• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آم پکنے والے ہیں۔
کوئل کی کُو کُو دن بھر کانوں میں رس بھی گھول رہی ہے اور بیتے دنوں کے زخم بھی تازہ کررہی ہے۔ وہ بھی اپنے کسی گم شدہ محبوب کی تلاش میں ہے۔ ہم بھی اپنے لاپتہ افراد کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ اپنی کھوئی ہوئی منزلوں کی جستجو میں ہیں۔ ان دنوں ہم جس کیفیت سے گزر رہے ہیں۔ اسے کیا نام دیا جائے۔ درد کا حد سے گزرنا ۔ کسی نومولود کی آمد سے پہلے کا کرب۔
سیاست جو سب سے اہم اور مقدس عمل ہے۔ جو کروڑوں زندگیوں کی تقدیر کا فیصلہ کرتی ہے۔ منزل کا تعین کرتی ہے۔ راستہ دکھاتی ہے۔ رہبری۔ رہنمائی۔ قیادت بہت ہی تقدیس اور وقعت کے مناصب ہیں۔ کسی ایک شخص کے جیون کو بہتر کرنا عبادت خیال کیا جاتا ہے۔ اور جن سعید روحوں کو لاکھوں کروڑوں افراد کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کا فریضہ تفویض کیا جائے وہ ہمارے لئے کتنے محترم اور معزز ہونے چاہئیں۔ جو ہمارے لئے پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کی جدو جہد کررہے ہوں جو پانی کے ذخیرے کے لئے ڈیم تعمیر کرتے ہوں۔ جو ہمیں اچھی شاہراہیں بناکر دیتے ہوں۔ جو ہمیں ایک مقام سے دوسرے مقام تک ۔ گھر سے دفتر تک۔ جھگّی سے فیکٹری تک جانے کے لئے محفوظ ٹرانسپورٹ کا اہتمام کرتے ہوں۔ جو یہ انتظام کرتے ہوں کہ ہمیں کھانے کے لئے خالص اشیا ملیں۔ جو ہمارے بچوں کے لئے محفوظ درسگاہیں تعمیر کرواکے دیتے ہوں۔ جو ہمارے مستقبل کو روشن کرنے کے لئے ہمارے مزاج۔ شعائر کے مطابق نصاب کا انتخاب کرتے ہوں ۔ جو اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال نہ کرتے ہوں۔ جو امانت میں خیانت نہ کرتے ہوں۔ ایسے عظیم پاکستانیوں کو تو رُسوا نہیں ہونا چاہئے۔بدنامی ان کا مقدر نہیں ہونی چاہئے۔ ان کی کردار کشی نہیں ہونی چاہئے۔
یہ تمام مناصب سیاستدانوں سے منسوب کیے جاتے ہیں ۔ یہ سب ہی ارفع اور اعلیٰ افعال ہیں۔ بہت دُکھ ہوتا ہے جب کہیں کہا جاتا ہے۔ پلیز۔ سیاسی گفتگو نہ کریں۔ یا یوں اظہار کیا جائے۔ کام کہاں ہورہا ہے۔ سیاست ہورہی ہے۔ کھیلوں میں شکست ہوجائے تو برملا کہہ دیتے ہیں۔ یہ سب کھیلوں میں سیاست کا انجام ہے۔ جو افسر اچھا کام نہ کریں۔ ذمہ داری سے فرائض انجام نہ دیں۔ نا اہلی کا مظاہرہ کریں۔ فوراً فیصلہ صادر کردیا جاتا ہے۔ سیاسی بنیادوں پر تقرری سے یہی نتائج برآمد ہونا تھے۔
خود ہی کوئی بیان جاری کرتے ہیں۔ اگر عدالت اس پر سوال اٹھادے۔ ثبوت مانگے تو وکیل کے ذریعے کہلادیا جاتا ہے یہ سیاسی بیان تھا۔ تو یہ ظاہر کیا جاتا ہے اور خود سیاستدان یہ تسلیم کرتا ہے کہ سیاست میں جھوٹ بولا جاسکتا ہے۔
کوئی اچھی شہرت رکھنے والا سیاست میں آجائے اور سچ ہی بولتا رہے ۔ آئین اور قانون کے مطابق قدم اٹھائے تو کہتے ہیں۔ بے چارے کو سیاست نہیں آتی۔تاریخ گواہی دیتی ہے ۔ ایئر مارشل اصغر خان کے شاندار ماضی کی۔ وہ سیاست میں کامیاب نہیں ہوسکے تو سب نے کہا کہ وہ سیاست کے اہل ہی نہیں تھے۔ انہیں اس میدان میں آنا ہی نہیں چاہئے تھا۔
کیا سیاست عیاری۔ چالاکی۔ جھوٹ۔ ہیرا پھیری ۔ فریب۔ تصنع کا نام ہے؟ کیا سیاست کی یہ تعریف صرف پاکستان میں ہے یا دوسرے ملکوں کی لغت میں بھی سیاست اسی کا نام ہے؟ کیا وہاں بھی سب سیاستدان جھوٹ بولتے ہیں؟ ایک دوسرے کو دھوکہ دیتے ہیں؟ اسی طرح ناجائز پیسہ بناتے ہیں؟
پاکستان کی شرم دلاتی تاریخ پر نظر ڈالیں ہم جیسے گنہگار جو پاکستان کے ہم عمر ہیں۔ تاریخ کے ساتھ ساتھ سفر کرتے رہے ہیں۔ ان کو تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیاستدانی صرف جاگیرداروں۔ سرداروں۔ زمینداروں سے منسوب ہوکر رہ گئی ہے۔ اب اس میں صنعت کار ۔ سرمایہ دار۔ کاروباری داخل ہورہے ہیں۔ اگر وہ بھی جاگیرداروں۔ سرداروں جیسی عادات اختیار کرلیں تو وہ کامیاب سیاستدان کہلا سکتے ہیں۔ یہی صفات ریٹائرڈ جرنیلوں۔ ریٹائرڈ ججوں۔ کھلاڑیوں کو بھی اختیار کرنی چاہئیں۔ اگر وہ نہ کرسکیں تو کامیاب نہیں ہوں گے۔ شوکت عزیز اگر معیشت کو مستحکم کرنے کو پیش نظررکھیں تو وہ کامیاب سیاستدان نہیں ہیں ۔ انہیں ٹکٹ نہیں دیا جاسکتا۔
پڑھے لکھے لوگ الیکشن میں حصّہ لینے کا اگر سوچیں تو انہیں ڈرایا جاتا ہے کہ آپ سیاستدان نہیں ہو۔ آپ کامیاب نہیں ہوگے۔ انہیں مسائل میں الجھے لوگ ووٹ بھی نہیں دیتے۔ یہ تاثر اور تصور پختہ ہے کہ پڑھے لکھے۔ ناداروں۔ غریبوں اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے صرف ووٹ دے سکتے ہیں۔ ووٹ لے نہیں سکتے۔ ووٹ لینے کا حق صرف ان کو ہے جو انگریز کے زمانے سے ووٹ لیتے آرہے ہیں۔ اسمبلی میں صرف ان کو ہی داخل ہونا چاہئے۔ جن کے دادا۔ نانا۔ تایا۔ چچا اسمبلیوں میں رہے ہیں۔
ایک مفروضہ یہ بھی طے کرلیا گیا ہے کہ سیاست کے لئے صرف خاندانی ہونا ضروری ہے۔ اس کے لئے علم اور تربیت درکار نہیں ہیں۔ پہلے ان بڑے خاندانوں میں ایک روایت چلی آتی تھی کہ یہ اپنی اولاد کو لندن یا امریکہ میں اعلیٰ تعلیم کیلئے بھیجتے تھے کیونکہ اس وقت یہ تصور تھا کہ الیکشن لڑنے کے لئے باہر کی تعلیم ہونی چاہئے لیکن 70کی دہائی کے بعد یہ سلسلہ بھی ختم ہوگیا کیونکہ اقتدار میں آنے کے لئے دوسرے فارمولے اور نسخے کام آنے لگے۔
سیاست کو ایک بدنام پیشے کا تصور دینا بنیادی طور پر تو خود سیاستدانوں کا اپنا فعل ہے۔ ایک سیاسی پارٹی دوسری سیاسی پارٹی کے اسکینڈل اچھالتی ہے۔ پہلے یہ مرحلہ صرف بیانات تک محدود ہوتا تھا۔ اب ٹاک شوز میں خوب ایک دوسرے کے لتّے لئے جاتے ہیں۔ ایسے ایسے عیوب ۔ قانون شکنی کے واقعات سامنے لائے جاتے ہیں کہ کسی عدالت یا ادارے کو حرکت میں آنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔اور یہ سب کچھ یو ٹیوب میں محفوظ ہوجاتا تھا۔
سیاست کو خود سیاستدانوں نے اتنا بدنام کردیا ہے کہ اچھے گھروں کی مائیں اپنے بیٹوں بیٹیوں کو پہلی اور آخری نصیحت یہی کرتی ہیں بیٹا سیاست کے گند سے بچنا۔
سیاست جیسا مقدس ادارہ کردار کشی کے جس مقام پر پہنچادیا گیا ہے اس سے واپسی کیسے ممکن ہوسکتی ہے۔ اس کے لئے خود سیاسی جماعتوں کو ہی سوچنا ہوگا۔ درد حد سے گزر چکا ہے۔ اب اسے دور ہوجانا چاہئے۔ اگر سیاستدان دل سے یہی سوچتے ہیں کہ ان کے بارے میں فیصلے کا حق صرف اور صرف عوام کو ہے اور وہ یہ فیصلہ الیکشن میں دیتے ہیں تو الیکشن کے عمل کو اتنا وقیع اور شفاف بنایا جائے کہ ووٹر کے پاس انتخاب کے امکانات بہت زیادہ ہوں۔ قومی سیاسی پارٹیاں ایسے پڑھے لکھے ، ماہرین کو ٹکٹ دیں جو واقعی وزارت خزانہ، وزارت خارجہ، وزارت تجارت اوروزارت تعلیم سنبھال سکیں۔ آپ کو یہ اعتبار ہے کہ آپ کی پارٹی کو عوام پسند کرتے ہیں تو آپ اہلیت رکھنے والے پاکستانیوں کو پارٹی ٹکٹ کیوں نہیں دیتے۔ وہ خود تو کامیاب نہیں ہو سکتے ۔ آپ کا ٹکٹ انہیں کامیاب کرسکتا ہے۔سیاسی پارٹیوں کے ٹکٹ پر اگر بااصول۔ تربیت یافتہ۔ تجربہ کار پاکستانی اسمبلیوں میں پہنچیں گے ۔ سنجیدہ باتیں کریں گے۔ مسائل کو حل کریں گے تو سیاست بدنام نہیں ہوگی۔ سیاست دانوں کی کردار کشی نہیں ہوگی۔ کوئی شاعر یہ نہیں کہے گا:
مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین