کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے معاون خصوصی وزیراعظم برائے ریونیو ہارون اختر نے کہاہے کہ حکومت مالی خسارہ کو 8.2فیصد کو کم کر کے 5.3فیصد تک لے آئی ہے ، اگر مالی خسارہ چار فیصد تک لانے کی کوشش کی گئی تو جی ڈی پی پیچھے جاسکتا ہے، دیکھنا ہوگا کہ روپیہ اپنی قدر مستحکم رکھ سکتا ہے یا نہیں، حکومت صحیح معاشی سمت میں چل رہی ہے ایمرجنسی کی کوئی ضرورت نہیں ہے، تھیوری کے بجائے زمینی حقائق پر مبنی معاشی پالیسی بنانا ہوگی۔میزبان شاہزیب خانزادہ نےتجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ نگراں وزیراعظم کی تلاش ابھی تک جاری ہے نواز شریف کا نگراں وزیراعظم کا نام تجویز کرنے سے دستبرداری کا مقصد آصف علی زرداری کو منانا ہے سینئر تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ تحریک انصاف نگراں وزیراعظم کیلئے نام قبول کرے یا نہ کرے اس کا مرکز میں اثر نہیں ہوگا البتہ پنجاب میں پڑسکتا ہے۔ پیپلز پارٹی نے نگراں وزیراعظم کیلئے ن لیگ کی طرف سے دیئے گئے نام مسترد کردیئے تھے، پیپلز پارٹی ان ناموں پر کسی صورت اتفاق کیلئے تیار نہیں تھی، پیپلز پارٹی اورن لیگ میں حالیہ دنوں میں ایک بڑی مس انڈراسٹینڈنگ ہوئی، اسلام آباد میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں سینیٹ الیکشن سے دو دن پہلے اتفاق ہوا تھا کہ چیئرمین سینیٹ کیلئے رضا ربانی دونوں پارٹیوں کے متفقہ امیدوار ہوں گے، یہ بھی طے پایا تھا کہ ن لیگ کی طرف سے یہ نام لیک نہیں کیا جائے گا تاکہ رضا ربانی کا نام متنازع نہ ہو، لیکن ن لیگ کی قیادت نے پوائنٹ اسکورنگ کیلئے پہلے ہی رضا ربانی کا نام دیدیا ، اس واقعہ کے بعد پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان ڈیڈ لاک ہوگیا تھا، ن لیگ کی ایک بہت اہم شخصیت اس غیر رسمی اتفاق رائے میں ضامن تھی جس کی وجہ سے اس کی ساکھ متاثر ہوئی، کچھ دنوں پہلے انہوں نے دوبارہ پیپلز پارٹی سے رابطہ کیا اور کہا کہ ہم سے پہلے جو غلطی ہوئی دوبارہ نہیں کریں گے اب آپ نگراں وزیراعظم کیلئے نام لے آئیں ہم نام نہیں دیتے تاکہ اتفاق رائے ہوجائے۔ حامد میر نے بتایا کہ فی الحال آصف زرداری اور نواز شریف کی سطح پر کوئی رابطہ نہیں ہے، ن لیگ کی اہم شخصیت نے فریال تالپور سے رابطہ قائم کیا لیکن انہوں نے اس حوالے سے بات کرنے سے انکار کردیا، اب تمام معاملہ خورشید شاہ اور شاہد خاقان عباسی کے درمیان چل رہا ہے، دونوں نے کچھ نام غیررسمی طور پر ایک دوسرے سے شیئر کیے ہیں۔ میزبان شاہزیب خانزادہ نےتجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ، حکومت اور اپوزیشن مل کر نگراں حکومت کا انتخاب کریں گے، کس کا انتخاب کریں گے اور کب تک کریں گے یہ واضح نہیں مگر فیصلہ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر نے اتفاق رائے سے کرنا ہے،حکمراں جماعت نے نگراں وزیراعظم کیلئے نام تجویز نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، دی نیوز اور جنگ میں شائع ہونے والی اعزاز سید کی خبر کے مطابق ن لیگ نے نگراں وزیراعظم کیلئے نام تجویز نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنا یہ اختیار پیپلز پارٹی کو دیدیا ہے، یوں اب اتفاق رائے سے نگراں وزیراعظم کی تقرری میں بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں دکھائی دے رہی ہے کیونکہ پیپلز پارٹی جو نام دے گی ن لیگ اس پر اتفاق کرے گی، خبر کے مطابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے نواز شریف کا پیغام ملنے کے بعد گیارہ اپریل کو ہونے والی ملاقات میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کو بتادیا تھا کہ حکومت نگراں وزیراعظم کیلئے نام تجویز نہیں کرے گی، نواز شریف کا نگراں وزیراعظم کا نام تجویز کرنے سے دستبرداری کا مقصد آصف علی زرداری کو منانا ہے، خورشید شاہ نے پارٹی قیادت سے منظوری کے بعد تحریک انصاف سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں سے مل کر نگراں وزیراعظم پر غور کیا اور بتایا جاتا ہے اپوزیشن نے کچھ ناموں کو حتمی شکل دیدی ہے، ن لیگ کے سینئر رہنما پرویز رشید نے تصدیق کی ہے کہ ن لیگ نام تجویز کرنے کے اپنے اختیار سے دستبردار ہوگئی ہے، خبر کے مطابق نواز شریف چاہتے ہیں کہ نگراں وزیراعظم کیلئے فیصلہ سیاسی جماعتیں کریں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ پیپلز پارٹی ان کے پیش کردہ ناموں پر اتفاق نہیں کرے گی، پیپلز پارٹی راضی نہ ہوئی تو معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس چلا جائے گا جبکہ نواز شریف نہیں چاہتے کہ معاملہ الیکشن کمیشن تک جائے تو اس لئے انہوں نے سیاسی اتفاق رائے کیلئے اپنا نام تجویز نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ شاہزیب خانزادہ نے بتایا کہ اس حوالے سے ہم نے ن لیگی رہنما پرویز رشید سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ پہلے مرحلہ میں دیکھیں گے کہ پیپلز پارٹی کون سے نام سامنے لاتی ہے، اگر نام ٹھیک نہ لگے تو پھرن لیگ اپنے نام سامنے لائے گی،یہ ایک اہم فیصلہ ہے کیونکہ اس طرح وفاق کی حدتک حکومت اور اپوزیشن نگراں وزیراعظم لے آئیں گے، مگر کیا تحریک انصاف اس بات پر مان جائے گی، نگراں وزیراعظم کیلئے تحریک انصاف کی جانب سے بھی کچھ نام سامنے آئے ، مگر اس کے بعد پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف میں سخت بیانات کا تبادلہ ہوا، تحریک انصاف کے رہنما نعیم الحق نے سابق چیف جسٹس جسٹس تصدق جیلانی، سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر عشرت حسین کے نام پر اتفاق کا دعویٰ کیا، اس بیان کے بعد اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے مشاورت کے بغیر نام سامنے لانے پر تحریک انصاف کو تنقید کا نشانہ بنایا، خورشید شاہ نے الزام لگایا کہ تحریک انصاف نگراں وزیراعظم کیلئے سامنے آنے والے نام کو متنازع بنانا چاہتی ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں پر اعتراضات سن رہا ہے، یہ سلسلہ چار مئی تک جاری رہے گا جس کے بعد نئی حلقہ بندیوں کا حتمی نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا لیکن اس نوٹیفکیشن کی وجہ سے الیکشن کے مقررہ وقت پر انعقاد پر شبہات پیدا ہورہے ہیں، اس حوالے سے قومی اسمبلی اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے قانونی نکتہ اٹھایا ہے، گزشتہ روز صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ انتخابی اصلاحات ایکٹ کے تحت حلقہ بندیاں مکمل ہونے کے 120دن میں الیکشن ہونے چاہئیں، آئین کے مطابق اسمبلی کی مدت مکمل ہونے کے 60دن میں الیکشن ہونا ہے۔