اُسے یقین ہے کہ شاعری میں ایک روز اُن کا بہت بلند مقام ہوگا،وغیرہ وغیرہ۔ یہ خط موصول ہوا تو جون صاحب پر تو جیسے پہاڑٹوٹ پڑا۔دل گیری و دل برداشتگی کا جو حال ہونا چاہیے تھا، ہوا۔ شکیل عادل زادہ نے بھی دیکھا اور اُس شاعر دوست نے بھی۔عرصے تک جون صاحب نے خطوط سنبھال کے رکھے اور عرصے تک وہ حسرت ویاس سے تذکرہ کرتے رہے اور یہ راز شکیل عادل زادہ، شاعر دوست اور اُس لڑکی کے درمیان ہی محدود رہا۔
جون صاحب کے علم میں آتا تو اُن کے غم و غصے کا کیا عالم ہوتا، کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ وہ غضب ناک بھی اتنے ہی تھے، جتنے جمالی، اتنے جلالی۔ پھر یہ ہوا،جیسا کہ بہت قریبی احباب بتاتے ہیں۔ ’’عالمی ڈائجسٹ‘‘ شایع ہورہا تھا، جون کھارادرسے اب کراچی کے پوش علاقے، گارڈن ایسٹ کی بڑی کوٹھی میں منتقل ہوگئے تھے۔ عالمی ڈائجسٹ کے ساتھ وہ آغاخان انسٹی ٹیوٹ میں، پروفیسر جوادالمسقطی کے زیرِ نگرانی عربی اور فارسی کی کچھ نادرونایاب کتابوں کا ترجمہ کررہے تھے۔
اِس سے پہلے اردوکی سب سے بڑی لغت کی ترتیب و تدوین میں بھی وہ کچھ عرصہ ُاردوڈکشنری بورڈ میں بھی کام کرچکے تھے۔انشا اور عالمی ڈائجسٹ کے ذریعے اُن کی ادبی حیثیت مستحکم ہوچکی تھی۔ کراچی میں کثرت سے ہونے والے مشاعروں کے مقبول شعرا میں ان کا شمار ہونے لگا تھا کہ ایک اسکول کے مشاعرے میں انھوں نے اسکول کی کارکن، زاہدہ حنا کو دیکھا۔ زاہدہ تعلیم کے ساتھ ملازمت بھی کررہی تھیں اور گھر بھی دیکھ رہی تھیں۔ اُن کے والد ِگرامی، ابوالخیر صاحب علالت کے سبب خانہ نشین ہوچکے تھے۔بڑی وضع، نستعلیق قسم کے بزرگ تھے، طبّی امور سے دل چسپی، علم و ادب کے دل دادہ۔ زاہدہ گھر کی بڑی تھیں،ایک بھائی،ایک بہن اور والدہ پر مشتمل اِس خانوادے کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
زاہدہ نے زندگی میں بہت محنت کی اور محنت ہی سے مقام بنایا۔ تعلیم کے دوران اُن کے پاس کتابوں کا بڑا ذخیرہ تھا، قراۃ العین کی عاشق، ابتدا ہی میں اُردو کے نام ور ادیبوں، شاعروں کو پڑھ لیا تھا۔سانولی،خوش چہرہ، خوش قامت اور خوش شعارزاہدہ اُن بہت سی لڑکیوں سے مختلف تھیں، جن سے جون کا واسطہ ہوا تھا،یا رہا تھا۔ زاہدہ حنا سے پہلی ملاقات کے بعد بات بڑھتی گئی۔زاہدہ کی مصروفیات کی وجہ سے ملاقاتیں تو کم کم ہوتی تھیں،فون اور خطوط یہ کمی دور کردیتے تھے۔ دونوں جانب سے خطوط کا سلسلہ معمول بن گیا تھا۔ جن چند قریب ترین احباب نے یہ خطوط پڑھے ہیں، اُن کی رائے ہے کہ اُردو میں گنتی کے خطوط کے مجموعوں میں زاہدہ اور جون کے خطوط بیش قیمت اضافے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بہ وجوہ ان کی اشاعت ممکن نہیں۔
ایک مرتبہ عبیداللہ علیم نے جون کو ایک اطلاع دی، جس سے وہ حواس باختہ ہوگئے۔ قصّہ کچھ یوں تھا کہ کسی نے زاہدہ کو خبر سنائی تھی کہ جون کی مرضی اور خواہش کے مطابق ان کا رشتہ ایک لڑکی فیروزہ کو بھیجا گیا ہے۔ دروغ برگردنِ راوی، خبر اُڑی کہ پیام کی یہ بات سن کر اور جون کی بے وفائی و بے اعتنائی کا سوچ کر زاہدہ نے خود کشی کی کوشش کی تھی۔ ظاہرہے، خبر بے بنیاد اور جھوٹی تھی۔ خدا جانے، یہ جون کی محبت تھی ، اپنے اہم ہوجانے کا احساس کہ ایک لڑکی نے ان کی خاطر اپنی جان لینے کی کوشش کی ہے یا دروغ گوئی کا معاملہ کہ جون نے مایوس ہوکر کہا’’ایسا جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔‘‘ زاہدہ عالمی ڈائجسٹ میں باقاعدہ لکھنے لگی تھیں، ترجمے کرتی تھیں،مضامین بھی لکھتی تھیں۔ان کی نثر شروع ہی سے پختہ،رواں اور دل کش تھی۔
کوئی آٹھ سالہ رفاقت کے باوجود اُن کی شادی بہرحال ایک مسئلہ بن گئی تھی۔ رئیس امروہوی کا خاندان تو جون صاحب کی خوشی میں خوش تھا لیکن اُدھر زاہدہ کے گھر والے، خصوصاً والد صاحب آمادہ نہیں ہوپارہے تھے۔ بہت دنوں تک حجّت ہوتی رہی، لیکن یہ مسلک وفرقے کا قضیّہ ٹلے کہ دونوں پرعزم تھے۔1970ء میں زاہدہ جون کی دلہن بن کے گھر میں آبسیں۔ نومبر1969ء میں شکیل عادل زادہ کی علٰیحدگی کے بعد ’’عالمی ڈائجسٹ‘‘ کی مدیر وہ پہلے ہی بن چکی تھیں۔ اس بیاہ نے بعد ازاں انھیں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا عطا کیا۔
زاہدہ حنا صاحب ِ طرز ادیبہ، جنھوں نے سفرِحیات میں اب تک عمدہ فکشن اور مضامین کے دو ہزار سے زیادہ فن پارے تخلیق کیے ہیں، ایک بااصول اور نظریاتی تخلیق کار بھی ثابت ہوئی ہیں۔ کئی انعامات، اعزازات اور ایوارڈ حاصل کرنے کے علاوہ سب سے بڑھ کر انھوں نے ایک تمغہ پایا ہے۔ ہمارے وطن میں ادیب، شاعر، تخلیق کار عمر بھر کی محنت کے بعد عزت اور گنتی کے چند ٹکے ہی کما پاتے ہیں۔ ایسے میں قومی اعزاز اُن کے لیے حوصلہ افزائی کا اَن مول تحفہ ہوتا ہے۔ حکومت ِ پاکستان نے 2006ء میں انھیں پرائڈ آف پرفارمینس دینے کا اعلان کیا، جسے انھوں نے اس وقت کی فوجی آمریت کے خلاف احتجاجاً لینے سے انکار کردیا اور رَد کردیا۔ اُن جیسے اور سلیم الرحمان صاحب جیسی شخصیات ہی معاشرتی ضمیر کے ماتھے پر سونے میں ڈھلا جھومرہیں۔
1971ء جون کی زندگی میں شہرت کا دوسرا درجہ لے کر آیا۔16دسمبر1971کو مشرقی پاکستان کی علٰیحدگی کا الم ناک سانحہ ہوا۔ اس آنسوؤں میں بھیگی رات کو عبیداللہ علیم نے پاکستان ٹیلی وژن کے لیے ان سے نظم لکھوائی ۔نظم کا عنوان تھا’’استفسار‘‘۔ اس کا شعر تھا’’کیا اِس قدر حقیر تھا اس قوم کا وقار، ہر شہر تم سے پوچھ رہا ہے، جواب دو!‘‘اس نظم نے لوگوں کے دل چھولیے اور یہ عوام کے جذبات کی آواز بن گئی۔ پاکستان ٹیلی وژن سب سے مقبو ل ومعروف ذریعۂ ابلاغ تھا۔
جون ایلیا کی شہرت خواص کے دائرے سے نکل کر عوام کے بحرِبیکراں میں موج درموج پھیلنے لگی۔ مبالغہ جون کی سرشت میں تھا۔ شاہ نامۂ فردوسی60ہزاراشعار پرمشتمل ایک عالم گیر شہرت و عظمت کا حامل رزمیہ ہے۔ جون نے فردوسی کے اتباع میں 50ہزار سطروں پرمشتمل ’’نئی آگ کا عہد نامہ‘‘ لکھنے کا اعلان کردیا۔ کئی برس گزر گئے۔ اس عہد نامے کے ہر حصّے کو لوح اور ان کی جمع کو الواح کہا گیا۔
سال ہا سال بعد جون نے دکھ سے اعلان کیاکہ بہت سی الواح چوری کرلی گئی ہیں۔ بعد میں کہا گیا کہ کئی الواح کھو گئی ہیں۔ بالآخر پانچ ہزار سطروں کی بات ہوئی اور یہ بات بھی نامکمل رہ گئی۔ زاہدہ حنا ان الواح کے ابتدائی سامعین میں سے تھیں۔ وہ رقم طراز ہیں۔ ’’نئی آگ کا عہدنامہ‘‘ کی ابتدائی الواح میں ن۔ م راشد کی جھلک نظر آتی تھی۔’’حسن کوزہ گر‘‘،’’اسرافیل کی موت‘‘ بہ طور خاص ’’دل مرے صحرانورد‘‘ جس میں راشد نے آگ کا ذکر سورنگ سے کیا ہے۔ وہ آگ، جو پرومی تھیس نے کوہ المپس سے چرائی اور اس نیم حیوان دوپایہ کو دی، جس کے لیے دیوتاؤں نے آگ ممنوع کر رکھی تھی۔ اسی جراَت کے سبب پرومی تھیس معتوب و مقہور ٹھیرا اور30ہزار برس کی سزا کاٹی۔
اسی نے آگ سے انسان کو آہن گری سکھائی، شکار کے کچے گوشت کو بھون کر کھانے کا سلیقہ عطا کیا، آگ جو اندھیری رات میں اسے بھیڑیوں اور لکڑبگھوں سے بچاتی تھی، وہ آگ جس نے خاک کے پتلے کو انسان بنایا، اسی آگ سے چرا غ جلے اور انسان پر علم و ہنر کے دروازے وا ہوئے۔ آگ جس کی تعظیم کا حق زرتشتیوں نے ادا کیا۔‘‘ وہ دور جون کی پرُگوئی کازمانہ ہے۔ ان کے ہاں خیال اور اس کی ترسیل جداگانہ اور حقیقی نظر آتے ہیں۔ جون نے اپنی شاعری سے سیکڑوں نئے خیالات ، تشبیہات اور استعارے متعارف کروائے۔ اُنھیں قبل ازاسلام کا عرب اپنی اور بلاتا تھا، وہ اُس دور کے کاہنوں سے تخلیقی تحریک حاصل کرتے تھے۔
اُن کے ہاں انجیلِ مقدس، قرآنِ کریم اور دیگر صحائف کے نشانات ملتے ہیں، متزلہ فلسفیوں کے مباحث، کانت، نطشے اور سارتر کے خیالات کا عکس نظر آتا ہے۔ اس علمی مرتبے ہی نے بابائے اردو، مولوی عبدالحق کو قائل کیا تھا کہ وہ جون کی نوجوانی ہی میں اُن کی آمد پر کھڑے ہوگئے تھے۔جون خوب جانتے تھے کہ فلسفے کی ابتدا حیرت و استعجاب سے ہوتی ہے۔ اس میں تشکیک کا رنگ بھی شامل ہوجاتا ہے۔ کائنات وسیع ہے اور فہمِ انسان میں آنے والے سوالات بے شمار۔ قدم قدم پر الجھنیں انسان کے قدموں سے لپٹ جاتی ہیں۔ انھوں نے اپنی بھتیجی شاہانہ کو سقراط کے حوالے سے اُس کے دمِ آخریں کا جملہ سنایا تھا’’افسوس کہ پیچیدہ گتھیاں سلجھاتے سلجھاتے وقت تمام ہوگیا۔ ہاتھ کیا آیا؟ کچھ بھی نہیں۔‘‘ اُن کا اپنی بھتیجی کو فلسفے کا درس دیتے ہوئے مکالمہ اُن کی ذہنی پختگی کا عکّاس ہے۔ ’’مذہبی لوگوں کو معلوم تو ہو کہ اسلام میں فلسفے کا کیا مقام ہے۔
جب فلسفہ یونان سے دنیائے اسلام میں پہنچا، تو وہیں سے ان دونوں میں ٹھن گئی اور جب غزالی نے ابونصر فارابی، ابنِ رشد اور ابنِ سینا جیسے دیوقامت فلسفیوں کی تعلیم سے انکار کیا تو شدت سے آگ بھڑک اٹھی۔‘‘’’مگر چچا آخر دنیائے اسلام کو فلسفے سے کیوں نفرت ہوئی۔‘‘ اُس نے دل چسپی سے پوچھا۔ ’’ہاں ، توُ نے اچھا سوال کیا۔ ایک فرانسیسی دانش ور، ارنسٹ رینان تھا۔ وہ کہتا ہے کہ سامی نسل یعنی عرب مسلمان اور یہودی ایک خاص مزاج کے حامل ہیں۔ وہ نظریہ توحید کے علاوہ اور کوئی نظر یہ ایجاد نہ کرسکے۔ رینان کہتا ہے کہ سامی نسل کے ذہن میں پیچ در پیچ مسائل کی گنجایش نہیں ہے۔
اس کا خیال ہے کہ سامی لوگوں کی عقل بدوی اور صحرائی ہے۔ عرب مختلف چیزوں کے درمیان ربط پیدا نہیں کرسکتے۔ یہ کمال آریائی قوم کا ہے۔‘‘ ’’چچا جون!رینان نے صحیح تو کہا تھا۔ اب تک یہی لگتا ہے کہ وہ واقعی رینان کے مطابق بدوی اور صحرائی ہیں۔‘‘’’نہیں بالی، اس طرح نہیں ہوتا کہ کسی قوم کو ایک خول میں بند کردیں، یہ غلط ہے۔ مزاجی کیفیات کوئی سائنس کا علم نہیں ہے، جو ’’دو اور دوچار‘‘ کے اصول پر پرکھا جاسکے۔ رینان کچھ زیادہ ہی بول گیا۔ میں تجھے بتاؤں کہ عربوں نے نظریہ توحید اور علمِ اصول فقہ میں تنظیمِ فکر اور تسلسل نظر کا بہت شان دار مظاہرہ کیا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس علم کے ذریعے مسلمانوں نے ایک منطقی فکر پیدا کی، جس سے فیض حاصل کرکے یورپ جدید ثقافت کا بانی بن گیا۔‘‘’’چچا جون! ہم جو عصرِ حاضر میں عرب مزاج دیکھ رہے ہیں ، وہ توقطعی شان دار یا مرعوب کن نہیں ہے۔
میرا خیال ہے کہ رینان کا تجزیہ صحیح تھا۔میرا اندازہ یہی ہے کہ عام عرب کے پاس صرف دولت کی ریل پیل ہے، ورنہ باقی تو کوئی خوبی نظر نہیں آتی۔ چچا جون! نہ اس عہد میں وہاں کوئی غیر معمولی دانش وَر پیدا ہوا۔ ہم نے جو دیکھا کہ وہاں دولت کے بل پر صرف ٹھٹھول ہوتی ہے۔ ابونصر فارابی، ابنِ رشد، ابنِ سینا تھے اور بہت اہم تھے، مگر بہ قول تمھارے کہوں کہ غزالی نے ان کی دھجیاں اڑا دیں۔ بہرحال، اب تک جو تم نے بتایا اور پڑھایا، تھوڑی بہت آگہی سے میں رینان کے ساتھ ہوں۔‘‘’’اب میں تجھے یہ بتاؤں گا کہ امام شافعی ؒ اور ان کے شاگردوں نے علمِ اصولِ فقہ کے اصول وضوابط بنائے اور خاص توجّہ سے کام لے کر انھیں باقاعدہ علم کی حیثیت عطا کردی اور جیسا میں نے تجھے بتایا کہ یورپ نے اس علم سے فیض حاصل کیا۔
اب بتاؤ کہ تمھاری رائے کیا ہے۔‘‘’’چچاجون!کیا علمِ فقہ ایک مذہبی تفکر نہیں ہے، تو ایسی کون سی بڑی بات ہے، میں تم سے صرف اور صرف خالص فلسفے کی وضاحت چاہتی ہوں۔‘‘ شاہانہ نے جوش و خروش سے اپنا خیال پیش کیا۔’’چلو اچھا ہے کہ تو نے شک کرنا شروع کردیا ہے۔ مگر کسی ایک شخص کی رائے نہیں ماننی چاہیے۔ ورنہ تو فلسفہ کم، مذہب زیادہ بن جائے گا۔‘‘
تفکّر ان کے معدے پر اثر انداز ہوتا رہا۔ صحت بگڑتی رہی۔ آگہی کا بوجھ اُن کی کمر توڑتا رہا۔ وہ اس وزن سے نجات کے لیے چند پالتو خبطوں سے مدد لیتے رہے۔ اہلِ دانش میں سنک اور خبط عام رہے ہیں، بحیرئہ اسود کے یونانی دیوجانس کلبی سے لے کرآرمینیااور دلی کے سرمد تک ، مزنگ، لاہور کے میراؔجی سے لے کر امروہے کے جون ایلیا تک سبھی اس قافلے میں شامل رہے ہیں۔ ویسے بھی ایک مفکّر سے توقع کرنا کہ وہ ولی اللہ کی صفات کا حامل ہو، ایک کھلاڑی سے فلسفے کی اُمید کرنا اور شاعر سے انسان کامل ہونے کی خواہش کرناایسے ہی ہے، جیسے شیر سے مور کا انڈا دینے کی توقع کی جائے۔
جون کو پیٹ کا عارضہ بڑھ گیا۔ طبیب سے باقاعدہ علاج کرواتے ہوئے ایسے جملے بولتے، جو اُس کی سمجھ سے بالا ہوتے۔ ’’ڈاکٹر! ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے میرے معدے کی چھت گرگئی ہے اور اس کے ملبے میں میری بھوک دفن ہوگئی ہے۔‘‘ ’’ڈاکٹر! میری نیندوں کے پرندے میری آنکھوں کے گھونسلوں سے اُڑ گئے ہیں۔ بہتیرا دانہ ڈالتا ہوں، مگر کم بخت واپس ہی نہیں آتے۔‘‘ایک مرتبہ تو شاعرانہ تعلّی سے کام لیتے ہوئے کہنے لگے۔ ’’ڈاکٹر! میرے ذہن میں یہ آندھیاں سی کیوں چلتی رہتی ہیں۔ یہ تو آندھیوں کا موسم بھی نہیں۔ ہمارے امروہے میں تو جب آم کا موسم ہوتا تھا، تو آندھیاں چلتی تھیں اور ٹپ ٹپ آم گرتے تھے۔‘‘یہ باتیں سادہ مزاج طبیب کے سرسے گزر جاتیں، البتہ صاحبانِ ادراک پر ضرور کھل کھل جاتیں۔
مترجّم، افسانہ نگار اور شاعر صغیر ملال نے جون پر لکھتے ہوئے ان کی بھید بھری شاعری اور خیالات کو انوکھے انداز میں تشبیہ اور مقولے کی مدد سے بیان کیا۔ ’’ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ سے جنگ ہار گیا۔ فتح مند بادشاہ نے شکست خوردہ حریف کو محل کے ستون سے باندھ دیا۔ جب اس کی ملکہ پابہ زنجیر اس کے سامنے سے گزری تو وہ اسے خاموشی سے دیکھتا رہا۔ ملکہ کے بعد فتح کے نشے سے چور سپاہی اس کے بیٹوں اور بیٹیوں کو بالوں سے گھسیٹتے لے گئے، تب بھی اس کی آنکھیں خشک رہیں، لیکن کچھ دیر بعد جب اس نے دیکھا کہ اس کے غلام کے ہاتھ پاؤں بندھے ہیں اور جیت جانے والے، اسے بھی زدوکوب کرتے لے جارہے ہیں تو اچانک وہ رونے لگا، چیخنے لگا اور اپنا سر ستون سے پٹخ پٹخ کر لہو لہان کرلیا۔‘‘ یہ قصّہ آج تک مجھ پر پوری طرح واضح نہیں ہوا لیکن جب بھی یہ واقعہ ذہن سے گزرا ہرمرتبہ محسوس ہوا کہ اس میں اَن گنت پیغامات، معانی اور اشارے ہیں۔ نطشے نے زرتشت کی زبانی یہ بھی کہا ’’مجھے شاعروں سے نفرت ہے۔
وہ اپنے پانی کو گدلا کردیتے ہیں تاکہ تہ اوجھل ہوجانے کے باعث وہ گہرے معلوم ہوں‘‘ لیکن جون ایلیا کے خیالات تو مٹیالے بھی نہیں۔ اس کے سلیس الفاظ کی شفّاف سطح سے، تہ میں پڑی سیپیاں جھل مِل کرتی نظر آتی ہیں مگر انھیں چھونے کی کوشش کرنے والا لذّت اور اذیّت کے طوفانوں سے گزرتا ہے۔ ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی؟ ایک مرتبہ جون ایلیا نے کہا کہ ’’لکھنا لکھانا دراصل غیر فطری کام ہے۔ اس لیے تمام باشعور ادیبوں کو لکھنے سے دست بردار ہو کر محض بولنے پراکتفا کرنا چاہیے۔‘‘یہ سن کر میں سنّاٹے میں آگیا۔
منطقی اعتبار سے اس کی بات درست تھی۔ بولنا فطری اور لکھنا غیر فطری ہے۔ ٹالسٹائی بھی ’’جنگ وامن‘‘ جیسے ناول سے دنیا کو ششدر کرنے کے بعد کچھ اسی طرح کے خیالات میں ڈوب کر خاموش ہوگیا تھا ۔‘‘ دوستوں کی ایک محفل میں تہذیب وتمدّن پر بحث جاری تھی۔ جون کہنے لگے’’سمندروں کے کنارے تجارت اور معیشت پروان چڑھتی ہے، دریاؤں کے کنارے تہذیب۔‘‘
کیا بامعنی جملے میں پوری فکر سمودی۔ ایک مرتبہ کہنے لگے ’’ہم ایک ہزار سال سے تاریخ کے دستر خوان پربیٹھے حرام خوری کررہے ہیں۔‘‘ فقرے بازی اورکلیے وضع کرنے میں انھیں کمال حاصل تھا۔ کیا چست اور شان دار فقرے اور کلیے تخلیق کرتے۔ ان کے نثری مجموعے’’فرنود‘‘ میں ایسے بے شمار جملے ملتے ہیں جو اِنھی کاخاصّہ ہیں۔ لکھتے ہیں’’اگرآپ کام یاب عشق کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو ایک غیر عاشق اور عاقل قسم کا آدمی ہونا چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ ایک بہت عیّار اور گھٹیا شخص۔‘‘ ایک پرُمعانی جملہ ہے’’کوئی جنازہ کبھی تنہا نہیں اُٹھتا، اُس کے ساتھ کئی جنازے اُٹھتے ہیں۔‘‘
اسی طرح ایک پیچیدہ گتھی کو جملے میں بیان کردیا’’اسلام ایک نظامِ حیات ہے اور فلسفہ وجود کی مطلق ومجردّبحث کا نام۔ اسی لیے فلسفہ مسلمانوں میں آکر فنا ہوگیا۔‘‘ ایک جانب جون کی فکر جولانی پرتھی، دوسری جانب سنک بڑھ رہی تھی۔ اُن کے مزاج کی آزاد روَی، احباب کے ساتھ تسلسل سے شامیں بسر کرنے اور معاشی ذمّے داریوں سے روگردانی شادی پر آنچ لے آئے۔ بچّوں کو نظر انداز کیے جانے نے جلتی پر تیل کا کام کیا ۔چشم کشا امر تو یہ ہے کہ تمام تر شاعرانہ مزاج اور دل پھینک اطوار کے باوجود شادی کے دوران جون زاہدہ سے مکمل وفادار رہے۔اُن کا اور زاہدہ کا بیاہ آگ اور پانی کا ملاپ تھا۔
اب ایسا موقع آگیا تھا کہ یاتو پانی نے آگ کو بجھا ڈالنا تھا یاآگ نے پانی کو خشک کردینا تھا۔ بالآخر وہ وقت آگیا، جب زاہدہ نے جون صاحب سے طلاق کا مطالبہ کردیا ۔ان کے احباب کا کہنا ہے، یہ مطالبہ جون پر بجلی کی کڑک کی طرح ٹوٹا۔ انھوں نے اپنی سی بھرپور کوشش، منّت سماجت اور ناراضی اختیار کرکے دیکھ لی۔ پَر یہ علیٰحدگی قسمت کے صحائف پر رقم ہوچکی تھی۔ اس طرح یہ جوڑی ٹوٹ گئی۔
طلاق کے بعد جون کی زود رنجی بڑھ گئی اور توہّم پرستی بھی۔ توہم پرست تو وہ شروع سے تھے۔ اکیلے میں گھٹنوں کے بَل کچھ پڑھتے رہتے، پھر کھڑے ہوکر زیرِ لب پڑھنے لگتے۔لکھنے سے پہلے گیارہ کا ہندسہ لکھا کرتے تھے۔ غم گینی ان کی سرشت میں تھی۔ اکثررات کو جذباتی کیفیت میں رئیس امروہوی کی قدِآدم تصویر کے سامنے کھڑے ہوجاتے تھے، روتے تھے اور اپنے بال نوچتے ہوئے بڑے بھائی کو ملامت کرتے ہوئے کہتے تھے ’’توُ کیوں مرگیا، توُڈراما باز ہے۔ جان کر ڈرامے کا اختتام ایسے کیا کہ سب تڑپ کر رہ گئے۔‘‘
علیٰحدگی کے بعد جون نے مزاروں پر جانا شروع کردیا۔ دِلّی میں نظام الدین اولیاؒ کے مزار پر گئے، تو دن بھر وہیں پڑے رہتے۔ کراچی سے لے کر سیہون تک اور لاہور سے لے کر دِلّی تک مزاروں کاطواف کرنا عادت سی بن گیا۔ پر دل کی بے قراری کو قرار نہ آتا تھا۔ ایک روز دن بھر شہر گردی کرکے جون گھر آئے تو اُن کے چہرے پر زردی کھنڈی ہوئی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے جسم سے خون نچوڑ لیا گیا ہو۔ کہنے لگے۔ ’’میرا بکسا تیار کردے، میں جارہا ہوں۔‘‘ پوچھا گیا۔’’کہا ںجارہے ہو؟‘‘انھوں نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں کہا ’’مَیں،مَیں امروہہ جارہا ہوں۔
امّاں اور ابّا کے پاس۔میں اب یہاں رہ کر کیا کروں۔میں برباد ہوگیا۔ مجھے امّاں کے پاس جانا ہے۔‘‘بہت دیر بعد جون کا یہ جنون تھما۔ چند برس آہ وزاری، کچھ سال اداسی اور مزید گنتی کے برس آس میں گزر گئے۔ یہ آس ایک اور بیاہ رچانے کی، ایک اور رومان لڑانے کی تھی۔ ہردوسرے شخص سے درخواست، التجا، تقاضا کرتے کہ ان کا بیاہ کروادیا جائے۔ جلد ہی ان کی یہ خواہش معروف ہوگئی۔ اُن کی چند مدّاح لڑکیوں، بالیوں اور خواتین نے اس خواہش کا فائدہ یوں بھی اٹھایا کہ شاعری کی اصلاح لی، اپنے وقت کے اہم شاعر کے ساتھ بے ضرر سادہ وقت بِتا کر یادوں کے تتلی گھر میں لمحات کی چند تتلیاں سجائیں اور اُڑن چھو ہوگئیں۔
اُن میں سے ایک لڑکی گھنٹوں ان کے پاس بیٹھی رہتی۔ کوئی اور بیچ میں آن بیٹھتا، تو جون باقاعدہ شرما جاتے۔ آخر کو بڑی عمر کے لڑکے ہی تو تھے۔ آہستہ آہستہ وہ لڑکی ان کی زندگی میں پوری طرح داخل ہوگئی۔ جون کو زکام ہوتا، تو ادرک اور دار چینی کی چائے بناتی، جون اُداس ہوتے تو دِل لبھاتی۔ اہلِ خانہ کا خیال تھا کہ وہ جون کے ساتھ اپنا نام منسوب کرکے مشہور ہونا چاہتی تھی۔ایک دن شاہانہ ٹہلتی ہوئی جون کے دفتر جانکلیں تو وہاں اُس لڑکی کو جون کی کرسی کے پیچھے یوں کھڑا پایا کہ وہ ان کا سر دبا رہی تھی۔
بھتیجی نے چچا سے پوچھا کہ اُنھیں کیا ہوا تو وہ لڑکی بول اُٹھی۔’’جون صاحب کے سر میں درد ہے۔ باجی مجھے تیل لادیجیے ۔ میں ان کے سر میں مالش کردوں۔‘‘بھتیجی اندر چلی گئی، تو جون گھبرائے ہوئے پیچھے پیچھے آئے اور بولے ’’باؤلی ہوگئی ہے، میرے سر میں تیل کی مالش کرے گی تو اُسے معلوم ہوگا کہ میرے سر میں جوئیں ہیں، توُ واپس مت آنا۔‘‘وہ لڑکی جون کو اپنے گھر سے لائے ہوئے کھانے نوالے بنا بنا کر کھلاتی اورجون شرماتے ہوئے فرماںبر داری سے کھاتے جاتے۔ دونوں خوب بن ٹھن کر ادبی محافل میں جاتے۔
جون جوہرکسی سے اپنی شادی کا کہتے تھے، اس لڑکی سے بیاہ کا کسی کو نہ کہتے تھے۔ غالباً جون خود بھی نہیں جانتے تھے کہ وہ کیاچاہتے ہیں۔ آہستہ آہستہ یہ تعلق کم زور پڑنے لگا۔ دونوں کی عمروں میں تیس برس کا فرق تھا۔ ابتدائی چمک ماند پڑی اور غیر محسوس انداز میں یہ تعلق دوستی سے ہوتا ہوا شناسائی تک آیا اور اجنبیت پر ختم ہوگیا۔
جون کی شہرت کا آخری درجہ ان کی شاعری کی پہلی کتاب ’’شاید‘‘ کی اشاعت کے ساتھ آیا۔یہ تیسرا درجہ تھا۔ اب وہ صاحب ِکتاب تھے۔ اس سے پہلے ان کا کلام بکھرا ہوا تھا، سو اسے باقاعدہ تعارف مل گیا تھا۔ اُن کا پہلا مجموعہ کلام 1990ء میں تب سامنے آیا، جب وہ قریباً ساٹھ برس کے ہوچلے تھے۔ اس تاخیر کی بھی ایک وجہ تھی۔ جون نے اپنے والد علاّمہ شفیق حسن ایلیا سے وعدہ کیا تھا کہ وہ بڑے ہوکر والد کی تخلیقات شایع کروائیں گے۔
والد کی وفات کے بعد، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُن کے سارے مسوّدات کھوگئے۔ والد کی تصانیف نہ چھپوا سکنے کا جون کو بہت احساس تھا۔ ندامت کے اسی احساس نے جون کو ان کا اپنا کلام شایع کروانے سے روکے رکھا۔ چند ستم ظریف اس کا پہلوئے دیگر بھی کھوج نکالتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جون نے والد سے وعدہ کیا تھا کہ بڑے ہوکر وہ ان کا کام شایع کروائیں گے۔ جون تو ساری عمر بڑے ہوئے ہی نہیں۔ وہی من چلے انداز اور بانکپن کی زندگی۔ سو، اگر انھوں نے وعدہ ایفا نہیں کیا، اس کی مدلّل وضاحت موجود تھی۔ جون کے آخری ایام کے حوالے سے شکیل عادل زادہ فرماتے ہیں۔ ’’آخر میں شراب کی کثرت اور شراب بھی سستی یا جو بھی میسّر آجائے۔ ڈاکٹروں کی تنبیہ کے باوجود باز نہیں آئے۔
سب کو یقین دلاتے تھے اور اپنے آپ کو بھی ۔’’بھیا! اللہ پاک کی قسم، ٹیسٹوں میں جگر ایسا صاف آیا ہے، جیسے کسی بچّے کا ہو۔‘‘اُن کی قریبی عزیزہ کا بیان ہے ۔ ایک رات سردیوں کے موسم میں سلگتی سگریٹ ہاتھ میں تھی۔ بستر پہ آئے تو نیند نے آلیا۔ گھر میں کپڑا جلنے کی بو پھیلی تو افراتفری سی ہوگئی۔ اُن کے کمرے میں جاکے دیکھا تو رضائی جل رہی تھی۔ دھویں سے کمرا اَٹا ہوا تھا۔ وہ تو جانیے، بس خیر ہوگئی۔ دمَے کا عارضہ بھی لاحق تھا۔ کبھی کبھی تو بڑی شدت ہوجاتی تھی۔اِن ہیلرسے سانسیں بحال کرتے تھے۔ حساب کتاب میں صفر،پیسے پاس رکھنے سے بے نیاز۔
آخری برسوں میں جائداد کی فروخت سے ایک بڑی رقم ملی۔ رقم کی نگرانی کے لیے ایک دوست پر اعتماد کیا اورکچھ غلط نہیں کیا۔ایک روز مجھے فون کیا ۔کہنے لگے ’’اِن دنوں تجھے کچھ پریشان محسوس کیا ہے۔ مسئلہ کیا ہے؟‘‘ ’’سب رنگ‘‘ کی عدم تواتری سے اُس وقت میرا ہاتھ واقعی تنگ تھا۔میں نے جھجک کی تو بولے ’’جانی!میری باری بھی تو آنی چاہیے۔ جلدی سے فرماؤ، سرِدست کتنے میں کام ہوسکتا ہے؟‘‘انھوں نے دوسرے دن مجھے چیک بھجوادیا۔‘‘
آخری عمر میں جون کو دو بہت مخلص دوستوں کی قربت میسّر رہی۔ یہ اُن کی خوش نصیبی تھی اور ان احباب کی بھی۔ ایک خالد احمد انصاری ہیں، جنھوں نے جون کی وفات کے بعد ان کے تین شعری مجموعے ’’گمان‘‘،’’لیکن‘‘،’’گویا‘‘شایع کرکے ان کلام محفوظ کرلیا اور ان کی نثر کو بھی۔ جون کے شاہ کار مقالوں کی کتاب ’’فرنود‘‘ کی اشاعت کا بھی خالد انصاری نے اہتمام کیا۔ناقدین کی رائے میں یہ ایک بے پناہ نثری مجموعہ ہے۔
انھوں نے یہ بھی ثابت کردیا کہ مخلص اور جاں نثار دوست صدقۂ جاریہ ہوتے ہیں۔ دوسرے دوست علاّمہ کرّار تھے، جن کے گھر جون نے آخری ایام گزارے اور ایک طویل نظم ’’نئی آگ کا عہد نامہ‘‘ پر مبنی کتاب ’’راموز‘‘ نے وہیں تخلیق پائی۔ وہ جون کے عزیز تھے، بیماری میں اُن کا علاج کروایا،اُن کی دولت کی حفاظت کی اور جون کی وفات 8نومبر2002ء کے بعد جنازہ بھی ان کے ہاں سے اُٹھا۔ بعد ازاں، انھوں نے جون کی ایک ایک پائی اُن کی اولاد کو بہ حفاظت یوں سونپ دی، جیسے ایک بھاری ذمّے داری سے عہدہ برا ٓہوئے ہوں۔
زمانۂ حال میں ایسے لوگ کم یاب نہیں، نایاب ہیں۔ جون صاحب جس دنیا سے تھے، وہیں لوٹ گئے۔’’گمان‘‘ ہوتا ہے، ’’شاید‘‘ رئیس، تقی اور عباس صاحب کے ساتھ اندر سبھا سجائے بیٹھے ہوں۔ ’’گویا‘‘ وقت تھم چکا ہے اور کراچی کی کوٹھی ’’نرجس‘‘ ہی میں منجمد ہے ’’لیکن‘‘ وقت بھی کبھی رکا ہے۔
(نوٹ: جون صاحب کے خاکے میں بیان کیے گئے متعدد واقعات، ان کی بھتیجی شاہانہ رئیس ایلیا کی کتاب ’’چچا جون‘‘ سے ماخوذ ہیں)