیو پیغام میں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے ،کہ پاکستان اور نہیں توکم ازکم ’’یوم سیاہ‘‘ منانے کا ہی اعلان کر دے ،لیکن آج یکجہتی کشمیر منایا جارہا ہے ،وہ اس لئے کہ جو مذہبی جماعتوں نے مظاہرے کشمیر کی حمایت میں کرنے تھے، گورنمنٹ ان مظاہروں کو اپنے کھاتے میں ڈالنے کی کوشش کرے گی ۔اسرائیلی فاسفورس بارود سے انڈیا کشمیریوں کو بینائی سے محروم کر رہا ہے ،تاکہ وہ آزادی کا سورج طلوع ہوتا نہ دیکھ سکیں ،لیکن ان شاء اللہ آزادی کا سورج طلوع ہوکر رہے گا۔پاکستان کے پاس سنہری موقع ہے، کہ وہ عالمی برادری کو انڈیا کاامن دشمن مکروہ چہرہ دیکھانے میں کامیاب ہو۔ایک وقت وہ بھی تھا، جب پاکستان نے جرات سے دوٹوک اعلان کیا تھا،اس تاریخی اعلان کو روزنامہ جنگ نے24ستمبر 1985کو اپنی سپرلیڈ میں ان الفاظ میں پیش کیا ، کہ’’ تنازعہ کشمیر کا منصفانہ تصفیہ نہ ہوا،تو پاکستان اقوام متحدہ سے الگ ہو جائے گا،پاکستانی اعلان کے جواب میں سلامتی کونسل نے بھی کہا تھا، کہ بے حسی کی انتہاہے ،یہ آخری موقع ہے، پاکستان مزید انتظار نہیں کر سکتا ۔افغان مدرسہ پر بمباری کے نتیجہ میں 150معصوم شہید اور دنیاکا ضمیر اس لئے مر گیا ہے ،یہاں کلب ،اداکارہ ،ڈانس پارٹی ،سینما پرحملہ نہیں ،قرآن پر حملہ ہوا ہے۔80بار ہر دکھ درد کی دوابس درود مصطفی ﷺضرور پڑھ لینا۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین