• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فلسطین کا تنازع عالمی سطح پر کئی دہائیوں سے ایک سنگین مسئلہ بنارہا ہے۔ فلسطینی عوام جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے، چاہتے ہیں کہ ان کی سرزمیں پر ان کا حقِ حکمرانی تسلیم کیا جائے۔ 1947ء میں اقوامِ متحدہ نے فلسطین کے ایک حصے پر فلسطینی عوام کو آزاد و خودمختار حکومت قائم کرنے کی پیشکش کی۔ لیکن اس وقت کی عرب قیادت نے امریکہ کی مخالف عالمی طاقت سوویت یونین کے ورغلانے پر یا کسی اور مصلحت سے اس پیشکش کو مسترد کر کے بہت بڑی تاریخی غلطی کی۔ اقوامِ متحدہ کی جانب سے 1947ء میں جو کچھ فلسطینی عوام کو دیا جارہا تھا آج وہ اس سے کم کا مطالبہ کرکے بھی کامیابی حاصل نہیں کر پا رہے۔ اس کے برعکس امریکہ کا اتحادی اسرائیل نہ صرف یہ کہ اپنے قیام کے وقت کی سرحدوں سے کہیں زیادہ وسیع ہوچکا ہے بلکہ فلسطینی علاقوں میں کئی بستیاں تعمیر کرکے عالمی قوانین کی مسلسل خلاف ورزیاں کررہا ہے۔
ارضِ فلسطین میں اسرائیل کا بننا بھی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ اس باب کا مطالعہ گزشتہ صدیوں میں یورپی اقوام کی مذہبی تنگ نظری سمیت حقوقِ انسانی کی کئی کھلی خلاف ورزیوں کو بھی واضح کرتا ہے۔
بیسویں صدی کے آخر اور اکیسویں صدی میں دنیا کے اہم ممالک میں یہودیوں کا خاصا اثرورسوخ ہے۔ امریکی معیشت، سیاست اور ذرائع ابلاغ پر یہودی کنٹرول سب کے سامنے ہے لیکن اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے شروع میں ایسا نہیں تھا۔ یورپی ممالک میں آباد چند لاکھ یہودیوں کو شدید امتیازی سلوک، کئی پابندیوں اور نسلی نفرت کا سامنا تھا۔ اس نفرت کا ایک بدترین مظاہرہ جرمن کے حکمران ہٹلر کی جانب سے تو بہت سفاکانہ انداز میں ہواتھا۔ برطانیہ میں بھی یہودیوں کو پسند نہیں کیا جاتا تھا۔ یہودیوں سے برٹش عوام کی ناپسندیدگی کا اظہار برطانوی پارلیمنٹ نے ایک خاص امتیازی قانون ایلین ایکٹ (Alien Act 1905) کی منظوری کے ذریعے کیا۔ اس قانون کا مقصد برطانیہ میں یہودیوں کی آمد اور وہاں آباد کاری روکنا تھا۔ کئی یورپی ممالک میں یہودیوں کو ذاتی جائیداد خریدنے اور کئی اقسام کے کاروبار کرنے کی آزادی نہیں تھی۔ فرانس اور دیگر کئی یورپی ممالک میں بھی عوام یہودیوں کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ فرانس پر 1894ء میں فوج کے ایک یہودی کیپٹن الفریڈ ڈریفس Alfred Dreyfus پر جرمنی کے لئے جاسوسی کرنے کا الزام لگایا گیا۔ اس معاملے نے جلد ہی نسلی یا مذہبی رنگ اختیار کرلیا۔ فرانسیسیوں نے اس غداری کی وجہ ڈریفس کا یہودی ہونا قرار دیا ۔ فرانس میں صرف ڈریفس ہی نہیں بلکہ پوری یہودی کمیونٹی کے خلاف ریلیاں نکالی گئیں۔
ایک ہنگری نژاد آسٹرین یہودی نوجوان صحافی تھیوڈر ہرزل(1860تا 1904ء ،Theodor Herzl ( یہودیوں کے خلاف ان جذباتی مظاہروں کا مشاہدہ کر رہا تھا۔ تھیوڈر نے بعد ازاں یورپ میں بسنے والی یہودی قوم کو ذلت سے نکالنے کے لئے ایک آزاد یہودی ریاست کا تصور پیش کیا۔ ہرزل نے اس سلسلے میں ایک کتابچہ Der Judenstaat (The Jewish State) تحریر کیا۔ تھیوڈر ہرزل کا یہ تصور جدید صہیونی سیاست اور اسرائیل کے قیام کا پیش خیمہ بنا۔ اسرائیل کے تصور کے خالق ہرزل کی خواہش تھی کہ اسرائیل ارجنٹائن کے علاقے میں قائم ہو۔ کیونکہ 1895ء میں ارجنٹائن میںآباد یہودیوں کی تعداد 40لاکھ سے زیادہ تھی۔ برطانیہ نے اپنے زیر قبضہ افریقی علاقے میں جسے اب یوگنڈا کہا جاتا ہے یہودیوں کو ان کی آزاد ریاست قائم کرنے کی پیشکش بھی کی تھی لیکن عالمی صہیونی تنظیم نے اس تجویز کو مسترد کردیا تھا۔ بہرحال اسرائیل کے لئے ہرزل کی پہلی ترجیح ارض فلسطین نہیں تھا۔ کئی یورپی طاقتیں ارجنٹائن میں یہودی ریاست کے حق میں نہیں تھیں۔ تھیوڈر ہرزل کا محض چوالیس سال کی عمر میں 1904ء میں انتقال ہوگیا۔ ہوسکتا ہے کہ اگر وہ چند دہائی اور زندہ رہتا تو اسرائیل کو ارجنٹائن میں قائم کرنے کے لئے نتیجہ خیز کوششیں کرپاتا۔ فلسطین میں یہودیوں کی آبادی بہت کم تھی۔ 1897ء میں فلسطین میں یہودی آبادی محض دوہزار کے لگ بھگ تھی جبکہ وہاں مسلمانوں کی آبادی اس وقت پانچ لاکھ سے زیادہ تھی۔ عالمی صہیونی تنظیم کے ذمہ داروں نے یورپ بھر میں یہ مہم چلائی کہ یہودی فلسطین میں جائیدادیں خرید کر وہاں آباد ہوں۔ اس مہم کو ابتدا میں کوئی خاص کامیابی نہیں ملی تھی۔ 20سال میں یورپی ممالک اور روس سے فلسطین آکر آباد ہونے والے یہودیوں کی تعداد محض چالیس ہزار تھی۔
سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد 1920ء میں ارض فلسطین برطانوی قبضے میں آچکا تھا۔ ارجنٹائن کے بجائے فلسطین میں اسرائیل کے قیام کی حمایت کرنے والوں میں برطانیہ بھی شامل تھا۔ انجمن اقوامِ متحدہ نے طویل غور و خوض کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ برطانیہ فلسطین پر اپنا قبضہ ختم کردے اور اس علاقے کو تین حصوں میں تقسیم کردیا جائے۔ اس مقصد کے لئے 29نومبر 1947ء کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد نمبر181منظور کی۔ اس قرارداد میں کہا گیا کہ فلسطین کے ایک حصے میں فلسطینیوں کی آزاد اور خود مختار ریاست قائم کی جائے، ایک حصے کو یہودی قوم کے لئے مختص کرکے وہاں اسرائیل کا قیام عمل میں لایا جائے۔ ایک حصے یعنی یروشلم کو آزاد بین الاقوامی شہر کا درجہ دیا جائے۔ اس قرارداد میں کہا گیا تھا کہ برطانیہ زیادہ سے زیادہ یکم اگست 1948ء تک فلسطین سے اپنا قبضہ ختم کردے۔ اس قرارداد کی منظوری کے وقت بھی فلسطین میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 67فیصد اور یہودی آبادی کا 33فیصد تھا، اس کے باوجود فلسطینی ریاست کے لئے اسرائیل کی بنسبت کم رقبہ مقرر کیا گیا تھا۔ عرب ممالک نے اس قرارداد کو اقوام متحدہ کے چارٹر سے متصادم قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا تھا۔ کئی عرب ممالک یروشلم کو آزاد بین الاقوامی شہر قرار دینے کے حامی بھی نہیں تھے۔ عالمی صہیونی تنظیم اور جیوش ایجنسی برائے فلسطین نے اس قرارداد کو تسلیم کرنے کا اعلان کردیا۔ 14مئی 1948ء کو برطانیہ نے ارض فلسطین کے ایک حصے کا اقتدار صہیونی تنظیم کے سربراہ ڈیوڈ بن گوریان کے حوالے کرکے اسرائیل کے باضابطہ قیام کا اعلان کردیا۔ اس صہیونی ریاست کا تصور پیش کرنے والے تھیوڈر ہرزل (متوفی 1904ء) کو اسرائیل میں بہت اعلیٰ مقام دیا گیا ۔
عرب ممالک سمجھتے تھے کہ ارض فلسطین میں آباد چند لاکھ یہودیوں سے نمٹنا کوئی مشکل کام نہیں، ایک چھوٹی سی یہودی اقلیت کو اتنی زیادہ رعایتیں کیوں دی جائیں۔ اس وقت عرب لیگ کے سیکریٹری جنرل اعظم پاشا نے عرب حکمرانوں کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم مٹھی بھر یہودیوں کو سمندر کی جانب دھکیل دیں گے۔ بعد کے حالات نے ثابت کیا کہ اس وقت کی عرب لیڈرشپ کے اندازے درست نہ تھے۔ مصر، اردن اور شام امریکہ مخالف طاقت سوویت یونین، کئی عرب اور دیگر اسلامی ممالک کی بھرپور حمایت کے باوجود اسرائیل سے مختلف جنگوں میں شکست کھاتے رہے۔ حتیٰ کہ اسرائیل کے پڑوسی مسلم ملک مصر نے امریکی سرپرستی میں ہونے والے کیمپ ڈیوڈ مذاکرات کے بعد 1973ء میں اسرائیل کے ساتھ ہاتھ ملا لیا۔ اسرائیل کے دوسرے پڑوسی مسلم ملک اردن نے بھی امریکی سرپرستی میں 1994ء میں ہونے والے اوسلو معاہدہ کے تحت اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔ بعد کے حالات سے واضح ہوا کہ مسلم عرب ریاستوں نے اپنی بقااور سیاسی مفادات کے تحفظ کے لئے سوویت یونین پر انحصار کرکے سخت غلطی کی تھی۔ 1947ء میں اگر اقوامِ متحدہ کی اس کوشش میں مسلم عرب ممالک اپنے موقف کو بھی سمونے کے لئے بھرپور سفارتی کوششیں کرتے تو ممکن تھا کہ فلسطینیوں کے لئے زیادہ علاقہ مختص کرالیا جاتا۔ یہ شعر شاید فلسطینیوں کی حالات زار کی بھی ترجمانی کررہا ہو
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین