• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سابق صدر آصف علی زرداری کی معزول وزیراعظم نوازشریف کے بارے میں کچھ باتیں صحیح ہیں اور کچھ غلط۔ اس وقت وہ بڑے ناراض ہیں اور نون لیگ کے قائد کے ساتھ کسی قسم کی صلح نہیں چاہتے۔وہ بڑا دعویٰ کر رہے ہیں کہ نواز شریف سے سیاست بھی چھڑوا دیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ نوازشریف سے بات اس وقت ہوگی جب وہ ( سیاسی طور پر)’’ختم‘‘ ہو چکے ہوں گے اس خاتمے کاکیا مطلب ہے وہی بتا سکتے ہیں۔ آصف زرداری نے ایک اور بھی بڑا دعویٰ کیا ہے کہ وہ آئندہ الیکشن کے بعد پنجاب میں نوازشریف کو وزیر اعلیٰ بھی نہیں لانے دیں گے۔ یہ سب باتیں غصے کی ہیں اور یہ اس وقت سے جارہی ہیں جب انتخابات چند ماہ بعد ہونے ہیں لہٰذا ان کو اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ ’’مناسب‘‘ لگتی ہیں کیونکہ الیکشن کمپین کے دوران اس طرح کے بلند بانگ دعوے کئے جاتے ہیں اور مخالفین پر سخت وار کئے جاتے ہیں مگر حالیہ تاریخ کو دیکھیں تو آصف زرداری کی کچھ باتوں میں وزن ہے اور کچھ باتیں بالکل بے معنی ہیں۔ وہ صحیح کہتے ہیں کہ نوازشریف نے کئی بار اسٹیبلشمنٹ سے مل کر پیپلزپارٹی کی پیٹھ میں چھرا گھونپا۔ بدقسمتی سے زیادہ تر اس طرح کی سیاست کا راج 80ء اور 90 ء کی دہائیوں میں تھا جب ان دونوں میں سے جس پارٹی کا دائو لگا اس نے غیر جمہوری قوتوں سے ہاتھ ملایا اور غیر قانونی اور غیر آئینی طریقے سے مخالف پر وار کیا اور کامیاب ہوگئے۔ نون لیگ اور پیپلزپارٹی دونوں اس جرم میں برابر کی شریک تھیں تاہم اس گندی سیاست کو نوازشریف اور بینظیر بھٹو شہید نے 2006ء میں چارٹر آف ڈیمو کریسی پر دستخط کرکے دفن کرنے کا عہد کیا۔ کچھ عرصہ اس پر عملدرآمد کیا مگر بعد میں سی او ڈی کو ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیا گیا۔
آصف زرداری ٹھیک کہتے ہیں کہ نوازشریف نے کئی بار اسٹیبلشمنٹ سے ساز باز کرکے پیپلزپارٹی کو زک پہنچائی مگر پیپلزپارٹی بھی کسی طرح اس کھیل میں پیچھے نہیں رہی اور اتنی بار ہی اس نے بھی غیر جمہوری عناصر سے سازش کرکے نوازشریف کو اقتدار سے علیحدہ کیا۔ اس لحاظ سے حساب برابر ہو گیا۔ اب جو کچھ سابق صدر کر رہے ہیں اسے ’’مور اوور‘‘ ہی کہا جاسکتا ہے۔ اس طرح سے ہم ایک بار پھر اسی اور نوے کی دہائیوں کی سیاست کی طرف واپس چلے گئے ہیں بجائے اس کے کہ ہم آگے چلتے اور سیاست میں کوئی شائستگی لاتے، نئے ’’رولز آف دی گیم‘‘ طے کرتے اور ان کی پابندی کرتے۔ کوئی بیوقوف ہی یہ سمجھے گا کہ اس وقت آصف زرداری جو شیر بنے ہوئے ہیں یہ اپنے زور بازو کی وجہ سے ہیں۔ جو کچھ سینیٹ کے الیکشن میں ہوا جس میں نون لیگ، باوجود اس کے کہ وہ ایوان بالامیں سب سے بڑی جماعت تھی، کو شکست ہوئی کا کریڈٹ سابق صدر لے رہے ہیں مگر یہ ایک دھوکہ ہے کیونکہ اصل فتح سابق صدر یا عمران خان کو نہیں ہوئی۔ ان میں سیاسی طور پر اتنی جان کہاں ہے کہ وہ نوازشریف کو سینیٹ میں شکست دے سکتے یا بلوچستان میں نون لیگ کے وزیر اعلیٰ کو ہٹا کر پوری جماعت کو ہی ہائی جیک کر لیا جاتا۔ یقیناً یہ گندی سیاست تھی۔ 28 جولائی 2017، جب نوازشریف کو بطور وزیراعظم عدالت عظمیٰ نے برطرف کیا، کے بعد وہ انتہائی دبائو میں ہیں اور انہیں مزید زچ کرنے کیلئے احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کئے گئے ہیں جن میں وہ پیشیوں پہ پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ ساتھ ساتھ نون لیگ کو توڑنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ تاکہ ہر صورت سابق وزیراعظم کو سیاست سے آئوٹ کیا جاسکے۔ ایسے ماحول میں آصف زرداری چہیتے بنے ہوئے ہیں جبکہ طعنہ وہ نوازشریف کو دیتے ہیں کہ وہ پیپلزپارٹی کے خلاف سازشیں کرتے رہے ہیں۔ کسی سیاست دان کے دعوے کرنے پر تو کوئی پابندی نہیں ہے بلکہ یہ ان کا حق ہے مگر ایک سوال جو بے شمار لوگوں کے ذہن میں فوراً آتا ہے یہ کہ کیا آصف زرداری کی سیاست نے سوائے سندھ کے پاکستان کے کسی بھی علاقے خصوصاً پنجاب میں پیپلزپارٹی کی ا سٹینڈنگ کسی طرح بھی بہتر کی ہے؟ جواب نفی میں ہے۔ اب انہوں نے نوازشریف کو چیلنج کیا ہے کہ وہ پنجاب میں نون لیگ کا وزیر اعلیٰ بھی نہیں بننے دیں گے۔ تاہم شاید ہی کوئی بندہ ہو جو پنجاب میں پیپلزپارٹی کو چند سیٹیں بھی دینے کو تیار ہو۔ اس کی حالت پنجاب میں جتنی بری 2013ء کے انتخابات میں تھی آج بھی اتنی ہی ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ پنجاب میں تحریک انصاف نے پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک ہڑپ لیا ہے مگر آصف زرداری بجائے اس کے کہ عمران خان پر اپنی تنقید کے تیر برسائیں ان کی سوئی اب بھی اس بات پر اٹکی ہوئی ہے کہ ان کا اصل مخالف نوازشریف ہے حالانکہ نون لیگ نے پیپلزپارٹی کو پنجاب میں زیادہ نقصان نہیں پہنچایا اس کے باوجود سابق صدر نوازشریف پر حملہ آور ہیں مگر اس پالیسی سے ان کے ووٹ بینک میں خصوصاً سب سے بڑے صوبے میں، اضافہ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔ اگلے تین مہینوں میں کیا معجزہ ہو گا کہ پیپلزپارٹی پنجاب میں بہت مقبول ہو جائے گی؟
اس وقت ایک طرف تو سیاست ہے آصف زرداری کی جس کا طرہ امتیاز صرف اور صرف نوازشریف پر دبائو ڈالنا ہے تو دوسری طرف سابق وزیراعظم ’’آئیڈیل‘‘ سیاست کر رہے ہیں جس میں ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ سرفہرست ہے۔ جوں جوں وہ اپنی حکمت عملی کو اجاگر کر رہے ہیں اور عوام الناس میں موثر طور پر بار بار اپنا پیغام پہنچا رہے ہیں وہ اپنے سیاسی مخالفین اور دیگر قوتوں کے سینے پر مونگ دل رہے ہیں کیونکہ ان کا بیانیہ عوام میں مقبول ہو رہا ہے اور جڑیں پکڑ رہا ہے۔ ان کی مقبولیت ہی اس وقت ان کیلئے سب سے بڑا ’’مائنس‘‘ پوائنٹ بن چکی ہے کیونکہ ہمارے جیسے ممالک میں ہمیں کوئی بہت پاپولر لیڈر نہیں چاہئے ہمیں تو چاہئے بونے اورکٹھ پتلیاں جو وہی کریں جس کی انہیں ڈائریکشن دی جائے۔ باوجود اس کے کہ نوازشریف پر لگاتار دبائو بڑھایا جارہا ہے کہ وہ ’’سرنڈر‘‘ کریں مگر ان کی سیاست میں مزید تیزی اور سختی آرہی ہے۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ وہ ووٹ کی عزت بحال کرائیں گے، جو نہیں جانتے وہ آج جان لیں پیچھے ہٹنے والا بندہ نہیں اور جو راستے میں آئے گا نیست و نابود کر دیں گے۔ وہ اپنی کشتیاں جلا چکے ہیں اور اپنے موقف کو تبدیل کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ وہ اپنے حامیوں کو بڑا واضح پیغام دے رہے ہیں کہ وہ عنقریب جیل میں ڈال دیے جائیں گے لہٰذا جہاں سے بھی وہ ان کو ہدایات دیں ان پر عمل ہونا چاہئے۔ نہ صرف سابق وزیراعظم بلکہ ہر کسی کو یقین ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں احتساب عدالت انہیں قید و بند کی سزا سنائے گئی۔ جہاں تک نیب کے مقدمات کا تعلق ہے تو ان میں تو کوئی جان ہے ہی نہیں۔ یہ بات بار بار نیب کے ’’اسٹار‘‘ گواہ اور پانامہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کی گواہی ثابت کر رہی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ا نکے پاس نہ کوئی ثبوت ہے اور نہ کوئی مصدقہ دستاویزات جس سے نوازشریف پر کوئی جرم ثابت ہو بلکہ وہ تو ساری بات ’’مفروضوں‘‘ پر کر رہے ہیں۔ خواجہ حارث اور امجد پرویز نے واجد ضیاء کا جوحال کیا ہےاتنا شاید ہی کسی بھی ہائی پروفائل کیس میں کسی گواہ کا ہوا ہو مگر پھر بھی نوازشریف کیلئے سزا نوشتہ دیوار ہے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین