• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سیرت اقبالؒ کی چند جھلکیاں

فقیر سید وحید الدین

تحفۂ درویش

افغانستان میں بچہ سقہ نے امیر امان اللہ خاں کے خلاف جب بغاوت کردی اور ملک کے حالات انتہائی ابتر ہوگئے تو نادر شاہ جو اس وقت فرانس میں مقیم تھے۔ اس بغاوت کو فرد کرنے کی نیت سے روانہ ہوئے اور افغانستان جاتے ہوئے جب لاہور سے گزرے تو علامہ اقبال ان سے ملنے کے لئے ریلوے اسٹیشن پہنچے۔ ڈاکٹر صاحب مرد درویش تھے۔ روپیہ ان کے پاس کبھی جمع ہی نہیں ہوا۔ خرچ آمدنی سے کچھ زیادہ ہی رہتا۔ وہ تنگی ترشی سے گزر کر کے بھی اللہ تعالیٰ کا شکرادا کرتے۔ مالی مشکلات میں بھی ان کے تیور ملول نہیں ہوئے اوران کی جبین قناعت پر شکن نہیں دیکھی گئی۔

ڈاکٹر صاحب کے پاس اس وقت کئی سو روپوں کی ساری پونجی تھی جسے وہ لے کر نادر شاہ سے ملے اور کہا:’’آپ جس نیک مقصد کے لئے جارہے ہیں، اس کے لئے روپے کی بھی شدید ضرورت ہوگی، اس لئے میرا ہدیہ قبول فرمایئے‘‘۔نادر شاہ ڈاکٹر صاحب کے مالی حالات سے واقف تھے، اس لئے وہ اس پیشکش پر حیران رہ گئے۔ یہ بات آج تک راز بنی ہوئی ہے کہ شاہ نادر خان نے ڈاکٹر صاحب کا یہ نذرانہ قبول کیا یا واپس کر دیا۔ عام خیال و تاثر یہ ہے کہ انہوں نے یہ رقم لینی مناسب نہ سمجھی ہوگی۔ مگر اقبال کی قلندری اور دریا دلی اس شان وصف میں بھی سب سے نرالی ہے۔

نبی کاملؐ

خواجہ کمال الدین کی انگریزی کتاب THE IDEAL PROPHET کا ترجمہ اردو میں ہونے لگا تو یہ سوال سامنے آیا کہ اردو میں کتاب کے نام کا ترجمہ کیا ہونا چاہئے۔ مختلف اصحاب نے اپنی سمجھ اور ذوق کے مطابق مختلف نام بتائے، مگر ان میں سے کوئی نام بھی اصل کتاب کے مفہوم کی صحیح ترجمانی نہیں کرتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے سامنے یہ مسئلہ آیا تو انہوں نے برجستہ فرمایا: ’’نبی کامل‘‘۔

حسن انتخاب

ڈاکٹر صاحب اپنی میکلوڈ روڈ والی کوٹھی میں قیام فرما تھے۔ اس زمانے میں ڈاکٹر صاحب کی قیام گاہ پر ایک نئے ملاقاتی آئے۔ ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ اتنے میں انہوں نے ڈاکٹر صاحب سے ایک سوال کردیا۔ کہنے لگے:

’’آپ نے مذہب، اقتصادیات، سیاسیات، تاریخ اور فلسفہ وغیرہ پر جو کتابیں اب تک پڑھی ہیں ان میں سب سے زیادہ بلند پایہ اور حکیمانہ کتاب آپ کی نظر سے کون سی گزری ہے؟‘‘

ڈاکٹر صاحب اس سوال کے جواب میں کرسی سے اٹھے اور نووارد ملاقاتی کی طرف ہاتھ کا اشارہ کیا کہ تم ٹھہرو میں ابھی آتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ اندر چلے گئے۔ دو تین منٹ میں واپس آئے تو ان کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی۔ اس کتاب کو انہوں نے اس شخص کے ہاتھوں پر رکھتے ہوئے فرمایا: ’’قرآن کریم‘‘۔

عاشق رسولؐ

ڈاکٹر محمد اقبال کی سیرت اور زندگی کا سب سے زیادہ ممتاز، محبوب اور قابل قدر و صف جذبہ عشق رسولؐ ہے۔ ذات رسالت مآبؐ کے ساتھ انہیں جو والہانہ عقیدت تھی اس کا اظہار ان کی چشم نمناک اور دیدہ تر سے ہوتا تھا کہ جہاں کسی نے حضور کا نام ان کے سامنے لیا، ان پر جذبات کی شدت اور رقت طاری ہوگئی اور آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ کا نام آتے ہی اور ان کا ذکر چھڑتے ہی اقبال بے قابو ہوجاتے۔

کفار مکہ نے انسانیت کے اس محسن اعظم کو کس کس طرح ستایا اور کیسے کیسے ظلم و ستم ڈھائے۔ طائف میں حضور کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا۔ ایسا کوئی واقعہ ڈاکٹر صاحب کے سامنے بیان کیا جاتا تو ان کے احباب نے بارہا دیکھا ہے کہ ڈاکٹر صاحب چیخیں مار مار کر رو رہے ہیں اور نڈھال ہوئے جارہے ہیں۔

عشق رسولؐ ڈاکٹر اقبال کے رگ و پے میں سرایت کر گیا تھا اور ان کے ذہن و فکر پر چھا گیا تھا۔ وہ کتنے بڑے فلسفی تھے؟ اور فلسفہ کا سارا معاملہ عقل کے بل بوتے پر چلتا ہے مگر رسولﷺ کی سیرت کی وہ عقل کی کسوٹی جانچنے کی جرات نہ کرتے تھے۔ اس معاملہ میں وہ ایمان بالغیب کے قائل تھے۔ بس جو حضور نے فرمایا! وہ دین و ایمان اور سر آنکھوں پر۔ اس بارگاہ میں چون وچرا کی گنجائش ہی نہیں۔ سمعنا واطعنا اطاعت، فرمانبرداری اور غلامی، یہی ایمان کی دلیل بلکہ بنیاد ہے؎

بہ مصطفےٰ برساں خویش راکہ دیں ہمہ اوست

اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است

(روزگار فقیر سے اقتباسات)

تازہ ترین