• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان پیپلز پارٹی سے میرا بہت گہرا اور قریبی تعلق رہا ہے ہمیشہ سے ہی اگر کسی سیاسی جماعت کے لیے دلی ہمدردی رکھی تو وہ صرف پیپلز پارٹی ہی تھی بے نظیر بھٹو جیسی انقلابی لیڈر کی ہر آواز پر ہمیشہ لبیک کہا اور جب بی بی شہید نعرہ لگاتی تھیں کہ زندہ ہے بھٹو زندہ ہے تو عوام کے جسم میں ایک عجیب سی طاقت اور توانائی دوڑ جاتی تھی اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شہید بھٹو ہی کی آواز میں اُن کی بیٹی بول رہی ہے بدقسمتی سے اُس بیٹی کو بھی جینے نہ دیا اور مجھے یقین ہے کہ بی بی شہید کے آخری الفاظ بھی یہ ہی ہونگے کہ زندہ ہے بھٹو زندہ ہے ۔ شہید بھٹو کی برسی کے موقع پر جب میں نے بلاول اور آصف زرداری کے منہ سے یہ نعرے سنے تو مجھے عوام میں وہ جذبہ اور سنسنی نظر نہیں آئی اور میں کافی دیر تک سوچتا رہا کہ زندہ ہے بھٹو زندہ ہے نعرے کا مطلب تو بی بی شہید نے یہ بتایا تھا کہ جب ظلم کے خلاف ڈٹ جاؤ تو جان لو کہ تمہارے اندر بھٹو زندہ ہے جب تم جھوٹ اور بے ایمانی کے خلاف ڈٹ جاؤ تو جان لو کہ تمہارے اندر بھٹو زندہ ہے جب تم آمریت کے خلاف ڈٹ جاؤ تو جان لو اور جب جمہوریت کی بقا کے لیے اس حد تک ڈٹ جاؤ کہ اگر جان بھی دینا پڑے تو دے ڈالو تو سمجھ جاؤ تمہارے اندر بھٹو زندہ ہے مگر 4 اپریل کو جب یہ نعرے لگ رہے تھے تو میں سوچ رہا تھا کہ جو کچھ سینیٹ میں ہوا کیا واقعی اُس کے بعد بھٹو زندہ ہے جو کچھ بلوچستان اسمبلی میں ہوا کیا اُس کے بعد واقعی بھٹو زندہ ہے یا جو کچھ مزید آگے ہونے جارہا ہے ۔آج میں نئی نسل کو بتانا چاہتا ہوں کہ بھٹو تھا کون اُس کا کردار کیا تھا اس کے افکار کیا تھے اُس کا لباس کیا تھا اُس کا احساس کیا تھا اُس کا انداز کیا تھا بھٹو چلا کہیں سے بھی ہو منزل پر کیسے پہنچا اس کے پیچھے راز کیا تھا ۔ بھٹو ایک ایسے نڈر اور بہادر شخص کا نام تھا جو ظلمت کے خلاف ڈٹ گیا تھا اپنے سے کئی گناطاقت کے سامنے دیوار بن گیا تھا اور اس دیوار کے پیچھے ایک نظریہ تھا ایک نظام تھا اور سچ کے شیدائیوں کا اُس کو ہمیشہ سلام تھا بھٹو اپنے سامنے ایک طوفان کو روکے کھڑا تھا جسے موجودہ دور میں سونامی کا نام بھی دیا جاتا ہے جب تک بھٹو کی سانس رہی اُس طوفان کی بند آواز رہی مگر بھٹو کے جاتے ہی طوفان نے سب کچھ روندنا شروع کردیا اور ایک طرف طوفان روندتا رہا دوسری طرف جہانگیر بدر جیسے بہادر آگ برسنے والی دھوپ میں کھلے عام سر عام لگنے والے ہر کوڑے کے بعد نعرہ لگاتے رہے کہ زندہ ہے بھٹو زندہ ہے اور بھٹو کو مرنے نہ دیا طوفان کو اپنی مرضی سے بڑھنے نہ دیا جو کمزور تھے انھیں اکھڑنے نہ دیا اور جو منافق تھے انھیں کہانیاں گھڑنے نہ دیا سینکڑوں جہانگیر بدر بھٹو کو زندہ رکھے رہے اور ہر ظلم کے آگے ڈٹے رہے کچھ مارے گئے ۓ کچھ کو طوفان کی لہریں کہیں بہا لے گئیں کہ جنکا آج تک بھی کچھ پتہ نہ چل سکا مگر اگر زندہ رہا تو بھٹو زندہ رہا کون بھٹو جو پاکستان میں جمہوریت کا ایک ستارہ تھا ہر غریب کی آنکھ کا تارہ تھا پاکستان کو بلندی پر لے جانے والا ایک ایسا طیارہ تھا کہ جس کی پرواز سے خوفزدہ بڑے سے بڑا طاقت کا سیارہ تھا مگر وہ بھٹو آگے بڑھتا رہا لڑتا رہا روز جیتا رہا روز مرتا رہا مگر پاکستان کو آمریت کی ہواؤں سے نکال کر جمہوریت کی فضاؤں میں لے آیا اور پھر یہ ہی اُس کا گناہ بھی بن گیا اور ایک جھوٹے مقدمے میں پھانسی بھی چڑھ گیا سلام ہے بھٹو کی شہادت کے بعد ڈٹ جانے والے ہر جیالے پر کہ جس نے بھٹو کو مرنے نہ دیا مگر میں آج کے جیالے سے سوال پوچھتا ہوں کہ کیا واقعی آج بھی بھٹو زندہ ہے بلکہ میرے خیال میں تو جو کچھ سینیٹ میں ہوا بلوچستان میں ہوا اور مزید آگے ہونے جارہا ہے مجھے کہنے دیجیے کہ بھٹو مرگیا ضیاالحق زندہ ہے کیونکہ یہ سب تو ضیاالحق کا انداز تھا یہ سب تو ضیاالحق کی سوچ تھی مجھے بتائیے پھر کیا فائدہ ہوا بھٹو کے پھانسی پر لٹک جانے کا بی بی کے شہادت کو گلے لگانے کا جب اُس پیغام کو ہی آپ نے بھول جانا تھا کہ جمہوریت ہی سب سے بڑا انتقام ہے بے شک آپ نواز شریف سے انتقام لیں انھیں چیئرمین سینیٹ وزیراعلیٰ پنجاب ہی کیا ایک یونین کونسل بھی جیتنے نہ دیں مگر بھٹو کی قیمت پر نہیں بھٹو کو زندہ رکھ کر بھٹو کے جیالے کے سر پر رکھی ٹوپی کو اُس کا فخر بناکر گردن میں پڑی اجرک کو اُس کا غرور بناکر اور ووٹ کی پرچی کو اپنا منشور بناکر نہ کہ جھوٹے پرچوں پر کسی کو منصوربناکر ۔ سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کا یہ ہی رویہ ہے کہ آج تک اس ملک میں جمہوریت مضبوط نہ ہوسکی جبھی تو ضیاآج تک زندہ ہے اور بھٹو نہ جانے کب کا مرچکا پہلے یہ کارنامے میاں نواز شریف انجام دیتے تھے پھر اُن سے یہ علم جب ضمیر نے جگایا تو چوہدری شجاعت نے تھام لیا اور اب طلب اقتدار میں پیپلز پارٹی نہ کسی دریا کو چھوڑنا چاہتی ہے نہ دشت کو اور راضی ہے بیعت کرنے کے لیے کسی بھی دست کو۔ اگر سیاست دان اس وقتی فائدے سے ہٹ کر اس ملک اور عوام کی فلاح وبہبود کے لیے سوچتے تو ضیا کے دیئے گئے تحفے کب کے دم توڑ چکے ہوتے نہ آج ہماری گلیوں میں دہشت گردی منڈلارہی ہوتی نہ کلاشنکوف لہرارہی ہوتی نہ چرس اور ہیروئن دنیا بھر میں ہمارا سر جھکارہی ہوتی ۔اب جمہوریت سب سے بڑا انتقام کم اور ہر حال میں اقتدار میں آنے کا نام زیادہ لگتی ہے اب پاکستان کھپے پرانا نعرہ اور اقتدار کھپے نیا نعرہ لگتا ہے اب سب پر بھاری صرف کُرسی ہماری کی جنگ ہے جاری اور اس میں ہیں شامل سب نواز عمران اور زرداری ۔ اور جب تک ایسی جنگیں ہوتی رہیں گی بھٹو مرتے رہیں گے اور ضیازندہ رہے گا کبھی مذہبی انتہا پسندی کی شکل میں کبھی لسانی و صوبائی تعصب کی شکل میں کبھی کسی کو سوتے سے جگانے کا نعرہ لگاکر تو کبھی کسی کو اقتدار سے بھگانے کا نعرہ لگاکر کبھی بدتمیزی اور بدتہذیبی کے نشے کا عادی بناکر تو کبھی گلی کوچوں کا فسادی بناکر ۔ پیپلز پارٹی اگر واقعی ثابت کرنا چاہتی ہے کہ وہ بھٹو کے ذکر اور بھٹو کی فکر کے بغیر کچھ بھی نہیں تو پھر اسے جمہوریت ہی کو سب سے بڑا انتقام بنانا ہوگا بصورت دیگر جلد ہی گھر جانا ہوگا وقتی فتح جمہوریت میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی اگر رکھتی ہوتی تو آج بھی پاکستان کےسب سے طاقتور سیاسی لیڈر چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی ہوتے مگر وقت نے جو کچھ اُن کے ساتھ کیا اُسے ہی تو کہتے ہیں جمہوریت کا انتقام آج وہ ہمارے لئے قابل احترام تو ہیں مگر انتخابات میں عوام نے انھیں مکمل طور پر رد کردیا۔ آج وہ بھٹو آپ کو پُکار رہا ہے جس کی للکار پر پوری دنیا ہل گئی تھی جب اُس نے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں کشمیر کا مقدمہ ایسا لڑا کہ آج تک وہ پاکستان کا غرور بنا ہوا ہے۔ وہ کہتا تھا لڑو گے تو بیک زبان پاکستان کہتا تھا ہاں لڑیں گے وہ کہتا تھا مرو گے پاکستان کہتا تھا ہاں مریں گے مگر پاکستان بچائیں گے عوام کا انقلاب لائیں گے۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین