• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

داعش جہادیوں سے شادی کرنے والی 3خواتین نےواپسی کی اجازت مانگ لی

لندن(نیوز ڈیسک) داعش کے جہادیوں سے شادی کرنے والی 3 جرمن خواتین نے وطن واپس آنے کی اجازت مانگ لی۔ ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق ان کی شناخت صرف 32سالہ ایزی، 33سالہ لنڈا اور29سالہ نیڈئن کے طور پر کی گئی ہے۔ خود کو جرمنی میں اپنے اسلامی عقائد کے باعث برے سلوک کی متاثرہ سمجھنے والی ان خواتین نے نئی زندگیوں کے آغاز کیلئے مشرق وسطیٰ کا سفر کیا۔شمالی شام میں جرمن اخبار ’’بلڈ‘‘ کو دیئے گئے انٹرویو میں لنڈا کا کہنا تھا کہ حجاب اوڑھنے کی وجہ سے جرمنی میں میرے ساتھ خراب سلوک کیا گیا جس کی وجہ سے میں نے داعش میں شمولیت کا فیصلہ کیا۔میری خواہش تھی کہ میں اپنے مذہب کے مطابق اپنی زندگی فیملی کے ہمراہ گزاروں۔میونخ کی ہائی سکول گریجویٹ ، لنڈا نے اس وقت مسیحیت چھوڑ کر اسلام قبول کیا اور ایک ترک سے شادی کر لی جب وہ نوجوان تھی۔اس نے یہاں تک کہا کہ ’’ اپنے مذہب کی وجہ سے میرے شوہر اور مجھ پر سڑکوں پر حملے کئے گئے۔ایک بہن نے تب مشورہ دیا کہ ہمیں داعش میں شمولیت اختیار کر لینی چاہئے۔اس کے چار بچوںمیں سےایک داعش کے دارلحکومت رقہ میں پیدا ہوا۔لنڈا نے دعویٰ کیا کہ اس کو قطعی علم نہیں تھا کہ داعش کی اصلیت کیا ہے۔اس نے دعویٰ کیا کہ اسے سر قلم کئے جانے ، لڑکیوں کو جنسی غلام بنائے جانے اور اجتماعی قتل کے بارے میں کچھ بھی نہیں پتہ تھا۔ نیڈئن بھی جوان عمری میں انتہا پسند بنی، اس نے بھی جرمن سماج پر خود کو شام جانے پر مجبور کر دینے کا الزام عائد کیا۔اس کا کہنا تھا کہ حجاب اوڑھنے کی وجہ سے میرے سر پر کافی انڈیل دی گئی تھی۔ مجھے مارا پیٹا گیا اور میری چیزیں تباہ کر دی گئیں۔ اس کا کہنا تھا کہ اگر جرمنی میں مسلم خواتین سے بہتر سلوک کیا جاتا تو90فیصد خواتین کبھی بھی وطن کو خیرباد نہ کہتیں۔جب پیرس میں نومبر 2015 میں حملہ ہوا تو اس کی والدہ نے واٹس ایپ پر اس سے کہا کہ تم میں سے ایک نے یہ حملہ کیا۔ نیڈئن کا کہنا تھا کہ مجھے ماں کی باتوں پر یقین نہیں آتا تھا، آہستہ آہستہ میری سمجھ میں آیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔رقہ کو خالی کرانے کی لڑائی کے دوران وہ اپنے شوہر اور بچوں کے ہمراہ وہاں سے فرار ہو گئی مگر کردش فورسز نے گرفتار کر کے کیمپوں میں ڈال دیا ہے۔ اس نے بتایا کہ یہ کیمپ جیلوں کی طرح ہیں ۔ ہمیں کیمپ سے جانے کی اجازت نہیں۔ میں جرمن واپس جانا چاہتی ہوں۔ اس نے مزید کہا کہ میں جانتی ہوں کہ جرمن عوام واپس آنے والوں سے ڈرتے ہیں۔ تینوں میں سے ایزی واحد ہے جس نے داعش کے ہاتھوں ڈھائی جانےوالی تباہی اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا اعتراف کیا۔ اس نے بتایا کہ ان لوگوں نے شہر بھر میں ہر جگہ لوگوں کو مار کر لاشیں رسیوں سے باندھ کر لٹکا دی تھیں۔ اس نے کہا کہ میں جانتی ہوں کہ رسول خدا یہ راہ اختیار کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ایزا نے مزید کہا کہ اب ہمیں نئے نام اور مقامات کی ضرورت ہوگی کیونکہ اسلام پسندوں کی جانب سے قتل کئے جانے کے خدشہ کا سامنا ہے۔
تازہ ترین