• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
حرف بہ حرف…رخسانہ رخشی،لندن
معلوم نہیں کون کونسا زہرپی کر درندے محو رقصاں ہیں۔ یہ زندہ ہیں تبھی محوِ رقص ہیں، مر تو وہ جاتے ہیں جن کی زندگی یہ آگ میں جھونک دیتے ہیں۔ انہیں عرش سے فرش پر پھینک کر رقص کرتے ہیں، کسی کا ظرف کرچی کرچی کرکے رقص کرتے ہیں۔ کسی کو مبتلائے عذاب کرکے رقص کرتے ہیں۔ گناہوں کی دہلیز پر درندوں کا رقص کب تک جاری رہے گا، اور ہم بھی مصلحت کے اسیر ہوکر رقص کرتے زندگی میں رواں دواں رہیں گے۔ ہمیں بھی بھول جاتاہے کہ معصومیت کی بھینٹ چڑھنے والے اگر اپنا زخم بھر بھی لیں تو نقش وہ جوزہر میں بھرے ہوتے ہیں وہ کیسے مٹاپائیں گے۔ آنکھوں کی جھیلوں میں غم کے کون کون سے کنول تیرتے ہوں گے۔ کیوں بھول جاتے ہیں وہ منظر رفتہ رفتہ جو وقتی طورپر ہماری آنکھوں میں خون کے آنسو بن کر بہہ جاتے ہیں۔ دراصل خون تو ہمارے ذہن میں اُتر جانا چاہئے کہ یہ ہمارے دل کی تڑپ کو بھی حادثات و سانحات بھولنے پر مجبور کردیتا ہے۔ اسی ذہن نے کسی کی وقتی تکلیف کو بھولنے کا فن دیکر زندگی کو اور لوگوں کو ضمیر مار کے جینا سکھایا ہے۔ جنہیں مستی سو جھتی ہو وہ پھر بڑے سے بڑے حادثے پر بھی محو رقص ہیں۔ جب انہیں سزاء کا کوئی ڈر نہیں تو وہ حالتِ مستی و رقص ہی میں رہیں گے۔ گناہ ان کے پائوں کی زنجیر نہیں بن سکتے وہ گھنگھرو بن کے ایسے لوگوں کو گناہوں پر اکساتے رہیں گے کہ بعض رزیل لوگ گناہوں کی زندگی کو بہتر سمجھتے ہیں۔ انہیں درندگی اور شیطان زدہ ماحول کے حامی لوگوں کی حمایت حاصل ہے جو لرزہ دینے والے واقعات پر دم بخود ہونے کی بجائے من ہی میں میں خوش ہوتے ہیں یہ کہیں سے بھی انسان تو ہیں نہیں لیکن حیوان بھی ایسے نہیں ہوتے۔ حیوانوں کو بھی کوئی ڈر اور خوف ہوتا ہے مگر یہ انسان نمادرندے حیوانی درندوں سے کہیں آگے ہیں شعور و عقل اس کے حصے میں آئی ہے قدرتی طورپر کاش یہ عقل و شعور حیوانوں میں ہوتی تو دنیا ہی الگ ہوجاتی، انسانی عقل و شعور کی وجہ سے جنگل کا قانون انسانی دنیا میں لے آیا ہے مگر جنگل والے اپنی شعوری قوت سے شاید جنگل میں منگل کرکے انسانیت کو تا راج کر دیتے انسانوں کی بستی میں،ایسا عمل نہ کرتے جس سے انسانیت کو دھچکا لگے اور شیطانیت جھومنے پر مجبور ہو۔خاموش ہی رہتے ہیں ایسے شیطان بلکہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے دشمن اور مخالف، وہ تمام بھی خاموش رہتے ہیں کیونکہ یہ سب پاکستان میں اگر ہوتا تو پاکستان کو بدنام کرنے کا بیڑا اٹھانے والے بدنامی بڑھانے میں رقص کرتے اور جب تک دنیا کے کونے کونے میں جھوم جھوم کر پاکستان کو بدنام نہ کرلیتے انہیں چین نہ پڑتا مگر ابھی پاکستانیوں میں اتنی غیرت موجود ہے کہ وہاں اقلیت کو تحفظ دیا جاتا ہے وہاں کسی کرسچین یا ہندو، سکھ بچے کو زیادتی کے بعد قتل نہیں کیا گیا جب بھی ایسا کوئی گھنائونا واقعہ ہوتا ہےاس کا شکار زیادہ تر اپنے ہی لوگ شیطانیت کے لبادے اوڑھ کر اپنے ہی بچوں کے ساتھ اس زیادتی کے مرتکب پائے جاتے ہیں۔ آج ہم آصفہ بانو کیلئے رو رہے ہیں شعور مچارہے ہیں اس سے پہلے ہم ابھی زینب کیلئے رو کر شور مچا کر خاموش ہوئے ہیں اور ایسا ہوتا رہے گا۔ یہ دھرتی ماں کے درندے پوت شیطانیت کی کھال اوڑھ کر گناہوں کی دہلیز پر رقص کرتے رہیں گے آخر انہیں سزا کیوں نہیں دی جاتی۔ ان غلیظ ہندئووں کا کیا کریں ان پر تو انشا اللہ عذاب خدا وندی کبھی نہ کبھی نازل ہوگا ہی مگر اپنے غلیظ لوگوں سے کیسے نمٹا جائے جن کے گھنائونے جرائم کو ہم ازخود بھول جاتے ہیں۔
قومی اسمبلی میں متفقہ طورپر ان کی سزائوں کا بل منظور کرلیا گیا مگر فوری سزا نہ ملنے کی صورت میں لوگ کہیں نہ کہیں اس جرم سے توبہ نہیں کررہے ہیں کہیں سات سالہ بچی کو زیادتی کے بعد آگ لگادی جاتی ہے۔ کہیں کسی بچی کی نعش کھیتوں سے پائی جاتی ہے۔ابھی ہمیں آصفہ بانو معصوم کا انصاف چاہئے جو درندگی ان چار منحوس خبیث لوگوں نے مچائی ہے ہم ان کی بیٹیوں کیلئے بددعا نہیں کرتے کہ ان کے باپ کے جرائم کی سزا انہیں ملے مگر انہیں یہ خیال بھی نہیں آیا ہوگا کہ ان کی بھی اولاد ہے ان کیساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے اور برا تو ان کا بھی ہوگا جو ان کے خلاف کارروائی کرنے سے کترارہے ہیں۔ خدا بھارت کو مزید ذلیل و رسوا کرے جہاں عورت کی کوئی عزت نہیں ہے۔ اکثر غیر ملکی سیاح خواتین کےساتھ بھی انڈیا میں زیادتی کے واقعات پیش آتے رہے ہیں اور لوگوں نے اس نعرے کی ٹی شرٹ پہن کر احتجاج کیا تھا کہ ’’اب بھارت نہیں جانا‘‘ اب وہاں کے رہنے والے سوچنے لگے کہ وہ قدیم دور میں جو بیٹیاں زندہ دفن کردیتے تھے وہ صحیح ہے کہ اب بھی ایسا ہی ہم ہندوستانی کرنے لگیں۔ یہ بھارتی حکومت کی ڈھٹائی ہے کہ معاملے کو رفع دفع کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مجرموں کو بچایا جارہا ہے۔ اس کی وکیل جو آصفہ کاکیس لڑنے جارہی ہے اسے دھمکایا جارہا ہے۔ بہت سے اداکار جو اس منحوس اور کرب و اذیت ناک واقعے پر آواز بلند کررہے ہیں انہیں بھی کہا جارہا ہے کہ وہ کونسے دودھ کے دھلے ہیں انہوں نے بھی لوگوں کو روند کر گاڑی کے نیچے مارا ہے۔ غالباً ان کا اشارہ سلمان خان کی طرف ہوگا۔ بہت سے ایکٹرز جو آواز بلند کررہے ہیں انہیں بھی ہندوستان چھوڑنے کی دھمکی دی جارہی ہے۔ ایک طرف تو معصوم آصفہ سے یہ ظلم و زیادتی ہوئی اور دوسری طرف مودی برطانیہ آنے کو رقصاں ہوئے اور لوگ بھی گجراتی کمیونٹی کے جھوم جھوم کے ان کا استقبال کرتے رہے۔ ایسی بے حس قوم ہے جنہیں آصفہ سے ہوئی زیادتی کا چنداں افسوس نہیں۔ کیا کہتی ہوگی ہمارے معصوم بچوں کی روحیں، جنہیں زیادتی کے بعد بری طرح مار دیا جاتا ہے۔ وہ وہاں بھی تڑپتی ہونگی کہ ہمیں اذیت پہنچانے والے سرعام رقصاں رہتے ہیں مگر انہیں ہمارے جیسی نہ سہی کم از کم ہمارے سے کم اذیت میں سزا دو مگر دو تو سہی اور ہم سب اس بات پر دکھی ہیں کہ خدایا! کبھی ایسی فضاء رقصاں نہ ہو کہ جس میں زیادتی و درندگی کے واقعات کو ہم لوگ عام سی بات سمجھ لیں۔ جیسے قتل و غارت گری کے سب عادی ہوتے جارہے ہیں کہ کس کس کو روئیں عام ہوگیا ہے اب قتل و غارت کا بازار بھی۔
تازہ ترین