• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھروسہ، جمیلہ کو اس کے حصول کی ضرورت تھی۔پھر جب زندگی کی صورتیں آپ پر بھروسہ کرتی تو وہ اپنے راز آپ کو سونپ دیتی تھیں۔ فوراً نہیں رفتہ رفتہ۔پھر آپ جان جاتے ہیں کہ کونسا پودا کس عارضے سے شفا میں مدد دے سکتا ہے ۔کائنات کی ہر شے چاہے وہ کتنی ہی چھوٹی یا غیر اہم ہو کسی دوسری شے کا جواب اس کا حل تھی۔جہاں ہو،وہیں حل موجود تھا اور اکثر اوقات حیرت انگیز حد تک قریب۔ساری بات تھی دیکھنے کی، بینائی کی۔جمیلہ بینا تھی۔
اسے غیر مانوس جگہوں کے سفر، اجنبیوں سے ملاقات، افق کے پار موجود براعظموں کی دریافت میں کوئی دلچسپی نہ تھی ۔دنیا ضرور تنوع سے بھرپور ہو گی لیکن انسان ہر جگہ ایک سے تھے ۔رات کو نیچے پہاڑیوں پر گیس لیمپوں کی ٹمٹماہٹ دیکھنا کافی تھا۔اللہ نے قدرت کے راز عیاں کرکے اس سے اپنی خدمت لینا چاہی تھی،سو اس کا ماننا تھا کہ اس کا فرض تھا کہ وہ جہاں تھی وہیں رہے، اسے علم تھا کہ مختلف بیماریوں کا علاج کیسے کرنا ہے ۔اگرچہ بہت سی تھیں جو اب بھی ایک راز تھیں۔مقامی لوگوں نے اس کے بارے میں بہت سی کہانیاں بنا رکھی تھیں۔وہ کہتے ضرور کوئی جن ہو گا جو علاج اور دوا کے فارمولے بتاتا تھا۔ دوسرے لوگوں کا خیال تھا کہ وہ کوہ قاف سے چھپ کر یہاں آ گئی تھی، جہاں کبھی کسی انسان کا خیر مقدم نہ کیا گیا تھا۔پریوں، جنوں، دیو، طلسمات کا مسکن، جمیلہ جب ان لمبی چوڑی کہانیوںکا سنتی تو حیرت سے اپنا سر ہلا دیتی۔ جوانمردوں، اساطیری داستانوں اور معجزوں کے بھوکے علاقے میں وہ اس سے توقع رکھتے تھے کہ وہ تینوں کی مجسم ہو، لیکن جمیلہ جانتی تھی کہ وہ وہی کچھ کر سکتی تھی جو اس کے بس میں تھا۔اگرچہ اکثر اوقات تو یہ سب مفت ہی دیتی تھی۔جو تھوڑا بہت کماتی، اس سے مزید اشیاء خریدلیتی تھی۔
اس نے زہر بھی تیار کئے، زہر خدا کا تحفہ تھا۔ایک نعمت خداوندی جس کی اکثر اوقات قدردانی نہ کی جاتی تھی۔ آپ اسے زندگی میں باقی بیشتر چیزوں کی طرح آفت یا علاج کے طور پر دیکھ سکتے تھے۔قدرت اچھے اور برے سے ماورا تھی۔جو شفایاب کرے وہی بیمار بھی کر سکتا تھا۔جمیلہ اس بات کی قائل تھی کہ زہر بنانے والے کا کام دوسرے ہنرمندوں سے مختلف نہ تھا۔بالکل کسی فنکار کی طرح وہ اپنی دوا کے معیار کی ذمہ دار تھی اور اس کی نہیں کہ لوگ اسے کس طرح استعمال کرتے تھے ۔وہ کھیتوں کے چوہوں، کاکروچوں، چھچھوندروں اور سانپوں کیلئے زہر فروخت کرتی تھی۔جہاں وہ یہ تسلیم کرتی کہ اس کی مصنوعات ہلاکت خیز تھیںوہیں یہ بھی نتیجہ اخذ کرتی کہ مہلک تو گوشت بھی تھا۔گوشت کھانا گنٹھیا کا باعث بنتا جس کا مناسب علاج نہ کیا جائے تو وہ ہلاک کر سکتی تھی لیکن کوئی اس وجہ سے گوشت خریدنا بند کرتا تھا نہ قصابوں کو گرفتار کرتا پھرتا تھا۔
اب جمیلہ نے ہاون یا کھرل کو ایک طرف رکھا اور ایک ڈبہ نکالا، چھوٹا سیپ کا ڈبہ، اس کے اندر ایک پتھر تھا، ایک انتہائی قیمتی پتھر، ایک ہیرا، شہد جیسا سنہری مائل ہیرا۔ہیزل نٹ یا فندق سے بڑا۔اس نے اپنی انگلیوں میں اٹھا کر اس کا جائزہ لیا ۔وادی میں ایسے لوگ تھے جو اس خاص نگینے کی خاطر ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ ڈالتے ۔احمق !ہیرے کو کبھی ملکیت نہ بنایا جا سکتا تھا صرف اس کی نگہبانی کی جا سکتی تھی ۔ہیرے کے طویل سفر میں ہر نیا مالک کسی عارضی قیام سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ جمیلہ نے یہ سمجھ لیا اور قبول کر لیا ۔ہیرا آج اس کے پاس تھا کل یہ کہیں اور ہو سکتا تھا ۔اس دوران جمیلہ نے اسے اپنی تراکیب کیلئے استعمال کیا۔کبھی پتھروں سے گرمائش یا ۔حدت خارج ہوتی ہے، ایک اندرونی روشنی، اور جب وہ انہیں کچھ دیر کیلئے کسی عرق میں رکھ دیتی وہ اپنے روح سونپ دیتا، صاف کرتے اور چیزوں کو یکجان ہونے میں مدد دیتے۔ اس نے اس مقصد کی خاطر کئی نگینے اور موتی رکھے ہوئے تھے لیکن ہیرا بہترین تھا۔
قدیم وقتوں سے میسو پوٹا میا کے باشندے ہیرے کو ’’خدا کے آنسو‘‘ کہتے آئے تھے۔جمیلہ نے کسی کو حتیٰ کہ یہ بھی کہتے سنا تھا کہ ہر موسم بہار میں جب ماں زمین اور آسمان باپ کا وصل ہوتا تو یہ دراصل ان کے پسینے کی بوندوں کی قلمیں تھے ۔ہیرے کے مقابلے میں انسانی زندگی گرما کی بارش سے بھی مختصر تھی ۔اسی برس کی عمر میں انسان بوڑھا اور ضعیف ہو جاتا ہے لیکن ایک ہیرا تب بھی نوزائیدہ خیال کیا جاتا ہے۔
جب ہیروں کیلئے حرص اور لالچ کی بات آتی تو امیر وغریب میں زیادہ فرق نہ تھا ۔وہ جس کے کبھی ہیرے کے مالک بننے کا امکان نہ تھا اس کا حریص تھا ۔گو جس کے پاس پہلے سے موجود تھا مزید کی تمنا رکھتا،تاجر ،آوارہ گرد، خانہ بدوش، سیاح، مسافر، ملاح، سپاہی اور جاسوس سب نے اسے اپنے ہاتھوں میں لینے کی خاطر ایک دوسرے کو دھوکہ دیا تھا ۔اس کے ہونے پر خادمائوں نے اپنی مالکہ کی زیادہ احترام سے خدمت کی تھی، خواتین نے اپنے شوہروں کو زیادہ دل وجان سے چاہا تھا اور شوہروں نے خود کو مرد محسوس کیا تھا۔دوست دشمنوں میں بدل گئے اور دشمن رفیق بن گئے ۔سفید برف سے منعکس ہوتی دھوپ کی طرح عنبریں ہیرا اپنی اطراف سے ہر شے کو روشن تر کر دیتا تھا، بالکل اسی طرح جیسے سفید دودھیا برف منعکس ہوتی سورج کی روشنی روشن تر محسوس ہوتی تھی۔ جمیلہ جانتی تھی ایسا درخشاں ہیرا کسی شخص کو اپنی روح سے جلاوطن کر سکتا تھا ۔
یہ بیگ کی طرف سے تحفہ تھا یہ شخص ہر قسم کے لوگوں کو اپنے سامنے جھکتا دیکھنے کا عادی تھا یکساں دہشت اور احترام پھیلاتا ہوا ۔جمیلہ نے اس کے اکلوتے بیٹے کی زندگی بچائی تھی جہاں ڈاکٹروں کو کوئی امید دکھائی نہ دی تھی، جمیلہ نے خاموشی سے پختہ ارادے سے شدید کوشش کی تھی وہ بچے کو عزرائیل کی سلطنت سے واپس لے آئی تھی ۔پہلی بار لڑکے نے اپنی آنکھیں کھولیں اور بولا تو بیگ رو دیا۔ دراصل کسی جانور کی طرح اونچی آواز میں چلایا، جیسا کہ اکثر مرد کرتے ہیں جو رونے کے عادی نہیں ہوتے۔بیگ نے رقم کی پیشکش کی، جمیلہ نے انکار کردیا۔سونے کے سکے، زمین کے کاغذ، شہد کی مکھیوں کی کالونی، ریشم کا فارم، ہر بار جمیلہ نے اپنا سر نفی میں ہلا دیا۔ وہ جانے کو تھی جب بیگ نے اسے ہیرا دکھایا ۔عنبریں کنیز(Amber Concubine)وہ اسے کہتا تھا اسے اس میں دلچسپی محسوس ہوئی اس کی قدروقیمت کی وجہ سے نہیں بلکہ ان پہیلیوں کی باعث جو وہ اپنے اندر رکھتا تھا وہ پتھر رازوں کا امین تھا وہ بتا سکتا تھا ۔
لوگ کہتے ہیں ،یہ منحوس ہے ’’بیگ نے بتایا‘‘ اسے خریدا نہیں جا سکتا زبردستی حاصل نہیں کیا جاسکتا، اسے چرایا نہیں جا سکتا، یہ کسی دوسرے کو صرف دل سے دیا جا سکتا ہے، تحفے کے طور پر، یہ اسی طرح میرے پاس آیا تھا اور اسی طرح یہ تمہیں دے رہا ہوں۔
سیکنڈ سے بھی کم وقت میں جمیلہ نے محسوس کیا کہ وہ پتھر اس کے فہم سے باہر کسی گہرے اور پراسرار تعلق میں جڑا تھا۔اس کے باوجود اس نے انکار کر دیا لیکن بیگ ہوشیار آدمی تھا۔سمجھ گیا جمیلہ کواس قیمتی ہیرے میں کشش محسوس ہوئی تھی اور پھر مزاحمت میں سوچتے ہوئے کہ اگر اس نے وہ اپنے پاس رکھ لیا تو وہ دوبارہ کبھی محفوظ نہ رہے گی۔ اس کی وادی کے ٹھگوں اور لٹیروں سے بچ رہنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس کے پاس چرائے جانے کے قابل کچھ بھی نہ تھا۔ بیگ نے اصرار نہ کیا لیکن اسی رات ایک قابل بھروسہ پیغامبرکے ہاتھ اس نے وہ ہیرا اسے بھجوا دیا۔
انسانوں کے بارے میں بہت سی عجیب وغریب باتیں تھیں۔ان کے خیال میں حشرات الارض کراہیت کے قابل تھے لیکن جب کوئی لیڈی برڈ ان کی انگلیوں پر آ بیٹھتا تو وہ خود کو خوش قسمت محسوس کرتے۔ انہیں چوہوں سے سخت نفرت تھی لیکن گلہریوں سے محبت، گدھ انہیں مکروہ لگتے تھے جبکہ عقاب متاثر کن، وہ مچھروں اور مکھیوں کو ناپسند کرتے لیکن جگنوئوں کے بڑے مشتاق تھے اگرچہ تانبا اور لوہا طب کے حوالے سے اہم تھے اس کے بجائے جس کی پرستش کی جاتی وہ سونا تھا ۔وہ اپنے پیروں تلے آتے پتھروں پر کوئی توجہ نہ دیتے لیکن پالش شدہ جواہرات کیلئے دیوانے ہو جاتے تھے۔ جمیلہ کو لگتا تھا کہ انسان جو کچھ بھی کرتے تھے، وہ محبت کیلئے چند پسندیدہ کو چن لیتے اور باقی سب کو بس ناپسند کرتے تھے۔یہ بات کم ہی ان کو سمجھ میں آتی کہ وہ جن چیزوں کو پسند کرتے تھے وہ بھی دور حیات کیلئے اتنی ہی لازم تھیں جتنی وہ چیزیں جنہیں وہ قابل قدر سمجھتے تھے اب بھی مچھر، جگنوئوں سے کم اہم نہ تھا ،پیتل سونے سے۔خدا، اس جوہری نے خدا، اس جوہری نے کائنات اسی طرح ترتیب دی تھی ۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین