• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)
بچے کے سر پر بعض اولیائے کرام کے نام چوٹی رکھنا، میعاد مقرر کرنا، مزار پر جاکر بال اتروانا، مزار کے چکر لگانا یہ سب گناہ وبدعت ہے۔ غیر اسلامی میلے کرانا، کبوتر، مرغ یا بٹیر کا لڑانا حرام ہے۔ ایسے افعال مخلوق خدا پر ظلم کا سبب ہیں۔ اپنے ناموں اور بزرگوں کے قبری کتبوں سے غیرضروری، غیر شرعی، غیر اخلاقی القابات ختم کرائیں، درباروں کی پراپرٹی کو مزارات پر ہی خرچ کریں، اپنی بے شک گریڈ 16,18,20,22کے برابر تنخواہیں لگائیں، لیکن جیسے دل میں آیا، خرچ کرنا مناسب نہیں، آنکھوں میں سوز اور روح میں جمال پیدا کریں، ہر وقت حکومتوں پر تنقید نہیں، بلکہ سیاسی عمل کا حصہ بنیں۔ اپوزیشن میں مسلسل رہنے سے طاقت ختم ہو جاتی ہے، الیکشن میں حصہ نہ لیں، اگر لینا ہے تو پھر متحدہ مشائخ جیسا کوئی فورم بنا کر حصہ لیں، یاد رکھیں! قومی اسمبلی کے80کے قریب ایسے حلقے ہیں، جہاں سے آپ مشائخ سیاستدانوں کی حمایت کرتے ہیں، تو تب وہ کامیاب ہوتے ہیں۔ دعاؤں اور وظیفوں کے ساتھ ’’عمل‘‘ کی زندگی میں مریدین کو واپس لیکر آئیں، مرشد کامل وہی ہے، جو امانت الہیہ کا پاسدار ہو، مریدین کو شراب معرفت پلائیں، نہ کہ ذاتی کرامات کا درس دیں، متعصبانہ سوچ اور بے وقوف کی بے وقوفیوں پر الجھنا صوفیاء کا کبھی طریقہ نہیں رہا۔ من گھڑت، قصے، کہانیوں کا دور گیا، نفرتوں، عداوتوں سے نیکوں اور ولیوں کا کوئی واسطہ نہیں ہوتا، بلکہ الفتوں اور چاہتوں سے ہوتا ہے، پہلے پیر مرید کی پہچان ہوتے تھے، اب مرید پیر کی پہچان بنتے جارہے ہیں، اسی وجہ سے پہلے مرید پیر سے ڈرتے تھے، اب پیر مرید سے ڈرتے ہیں۔ بالکل شہزادوں جیسی زندگی بسر نہ کریں، مریدین کو اپنے بچوں کے40سال سے پہلے ہاتھ چومنے سے منع کریں۔ اپنے بچوں کو دینی علوم ضرور پڑھائیں، اولیاء کرام کی قرآنی فکر کو بچوں کے ذہنوں میں شامل کرنے کیلئے جان لڑا دیں۔ معاشرے کی اخلاقیات کو بلند کرنے کی اشد ضرورت ہے، سرکاری عہدوں پر صوفی مسلمان لانا وقت کی ضرورت ہے، انٹرنیشنل سطح پر صوفیاء کی درگاہوں کا وزٹ کریں اور اوقاف کے زیراہتمام مزارات کو انٹرنیشنل سطح پر تعمیر کرانے کی کوشش کریں۔ ہر مرید کو کہیں، کہ وہ ایک بیٹا یا بیٹی کسی معیاری مدرسہ میں ضرور پڑھائے۔ نکل کر خانقاہوں سے رسم شبیری ادا کریں، تاکہ زاغوں کے تصرف میں بیٹھے عقابوں کے نشیمن کی باتیں کرنے والوں کی زبانیں بند ہو سکیں۔ علامہ ابن جوزی کہتے ہیں، اگر ان جاہل پیروں کو علماء کے مرتبے کا پتہ چل جاتا، تو یہ اپنے آپ کو ان کے سامنے گونگا اور اندھا سمجھتے، اپنی کرامتوں کو رسول ﷺ کی سیرت سے تشبیہ مت دلوائیں، سنت رسول ﷺ کے مطابق لباس پہننے کا کہیں، وقتی نہیں، سو سال کی سوچ رکھ کر فیصلے کریں، ایسے مریدین سے اپنے آپ کو بچا رکھیں، جن کا مقصد باقی پیر بھائیوں پر اپنی برتری ثابت کرنا ہو، خلافت سوچ سمجھ کر دیں، مریدین کے ساتھ نچلی سطح پر رابطوں کو بہتر بنائیں۔ مریدین کو بتائیں، شریعت حتمی ہے، جھوٹی کرامتیں نہ بنائیں، نہ سنائیں اور ایسے واعظین مافیا کو سختی سے منع کریں، خوشامدی، لالچی، روایتی علماء سو کی حوصلہ شکنی کریں اور علماء حق کی قدر کریں، کیونکہ عقائدِ صحیحہ کا فروغ اور دینی اقدار کی بقاء کی جنگ انہی علماء کو لڑنی پڑتی ہے۔ زمینوں کے مربعے، وسیع کاروبار، بینک بیلنس، حد سے زیادہ مہنگی گاڑیاں، مہنگے علاقوں میں محلات اور کوٹھیاں، فائیو اسٹار ہوٹلوں کے کھانے و رہائشیں، شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ، بھی دیکھ کر رشک سے مر جائیں۔ ان امور سے اجتناب کریں، خطرناک وقت آنے والا ہے۔ تصوف کی بقا کی جنگ لڑیں، کیونکہ یہ آئندہ آنے والی نسلوں کی بقا کی جنگ ہے، علامہ ابن جوزی لکھتے ہیں، کہ بعض پیر کمانے کی طاقت رکھتے ہیں، مگر وہ سارا دن اپنے آستانوں پر لوگوں سے خیرات وصول کرتے رہتے ہیں۔ ان کا دھیان ہر وقت اس طرف لگا رہتا ہے، کہ کوئی عقیدت مند آئے گا اور نذرانہ پیش کرے گا۔ حالانکہ شریعت کا واضح مسئلہ ہے کہ غنی اور قوی شخص کے لئے خیرات لینا جائز نہیں (یہ بھیک ہے) اقبال نے کہا تھا کہ ’’نذرانہ نہیں سود ہے پیران حرم کا‘‘۔ انتہا پسندی کے خلاف محلے اور مسجد کی سطح پر کام کرنے پر زور دیں، انتہا پسندی کے خلاف درگاہوں کی جانب سے قومی بیانیہ تشکیل دیں، متولیوں اور گدی نشینوں میں صرف ایک سجادہ نشین بنائیں۔ ایک درگاہ کے50سجادہ نشین، گدی نشین مناسب نہیں، ایک بڑی درگاہ پر اگر سجادہ نشین کا ایک سے زائد ہونا فرض ہے، تو پھر کوئی مدرسہ بنائے، کوئی جنرل اسپتال، کوئی دل کا، آنکھوں کا، شوگر کا، ڈائلسز کا، الرجی کا، نفسیاتی مریضوں کا، ہڈیوں کا، نفسیات کا، کینسر کا، بچوں کا، زچہ بچہ کا اسپتال بنائیں۔ ریسرچ سنٹر قائم کریں، سیاست کریں یا نہ کریں پاکستان میں لاکھوں مزارات ہیں، فی مزار یا فی پیر ایک ایمبولنس سسٹم میں داخل کرے، تو تقریبا ً50لاکھ سے زیادہ ایمبولنس عوام کو مل سکتی ہیں۔ مریدین کو قدموں کا بوسہ لینے سے سختی سے منع فرمائیں، کم از کم ہر ماہ ایک کتاب اور معیاری میگزین شائع کرانے کا اہتمام کریں۔ کتابیں لکھیں، لکھوائیں، پڑھیں، پڑھائیں، شائع کریں، کروائیں، تخریج کریں، کروائیں، مدارس کے معاون بنیں، بنوائیں، جگہ دیں، جگہ لیں، جگہ دلوائیں، مدارس اور مساجد کی رجسٹریشن کے عمل کو طے شدہ طریقہ کار کے مطابق یقینی بنائیں۔ امن دشمنوں کی کتابوں پر پابندی لگوائیں۔ شیخ المشائخ حضرت یحییٰ بن معاذ رازی فرماتے ہیں، ’’تین قسم کے لوگوں کی صحبت سے بچو ایک غافل علماء سے دوسرے مداہنت کرنے والے فقراء سے تیسرے جاہل صوفیاء سے۔‘‘ سیدنا داتا گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک بھی جہالت بہت بڑا فتنہ ہے۔ جو مرشد بندے کو بندہ نہ بنا سکے، اس کا کیا فائدہ، بھئی! تصوف فقہ الباطن اور فقہ الظاہر دونوں کا نام ہے۔ جو پیر فسق و فجور میں مبتلا ہو، اس سے دین کا نقصان ہوتا ہے، مریدین کو بتائیں، کہ تربیت وفیض کہیں سے بھی حاصل ہوسکتا ہے، آئو! دل سے، حب جاہ( ممتاز ہونے کی خواہش، حب باہ (لذات حاصل کرنے کی خواہش)، حب مال(بہت مالدار ہونے کی خواہش) ختم کریں۔ مجاہدہ کی چار چیزوں پر کنٹرول کیا جاتا ہے، کھانا پینا، سونا، بولنا، ناجنس (جن لوگوں سے ملنے جلنے سے دل کا نقصان ہوتا ہو) سے ملنا جلنا۔ قال قال، حال حال اللہ اور نبی کریم ﷺمصطفیٰ ﷺکے ہو جائیں، دل و نفس کی اصلاح ہوگی، تو تب نفس، نفس مطمئنہ کی طرف آسکتا ہے، کرامت ولی، کشف، مبتدی، متوسط، منتہی، نسبت، نفس، سلوک، تصنع، تعجیل تجلی، تجلی حق صحو، سکر، خانقاہ، قلبی فقر، تلوین، تمکین، حجابات، شجرہ کی اصلاحات کے بارے خود مطالعہ کریں اور اپنے مریدین کو معلومات فراہم کریں۔ بھئی پیر جی کچھ تو کریں۔ الحمد اللہ دو دن پہلے حضرت کرمانوالہ شریف کے سجادہ نشین پیر سید نبیل الرحمن شاہ صاحب کی دعوت پر عرس میں شرکت اور گفتگو کرنے کی سعادت حاصل ہوئی، اس ایمانی، روحانی، وجدانی عرس میں نقشبندیوں کا اصل رنگ نظر آرہا تھا۔ عرس کے انتظامات، تقاریر، لنگر، سنت رسولﷺ کے مطابق چہروں پر سجی داڑھیاں، سادہ سفید لباس پہنے ہوئے، ہزاروں کی تعداد میں موجود عرس کے شرکاء کی شرکت یہ ثابت کر رہی تھی، کہ حضرت مجدد الف ثانی کے ملنگ واقعی ہی صراط مستقیم کی جانب حقیقی معنوں میں گامزن ہیں، میں درگاہ شریف کے سچے اور پکے غلام، غلام مصطفی کی دربار شریف اور موجودہ سجادہ نشین کے ساتھ نیاز مندی کو دیکھ کر حیرت زدہ ہوگیا، کہ آج کے دور میں بھی فنافی الشیخ موجود ہیں۔ عرس میں پیر سید جمیل الرحمن شاہ چشتی کی دعاکے موقع پر ہزاروں مریدین کی اللہ کی بارگاہ میں سسکیاں اور ہچکیاں اسی بات کی دلیل تھی، کہ عرس میں موجود ہر اُٹھا ہاتھ اپنی مشکلات اللہ سے دور کرا کے واپس جارہا ہے۔
مخبر: انتخابات سے پہلے چند پولیس افسران بیرون ممالک دوڑنے کی دن رات کوششوں میں مصروف ہیں۔ ہر دکھ درد کی دعا بس درود مصطفیٰ ﷺ80بار پڑھنا کسی صورت نہیں چھوڑنا۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین