• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’تراشے‘

شاعر ہونا کیا معنی رکھتا ہے

اس کا سیدھا سادہ جواب تو یہ ہے کہ کوئی معنی نہیں رکھتا، گو معنی نہ رکھنا بھی بعض لوگوں کے نزدیک، بڑی پُر معنی بات ہے۔ ایسوں سے نباہ بڑا مشکل ہے لیکن ان میں اور مجھ میں فاصلہ اتنا رہے کہ خواہ مخواہ کے بھی کوئی معنی نہیں۔ شاعری کی تقسیم بڑی مشکل ہے۔ اس کو جنس کے اعتبار سے تقیم نہیں کر سکتے۔ اس لئے کہ اس کی جنس ہمیشہ مشتبہ رہتی ہے۔ 

جوان، بوڑھے کے اعتبار سے بھی تقسیم نہیں کر سکتے، کیونکہ کہ آج کل شاعر منہ زور ہونے کے اعتبار سے جوان، خیالات کے اعتبار سے بوڑھا اور اعمال کے اعتبار سے کچھ غیر جانب دار سا ہوتا ہے۔ یہ حالات ایسے نہیں ہیں کہ ان پر اعتماد کر کے آپ کا وقت ضائع کرنے کی کوشش کی جائے۔ شاعری میں سارا کھیل الفاظ کا ہے۔ اس کھیل کو ہمارے شعراء نے اتنا کھیلا ہے کہ اب الفاظ میں وہ باتیں پیدا ہوگئی ہیں، جو کبھی معنی میں نہیں تھیں۔ 

پہلے معنی کے لئے الفاظ کی تلاش تھی، اب الفاط تلاش کر لیجیے، معنی خود بہ خود پیدا ہو جائیں گے۔ کبھی ہم معنی کے لئے سرگرداں رہتے تھے۔ بڑی ریاضت بڑی مشقت کے بعد معنی تک رسائی ہوتی تھی۔ اب الفاط ہی سب کچھ ہیں۔ ان کو اِدھر اُدھر کرتے رہیں، ہر قسم کے معنی نکلتے رہیں گے اور جو بچ جائیں گے، ان کو سامعین پورا کردیں گے۔

(رشید احمد صدیقی کے ایک مضمون سے اقتباس)

فلسفۂ زندگی کیا ہے؟

غور کیجیے تو انسان کی زندگی اور اس کے احساسات کا بھی کچھ عجیب حال ہے۔ تین برس کی مدت ہو یا تین دن کی، مگر جب گزرنے پر آتی ہے تو گزر ہی جاتی ہے۔ گزرنے سے پہلے سوچیے تو حیرانی ہوتی ہے یہ پہاڑ سی مدت، کیوں کر کٹے گی، گزرنے کے بعد سوچیے تو تعجب ہوتا ہے کہ جو کچھ گزر چکا، وہ چند لمحوں سے زیادہ نہ تھا۔ غور و فکر کا ایک قدم اور آگے بڑھا ئیے تو خود ہماری زندگی کی حقیقت بھی حرکت و اضطراب کے ایک تسلسل کے سوا کیا ہے، جس حالت کو ہم سکون سے تعبیر کرتے ہیں، اگر چاہیں تو اس کو موت سے بھی تعبیر کر سکتے ہیں۔ 

سوچ جب تک مضطرب ہے، زندہ ہے۔ آسودہ ہوئی اور معدوم ہوئی۔ زندگی اور حرکت کا یہ کارخانہ کیا ہے اور کیوں ہے؟ اس کی کوئی ابتداء ہے یا نہیں، یہ کہیں جا کر ختم بھی ہو گا یا نہیں؟ خود انسان کیا ہے؟ فلسفہ، شک کا دروازہ کھول دے گا اور پھر اسے بند نہیں کر سکے گا۔

(مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب ’’غبار خاطر‘‘ سے ماخوذ)

تازہ ترین