• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
شہباز شریف کو درپیش سنگین چیلنج

مسلم لیگ (ن) کے صدر اور وزیرا علیٰ پنجاب شہباز شریف نے اپنے حالیہ دورہ کراچی میں اعتراف کیا کہ ان کی جماعت اور حکومت مشکل دور سے گزر رہے ہیں۔ ان کے لئے 2018ء کے عام انتخابات میں مشکل چیلنج درپیش ہونگے لیکن انہیں یقین ہے ہموار میدان ملا تو حکمراں جماعت اپنی پوزیشن برقرار رکھنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ کراچی میں ا یک اجلاس میں شہباز شریف نے بتایا کہ اس وقت بڑھتے ہوئے اختلافات و مسائل اورپارٹی کے بیانیہ پر الجھن کی شکل میں دو بڑے چیلنجز درپیش ہیں۔ پارٹی سربراہ کی حیثیت سے اپنے پہلے دورہ کراچی میں ان کی یہ پریشان کن خبر ملی کہ سپریم کورٹ نے ٹرائل کورٹ کو سانحہ ماڈل ٹائون کا ٹرائل 15؍ دن میں مکمل کرنے کا حکم دیا ہے۔ ان کے لئے دوسری پریشان کن بات مریم نواز اور سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے درمیان سخت بیانات کا تبادلہ تھی۔ جب میں نے شہباز شریف سے پوچھا آیا حالات مائنس ون، مائنس ٹو یا اس سے زیادہ کی جانب بڑھ رہے ہیں تو انہوں نے محتاط رویہ اختیار کرتے ہوئے جواب دیا کہ انہیں چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اداروں میں ہم آہنگی کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز میں جامع مکالمے کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر جب سوال اٹھا کہ ابتدا کون کرے گا؟ اس موقع پر سینیٹر مشاہد حسین سید، شہباز شریف کی مدد کو آئے اور کہا کہ یہ ابتدا پارلیمنٹ نے پہلے ہی کردی ہے۔ ان کا یہ چند ماہ قبل سینیٹ سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے خطاب کی جانب واضح اشارہ تھا۔ شہباز شریف حکومت پنجاب کے ترجمان ملک احمد خان کے ساتھ کراچی آئے۔ مشاہد اللہ خان، مشاہد حسین سید اور کچھ دیگر رہنما بھی ساتھ تھے۔ جس سے سیاسی مفاہمت کی پالیسی کے عزم کا اظہار ہوتاہے۔ شہباز شریف کے لئے سب سے بڑا چیلنج پارٹی کا بیانیہ، انتخاب جیتنے کی اہلیت کے حامل منحرفین کی بڑھتی ہوئی تعداد اور اس سے کہیں بڑھ کر خود ان کی اپنی سیاسی بقا جب خصوصاً نیب کے تحت درجنوں تحقیقات ہورہی ہوں،درپیش ہے۔ خواجہ سعد رفیق، طلال چوہدری، دانیال عزیز، خواجہ محمد آصف اور دیگر بھی لپیٹ میں ہیں۔ شہباز شریف کے قریبی ذرائع کہتےہیں کہ رواں سال عام انتخابات مسلم لیگ (ن) کے لئے پنجاب میں سخت ترین ہوں گے۔ نواز شریف کے بعد واحد امید شہباز شریف پر یہ دبائو پریشان کن ہے۔ سانحہ ماڈل ٹائون کی روز انہ کی بنیاد پر سماعت اگر درست بات ہے تو مسلم لیگ (ن) اور شہباز شریف کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے شہباز شریف پارٹی بیانیہ کےبارے میں واضح موقف چاہتے ہیں جبکہ وہ مریم اور چوہدری نثار کے اختلافات ختم کرانے میں بھی سنجیدہ ہیں۔ انہوں نے سابق وزیر داخلہ سے جہا ں گھنٹوں کئی ملاقاتیں کیں وہیں انہوں نے گزشتہ اتوار کو جب ملے تو پارٹی قائد نواز شریف کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ چوہدری نثار کا پارٹی سے اخراج تباہ کن ہوگا۔ اپنی مفاہمتی پالیسی کے تحت شہباز شریف چاہتے ہیں کہ پرویز رشید اور چوہدری نثار دونوں مسلم لیگ (ن) کا حصہ ہوں۔ اس وقت بظاہر یہ مشکل دکھائی دیتا ہے۔ پنجاب میں اپنی حکومت کی کارکردگی کی بنیادپر شہباز شریف کو آئندہ انتخابات میں کامیابی کا یقین ہے۔ نواز شریف کی تاحیات نااہلی اور ممکنہ سزا کے ساتھ اگر سانحہ ماڈل ٹائون کے تناظر میں دوسرا شریف بھی پکڑا جاتا ہے تو دیکھنا ہوگاکہ پارٹی یکجا رہ سکتی ہے یا نہیں؟ ن لیگ کا ووٹ بینک شاید برقرار اور اس میں اضافہ بھی ہوا ہو لیکن شہباز شریف کو کچھ ہوا تو ن لیگ بھی بکھر کررہ جائے گی۔ اپنی صحت سے متعلق مسائل کے باوجود شہباز شریف چاق و چوبند دکھائی دیتےہیں۔ ان کی انتھک سرگرمیاں گواہ ہیں لیکن پنجاب میں نیب کا متحرک کردار ان کے لئے باعث تشویش ہے۔ جو بات زیادہ مایوس کن ہے وہ یہ کہ غوث علی شاہ جیسے رہنما پارٹی میں واپس آنے کو تیار نہیں ہیں۔ بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں جو کچھ ہوا، مسلم لیگ (ن) اور شہباز شریف کو اشارہ ہے کہ ’’سب کچھ ٹھیک نہیں ہے‘‘ یہ سیاسی پیش رفت یقیناً تحریک انصاف کی کامیابی کے امکانات بڑھادے گی۔ مسلم لیگ (ن) اس وقت مشکل میں ضرور ہوگی لیکن اس کے امکانات کو رد بھی نہیں کیا جاسکتا۔ آئندہ 90؍ دنوں میں شہباز شریف اور عمران خان کے درمیان اعصاب کی جنگ متوقع ہے ۔ دونوں اقتدار کے لئے جنگ میں مضبوط ترین امیدوار ہیں۔ 

تازہ ترین