قندوز افغانستان،شوپیاںکشمیراورغزہ فلسطین میں ڈھائے جانے والے مظالم سے متعلق سوچتے سوچتے میں خیالات کی دنیا میں بہت دور نکل گیا۔وہ یمنی تھے اور بزرگ عیسائیوں سے انہوںنے نبی آخر الزماںؐ ؐکی آمد کا چرچا سن رکھا تھا۔خواب میں بھی دیکھتے ہیں کہ آخری نبیؐ کی آمد قریب ہے۔آخری نبیؐ کی آمد ابھی نہیں ہوئی مگر آپ کی صحبت سے فیض یاب ہونے کے لئے سفر شوق کا آغاز یمن سے کرتے ہیں اور اختتام مکہ میں۔
یاسر مکہ میں ایسے شخص کے ہاں پناہ لیتے ہیں جس کے بھتیجے نے نبیؐ کی آمد کے بعد انہیںسب سے زیادہ ستایا۔ابوجہل کے چچا مہشم بن مغیرہ مخزومی شریف آدمی تھے،اس نے یاسر کو نہ صرف پناہ دی بلکہ اپنی لونڈی سمیعہ سے اس کا نکاح بھی کردیا۔اﷲ نے آپ کو بیٹا عطا فرمایا جس کا نام عمار رکھا گیا۔ابوجہل کے چچا فوت ہو گئے تو یہ خاندان ابوجہل کی پناہ میں آگیا۔ کچھ عرصہ بعد حضرت محمد ﷺنے نبوت کا اعلان کیا۔مکہ نور اسلام سے منور ہوا تو حضرت یاسر نے ایمان لانے اور اس کا اظہار کرنے میں دیر نہ لگائی۔ان کی اہلیہ حضرت سمیعہ نے ان کا ساتھ دیا ،چنانچہ وہ اسلام کی طرف لپکنے والے نفوس قدسیہ(السابقون الاولون )میں شامل ہوئے۔بعد میں حضرت عمار بھی آپؐپر ایمان لے آئے، حضرت صہیب رومی بھی اسی روز آپ ؐپر ایمان لائے تھے۔ایک چھوٹے خاندان کی جرات اہل قریش سے برداشت نہ ہوئی،حضرت یاسرؓ و اہل خانہ پر ابوجہل نے تشدد کے پہاڑ توڑ دئیے۔حضرت یاسرؓ اور سمیعہ کوزنجیروں سے باندھ کر سخت گرمی میں کھلے آسمان تلے گرم ریت پر لٹا دیا جاتا۔انہیں پیٹا جاتا،کوڑے برسائے جاتے،داغا جاتااور محمد ؐ کو برا بھلا کہنے اور لات وعزیٰ کی ستائش کرنے کو کہا جاتا۔وہ اﷲ اکبر،لا الہ الااﷲ کے کلمے بلند کرتے تو سینوں پر بھاری پتھر رکھ دئیے جاتے۔اس قدر تکلیف دی جاتی کہ ذہن مائوف ہو جاتا اور انہیں اپنی کہی بات سمجھ نہ آتی۔
آپ ؐسے سامنا ہوا تو حضرت یاسرؓ نے پوچھا کہ’’یارسول اﷲ ؐ کیا یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا‘‘؟
آپ ؐنے فرمایاکہ’’ آل یاسر صبر سے چپکے رہو ،تم سے جنت کا وعدہ ہے‘‘۔اسی تشدد کے نتیجے میں حضرت یاسرؓ شہید کر دئیے گئے۔آپ کو پہلے شہید اسلام کا درجہ حاصل ہوا۔حضرت عمار ؓنے کہا کہ یارسول اﷲ ؐ!ہم پر پوری شدت سے عذاب ٹوٹ پڑا ہے۔آپ ؐنے فرمایا،ابو الیقظان!(عمارکی کنیت)صبر کروپھر رب سے التجا کی اے اﷲ!آل یاسر میں سے کسی کو دوزخ کی سزا نہ دینا۔(الاستیعاب)
بعد میں ابو جہل نے حضرت سمیعہ کے پیٹ کے نچلے حصے میں بھالا دے مارا اور آپ منصب شہادت پر فائز ہو گئیں۔حضرت بلالؓ اور حضرت خبابؓ بن الارت پر مظالم سے کون ناواقف ہے۔؟حضرت خبابؓ غریب خاندان سے تعلق رکھتے،پیشے کے اعتبار سے لوہار تھے۔ایک دن ان ہی کی دہکتی بھٹی سے انگارے نکال کر زمین پر بچھائے گئے۔ارت کے بیٹے کی قمیص اتار کر ان انگاروں پر لٹایا گیا،اس وقت تک آپ کو کوئلوں پر لٹایا گیا جب تک کے آگ ٹھنڈی نہ پڑ گئی۔آپ کے جسم اطہر کی چربی گل گئی اور پشت پر نالیاں بن گئی۔
حضرت خبابؓ بیان کرتے ہیں کہ جب صورتحال ہمارے لیے نا قابل برداشت ہو گئی تو ایک دن ہم حضورؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔حضور اس وقت خانہ کعبہ کی دیوار کے سائے میں اپنی چادر کا تکیہ لیے استراحت فرما رہے تھے۔ہم نے عرض کیا، حضور! آپ ؐہمارے لیے اﷲسے دعا نہیں کرتے؟مشرکین کے تشدد کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں اب ہمارے لیے نا قابل برداشت ہو گئی ہیں۔حضرت خبابؓ بیان کرتے ہیں کہ ہماری یہ بات حضور ؐ کو ناگوار گزری۔آپؐ اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ’’اللہ کی قسم، تم جلدی مچا رہے ہو،ابھی تم پر وہ حالات تو آئے ہی نہیں جو تم سے پہلے لوگوں پر آئے تھے۔انہیں آدھا زمین میں دبا کر آروں سے چیر ڈالا گیا،وہ زندہ آگ میں جلا دئیے گئے اور انہوں نے ایسے حالات پر صبر کیا۔تمہیں بھی بہر حال صبر کرنا ہے۔اﷲ کی قسم!وہ وقت ضرور آئے گا جب ایک سوار صنعاء سے حضر موت تک سفر کرے گا اور اسے اﷲکے سوا کسی اور کا خوف نہیں ہو گا‘‘۔
اسی پس منظر میں اللہ تعالیٰ نے سورہ العنکبوت میںفرمایا کہ’’کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دئیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور انکو آزمایا نہ جائے گا؟‘‘پھر جب غزوہ احد کے بعد مسلمانوں پر مصائب کا سخت دور آیا تو سورہ آل عمران میںفرمایاکہ’’کیا تم نے سمجھ رکھا ہے کہ جنت میں داخل ہو جائوگے،حالانکہ ابھی اﷲنے یہ تو دیکھا ہی نہیںکہ تم میں سے جہاد میں جان لڑانے والے اور پامردی دکھانے والے کون ہیں؟‘‘
آگرہ و دہلی میں دو ہزار کے عشرے کے آغاز میں ان آنکھوں نے خود دیکھا،کانوں نے خود سنا کہ پرویز مشرف نے کس خوبصورتی سے آزادی کی جدوجہد،جہاداور دہشت گردی میں فرق کیا تھا۔برا ہو نو دو گیارہ کا کہ اس نے سب بدل دیا۔اپنے اقتدارکودوام بخشنے کیلئے وہ امریکہ کی بھیگی بلی بنتا چلا گیا۔ غلامی سے بدترکوئی شے نہیںکہ
تھاجو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموںکاضمیر
آسیہ اندرابی جو سرینگر میں پاکستان کی پہچان ہے،جس کے خاوند پروفیسر عاشق حسین فکتونے ربع صدی سے زائد عرصہ بھارتی جیل میں گزار دیا۔اس آسیہ کوکوئی اچھی خبرتوہم نے بھی نہ دی۔ہم یکجہتی کشمیر کا دن مناتے ہیں مگر کشمیریوں کو اب صرف یکجہتی کی نہیںکسی اور مددکی ضرورت ہے۔ کشمیریوںکیلئے ہم سورہ نساء کی آیت نمبر پچھتر’’ آخر کیا وجہ ہے کہ تم اﷲ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پاکر دبا لیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مدد گار پیدا کر دے‘‘ لوگوںکو پڑھ کر سناتے ہیں مگر ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ یہ آیات تواﷲنے دنیا کے ہرکونے میں بسنے والے مظلوم مسلمانوں کیلئے اتاری ہیں۔
یا رکھیئے جنرل جوزف ووٹل ، جنرل نکولس پیٹرک اور جنرل جان نکولسن ہمارے ہیرو نہیں۔ہمارے ہیرو قائد المجاہدین محمدرسول اﷲ ﷺ،حضرت عمرؓ،خالد بن ولیدؓ،طارق بن زیاداورٹیپوسلطان ہیں۔ہمارے دکھوں کا مداواراہ جہاد اختیار کرنے ہی میں ہے۔ہم اس سے اغماض برتتے رہے تو مظالم شوپیاں میں کم ہونگے نہ قندوز اور نہ ہی غزہ کے مسلمانوںکواماں ملے گی۔ہمارا فخر نبی کریم ﷺکی ہستی ہے جنہوںنے جہاد کو اپنی امت کی رہبانیت قرار دیا تھا اور آپ ؐنے خواہش کی تھی کہ ’’میںاﷲکی راہ میں مارا (شہید)جائوں،پھر زندہ کیا جائوں ،پھر ماراجائوںاور پھر زندہ کیا جائوں ،پھر مارا جائوں‘‘۔اسی راہ کو اختیار کرنے میں ہماری بقاہے بصورت دیگر ہمیںکوئی ذلت سے بچا نہ پائے گا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)